مسلم لیگ ن کے صدر، سابق
وزیراعظم وقائدحزب اختلاف آزادجموں وکشمیرقانون سازاسمبلی راجہ فاروق
حیدرخان نے ایک مقام پرگفتگومیں کہاہے کہ وہ صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون
تسلیم نہیں کرتے ۔انہوں نے وضاحت سے کہاکہ’’ ریاست کے تین ہی ستون
ہیں،مقننہ،عدلیہ اورانتظامیہ۔یہ چوتھاستون کہاں سے آگیاہے‘‘۔ہم
باوجودہزارطرح کے اخلاقی،فکری ونظریاتی اختلافات کے ،راجہ فاروق حیدرخان
سمیت بلاتفریق تمام دینی،سماجی وسیاسی قیادت کا احترام کرتے ہیں۔فاروق
حیدرخان کے اس بیان پر ہمیں بحث کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔اس لیے کہ ان کا یہ
معمول اورشائدمن پسندمشغلہ بھی ہے۔یہ تقریباًہرمقام پر پریس کے حوالے سے
اپنی پھلجھڑیاں بکھیرتے ہی رہتے ہیں۔ہم کوشش کرتے ہیں ان محرکات کو زیربحث
لانے کی ،جو باعث بن رہے ہیں مقدس صحافت کی تذلیل کا۔
کمیونسٹوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے مضمرات بیان کرتے ہوئے جب موجودہ نظام
سرمایہ کاری وسرمایہ داری پرتنقیدکی توسرمایہ دارانہ دنیاکے
پریس(Media)کوخصوصی طورپرنشانے پررکھا۔کارل مارکس کے فکروفلسفہ کے مطابق
سرمایہ دارانہ نظام میں ریاست کے مقتدربالادست ومتمول طبقات مختلف حیلوں
بہانوں سے پریس پراثراندازہوتے ہیں اورسرمایہ دارانہ نظام کے علمبرداراپنے
ہاں پریس کی آزادی کاجوڈھنڈورہ پیٹتے ہیں وہ محض فریب وسراب ہے۔کمیونزم کے
حامی دانشوروں اورادیبوں نے پریس پر کافی بحث وتمحیص کے بعد اپنے تئیں ثابت
کرنے کی کوشش کی ہے کہ سرمایہ دارانہ دنیاکامیڈیاآزادنہیں ہے اورپریس کے
کارپردازسرمایہ داروں کے تابع مہمل ہوکر کام کررہے ہیں۔ایک صورت یہ بھی
بتائی گئی ہے کہ اگرکسی طرف سے سرمایہ دارانہ نظام میں پریس کی چولیں زیادہ
سخت ہوجائیں توپھروہاں’’ڈیل ‘‘کرکے پریس کو رام کرلیاجاتاہے۔اگرہم
غیرجانبدارزاویہ نگاہ سے کمیونسٹوں کے اس موقف کا جائزہ لیں توان کا نقطہ
نظرکافی باوزن نظرآتاہے۔فی الواقع پریس میں بے شمارایسے چوردروازے موجودہیں
جوسرمایہ دارانہ نظام میں پریس کادائرہ ءِ وسعت محدودکردیتے ہیں۔پریس کو
ریاست کا چوتھاستون قراردیاگیاہے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں
ریاست کے اس چوتھے ستون کوجڑوں سے ہی دیمک لگی ہوئی ہے ۔مختلف علمی حلقے
جوچاہے استدلال وموقف اختیارکرلیں وہ اس حقیقت کوجھٹلانہیں سکتے کہ ہمارے
ہاں پریس کی آزادی توایک طرف پریس کی شاخ شاخ ،ڈالی ڈالی اور پتے پتے کے
ساتھ ڈیل کی جارہی ہے ۔یہ سب کیسے ہورہاہے اورکیوں ہورہاہے، اس کاایک بڑا
اور کلیدی عامل خودپریس سے وابستہ اہلکارہیں۔جومختلف حیثیتوں سے درجہ بدرجہ
پریس میں اپنے دائرہ کارکے مطابق ڈیل کرتے ہیں یاکمپرومائزلرلیتے ہیں۔اس
ڈیل سے پیسہ ،مراعات اوررعائتیں حاصل کرتے ہیں۔یہی وہ بنیادی محرکات ہیں جو
پریس کی حرمت کوبری طرح مسخ کرنے سمیت حقائق کوبھی چھپادیتے ہیں اورپریس کی
آزادی پر بدنماداغ بن جاتے ہیں۔بات کومذیدوضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے اس
مثال کو سامنے رکھ لیجئے۔ایک رپورٹراپنی جان پہ کھیل کرکوئی خبرثبوت کے
ساتھ حاصل کرلیتاہے اورلاکرمتعلقہ شعبے کودے دیتاہے۔مالک(جوبنیادی
طورپرخودایک سرمایہ داراورسرمایہ کارہی ہے) جب اس خبرکو دیکھ لیتاہے تو اس
کی سرمایہ دارانہ رگ پھڑک ا ٹھتی ہے اور اسے اپنے دوسرے سرمایہ دارسے ڈیل
کاایک نیاموقع مل جاتاہے،اس مالک کویاتواپنے بزنس کامرض لاحق ہوجاتاہے
یاپھرکئی طرح کے دیگرمفادات نظرآجاتے ہیں۔وہ فوراًمتعلقہ فردیاادارہ سے
رابطہ کرلیتاہے۔یوں اس خفیہ ڈیل کے نتیجہ میں خبرغائب کردی جاتی ہے اوراصل
حقائق عوام تک نہیں پہنچ پاتے۔اس طرح کی بیسوں مثالیں ہماری نظرسے گزرتی
رہتی ہیں مگرمعاملہ یہی ہے کہ ڈیل ہوچکی ہوتی ہے،معاملہ دبادیا
جاتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ پریس، جس کو ہم آزادپریس کا نام دیتے ہیں،ایسی ہی
ڈیلز،کمپرمائزز،دھونس،دھمکیوں اورمفادات کے تابع تقریباً70 فیصدحقائق
منظرعام پر نہیں لاسکتا۔دوسری جانب اگرچہ مختلف سیاسی جماعتیں،مذہبی
تنظیمیں اورکمرشل ادارے بھی پریس پراپنی گرفت مظبوط بنانے کے لئے وسائل اور
اثررسوخ استعمال کرتی ہیں تاہم پریس کی آزادی میں حائل بڑی رکاؤٹوں میں سے
ایک نمایاں رکاؤٹ ہردورکے حکمران،بیوروکریٹس اورمقتدربالادست طبقہ
ہوتاہے۔آپ دیکھتے ہیں کہ حکومتوں کی جانب سے ان کے سیاسی ہم خیال ،چاپلوس
اورہاں میں ہاں ملانے والے ذرائع ابلاغ کو نوازاجاتاہے اور جن اداروں کی
پالیسیاں ان کے برعکس ہوں انہیں زیرعتاب رکھاجاتاہے۔
پاکستان کے حالات سے قطع نظرجب ہم آزادکشمیرکے پریس پر نظرڈالتے ہیں تو
ہمیں مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں امیدکی کوئی کرن نظرنہیں آتی۔یہاں