بھارت کی چانکیائی سیاست اور
حکومتی ذمہ داریاں
بھارتی سیاست میں”جس کی لاٹھی اُس کی بھینس“۔”آپ کا ہمسایہ ہمیشہ آپ کا
دشمن ہوتا ہے، جبکہ ہمسائے کا ہمسایہ آپ کا دوست ہوتا ہے“ ۔”دشمن کی طرف
محبت و دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ، جب وہ قریب آئے تو اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ
دو، پھر اس کے ساتھ مل کر بچاؤ، بچاؤ کی آواز نکالو اور جب دشمن مر جائے تو
اس کی لاش پر بین کرو“۔”اپنی کمزوری اور اپنی ناکامی کو کبھی تسلیم نہ کرو،
ہمیشہ اپنی شکست کا الزام دوسروں پر تھوپ دو“۔”اپنا اندورنی اتحاد قائم
رکھنے کیلئے ہمیشہ کسی نہ کسی بیرونی طاقت سے جنگ چھیڑے رکھو۔“پہلی ہندؤ
سلطنت کی بنیاد رکھنے والے چندر گپت موریہ کے وزیر چانکیہ کے وہ پانچ اصول
ہیں، جن کو بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے بھارت کی قومی
پالیسی کا حصہ بنایا اور آج 62سال گزرنے کے بعد بھی بھارت کی قومی پالیسی
انہی چانکیائی اصولوں کے گرد گھوم رہی ہے، آج بھارت جس کی لاٹھی اُس کی
بھینس کے اصول پر گامزن ہے، وہ اپنے ہمسایوں پاکستان اور چین کو اپنا دشمن
اور ایران افغانستان اور روس کو اپنا دوست سمجھتا ہے، اسی رویہ کی وجہ سے
نیپال، سکم، بھوٹان، سری لنکا، مالدیپ، میانمار حتیٰ کہ چین جیسے پڑوسی ملک
بھی بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور ہمسایوں پر دباؤ اور دھمکیوں کے
ہتھکنڈوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
بھارت کبھی بھی اپنی اور اپنے سیکورٹی اداروں کی ناکامی تسلیم کرنے کے
بجائے ہر چھوٹے بڑے واقعہ کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دیتا ہے، وہ اپنے
اندورنی اتحاد کو قائم رکھنے کیلئے گزشتہ کئی عشروں سے کشمیر اور آسام میں
جنگی کاروائیوں میں مصروف ہے اور گزشتہ 62سالوں سے بھارت مذاکرات کی آڑ میں
پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ اور ناراض عناصر کے ذریعے بلوچستان اور
پاکستان کے دیگر علاقوں میں علیحدگی پسند تحریکوں کی پشت پناہی کر کے ہماری
پیٹھ میں چھرا گھونپ رہا ہے، بھارت کی یہ پاکستان دشمن پالیسیاں تسلسل کے
ساتھ جاری ہیں اور اب تو بلوچستان اور وزیرستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت
قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش بھی کئے جاچکے ہیں، جس پر
کمیٹی نے حکومت کو سفارش کی ہے کہ یہ ثبوت بھارت کے علاوہ امریکہ کے حوالے
کیے جائیں اور یہ معاملہ عالمی برادری میں اٹھایا جائے۔
یہ درست ہے کہ بھارت پاکستان میں تخریبی کاروائیوں میں پوری طرح ملوث ہے،
جس کا ثبوت گزشتہ دنوں جنوبی وزیرستان میں جاری آپریشن راہ نجات کے دوران
برآمد ہونے والا وہ بھارتی اسلحہ اور لٹریچر ہے ،جسے پاک فوج نے اپنے قبضے
میں لے کر وزارتِ خارجہ کو بھجوا دیا ہے، یہ حقیقت تو سوات، مالاکنڈ کے
آپریشن راہ راست کے دوران بھی منظر عام پر آچکی ہے کہ بھارت افغانستان میں
قائم کئے گئے اپنے قونصل خانوں کے ذریعہ دہشت گردوں کو تربیت اور اسلحہ دے
کر دہشت گردی کیلئے پاکستان بھجوا رہا ہے، مگر ہمارے حکمرانوں نے نامعلوم
وجوہات کی بنیاد پر اس معاملہ میں خاموشی اختیار کئے رکھی اور پاکستان کے
مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت ملنے
کے باوجود کھلم کھلا بھارت کا نام لینے سے گریز کیا، جبکہ بھارت نے ممبئی
حملوں کا ڈرامہ رچا کر فوری طور پر اس کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے میں کوئی
کسر نہیں چھوڑی تھی اور اسی کی بنیاد پر بھارت آج بھی ہمیں دہشت گرد ریاست
قرار دلانے کی سازشوں میں مصروف ہے۔
دوسری طرف سفارتی ذرائع بھی اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ کیری لوگر بل
میں پاکستان سے خود کو دہشت گرد ریاست تسلیم کرانے کی شرط بھارتی لابنگ کا
ہی شاخسانہ ہے، اب جبکہ وزیرداخلہ رحمان ملک بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے
ثبوت ملنے کا اظہار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں مگر لاہور، پشاور، اسلام آباد
اور راولپنڈی میں دہشت گردی کے واقعات میں شواہد موجود ہونے کے باوجود
بھارت کے ملوث ہونے کا اظہار کرنے میں احتیاط سے کام لیا جارہا ہے، اگر
ہمارے حکمرانوں کی جانب سے بھی بھارت جیسا جارحانہ رویہ اختیار کیا جاتا
اور پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت
بروقت دنیا کے سامنے پیش کر کے پاکستان کی سالمیت کے خلاف بھارت کے مکروہ
عزائم کو بے نقاب کر دیا گیا ہوتا تو آج صورتحال قدرے مختلف ہوتی اور
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن بھارت کے دفاع میں یہ کہتے ہوئے یقیناً
سوچتی کہ ہمیں بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔
اس وقت حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں کی گئی دہشت گردانہ سرگرمیوں
میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے
سامنے پیش کئے جانے اور کمیٹی کی طرف سے ان ثبوتوں کو بین الاقوامی فورموں
اور خود بھارتی حکام کے سامنے پیش کرنے کی سفارش پر عمل درآمد میں مزید
تاخیر کی اب کوئی گنجائش اور ضرورت نہیں ہے، یہ درست ہے کہ ہم اپنا پڑوس
تبدیل نہیں کرسکتے، لیکن اپنے ہمسایہ ملک سے اچھے تعلقات رکھنے کی خواہش کا
یہ مطلب ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ ماضی میں پاکستان کی بقا و سلامتی کے خلاف
کئے گئے سنگین اقدامات، کشمیر سمیت تمام دیرینہ تنازعات کے حل پر بھارت کی
ہٹ دھرمی اور اس وقت بھی مختلف سطحوں پر جاری سازشوں کو نظرانداز کردیا
جائے اور ہم بھارتی وزیر اعظم سے اظہار محبت میں نئی دہلی کو ماضی، حال اور
مستقبل میں وطن عزیز کے لئے کوئی خطرہ نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ دیدیں، اس لئے
ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی معاملات سے تعلق رکھنے والے حقائق کو پوری طرح
ملحوظ رکھا جائے۔
جہاں تک سرحد اور بلوچستان کی دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کا تعلق
ہے، اس کے لئے قیام پاکستان کے وقت بھارتی لیڈروں کی طرف سے پاکستان کے چھ
یا آٹھ مہینے سے زیادہ نہ چلنے کی پیش گوئیاں، پاکستان سے الحاق کرنے والی
ریاستوں حیدرآباد دکن، جونا گڑھ، ماناودر، منگرول پر حملے اور قبضے، مسلم
اکثریت والے علاقے جموں و کشمیر کے پاکستان سے الحاق کو روکنے کے لئے وہاں
بھارتی فوجیں اتارنے، اقوام متحدہ میں کشمیریوں کو استصواب رائے کے ذریعے
اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے وعدے سے انحراف کر کے نو لاکھ فوجیوں کے
ذریعے ظلم و ستم کا بازار گرم کرنے، بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام کر کے
نوزائیدہ مملکت پر لاکھوں مہاجرین کا بوجھ لادنے اور پاکستان پر کئی جنگیں
مسلط کرنے کے واقعات بھارت کی مخصوص ہندؤ ذہنیت کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں
اور پھر جس انداز سے ملک کے مشرقی بازو کو پہلے مکتی باہنی کی دہشت گردیوں
کی پشت پناہی اور پھر ننگی جارحیت کے ذریعے علیحدہ کیا گیا، اس کے بعد
بھارت پر کسی بھی معاملے میں آنکھیں بند کر کے اعتماد کرنے کا کوئی جواز
نہیں رہا ہے۔
چنانچہ اس منظر نامے میں افغانستان میں پاکستانی سرحد کے قریب قائم کئے گئے
متعدد بھارتی قونصل خانوں کے مقاصد بالکل واضح ہیں، یہ حقیقت ہے کہ قیام
پاکستان کے وقت سے ہمارے سرحدی علاقوں میں گڑبڑ کی کئی ایسی کوششیں کی گئیں
جن میں بھارت کا ہاتھ نمایاں تھا، توجہ طلب امر یہ ہے کہ افغانستان پر غیر
ملکی فوجوں کے قبضے کے بعد بھارتی خفیہ ایجنسی را، اسرائیلی ایجنسی موساد،
روسی ادارے کے جی بی اور افغان خفیہ ادارے خاد کا گٹھ جوڑ نہ تو کسی سے
ڈھکا چھپا ہے اور نہ ہی ان سب اداروں کا تعاون و اشتراک افغانستان پر قابض
امریکہ اور اس کے اداروں کے تعاون کے بغیر ممکن ہے، لیکن بدقسمتی سے اس
حقیقت سے آگاہی کے باوجود ہمارے حکمران گو مگو کی کیفیت کا شکار اور عالمی
برادری کو خطے کے اصل حقائق سے درست طور پر آگاہ کرنے سے قاصر ہیں۔
حیران کن امر یہ ہے کہ حکومت پر وہ کون سا پراسرار دباؤ ہے جس نے اب تک اسے
فاٹا میں ملنے والے غیرملکی اسلحے، دواؤں اور بعض مرنے والوں کی واضح شناخت
سے دنیا کو آگاہ کرنے سے روکے رکھا تھا، حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے بلوچستان
میں بھارتی مداخلت کے شواہد پیش کرنے میں غیر معمولی تاخیر سے کام لیا ہے،
لیکن اب جبکہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں بلوچستان اور
وزیرستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت پیش کئے جانے کے بعد توقع کی جاتی ہے
کہ کمیٹی کی سفارش کے بموجب مذکورہ شواہد امریکہ، بھارت اور عالمی برادری
کے سامنے جلد پیش کردیئے جائیں گے اور اس ضمن میں دنیا کو تمام ہمسایہ
ممالک کے ساتھ بھارت کے معاندانہ طرز عمل اور بھارت میں چلنے والی سیکڑوں
علیحدگی کی تحریکوں سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے پڑوسیوں پر الزام
تراشیوں، داخلی مسائل کی سنگینی اور الیکشن کے انعقاد کے وقت پاکستانی
سرحدوں پر فوجیں جمع کرنے اور خود اپنے ملک میں سرکاری سرپرستی میں سمجھوتہ
ایکسپریس کی بہیمانہ آتشزدگی اور گجرات و احمد آباد کے انسانیت سوز مسلم
قتل عام سمیت ہزاروں مسلم کش فسادات کرانے کے حربوں کی طرف مبذول کرانا بھی
ضروری ہے۔
تاکہ دنیا کے سامنے بھارت کا حقیقی چہرہ سامنے آسکے، ہمارا ماننا ہے کہ اس
وقت حکومت کیلئے مصلحت سے کام لینا قومی مفادات کے سراسر منافی ہوگا،
کیونکہ ملکی اور قومی سلامتی بہرصورت ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کی
اولین ترجیح اور ذمہ داری ہوتی ہے جو اس وقت امریکی بھارتی اور اسرائیلی
شیطانی عزائم کی وجہ سے سخت خطرے میں نظر آرہی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ اب وہ
وقت آگیا ہے کہ پاکستان عالمی برادری کو بتا دے کہ جو ممالک دہشت گردی کے
خلاف جنگ کے چیمپئین بنے ہوئے ہیں ان کا اصل کردار کیا ہے، لہٰذا وقت کا
تقاضہ یہ ہے کہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے وزارت خارجہ کو جو ثبوت اور شواہد
فراہم کئے گئے ہیں ان کی بنیاد پر اقوام عالم کے سامنے بھارت کی منافقت
آمیز چانکیائی کو بے نقاب کر کے اس کا اصل مکروہ چہرہ نہ صرف سامنے لایا
جائے بلکہ بھارتی سرپرست امریکی انتظامیہ پر بھی یہ واضح کردیا جائے کہ جس
دشمن کو وہ ہمیں اپنا دوست سمجھنے کا مشورہ دے رہے ہیں وہی تو ہمارا اصل،
بدترین اور ازلی دشمن ہے جو ہماری سالمیت، بقاء اور استحکام کو نقصان
پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دے رہا۔ |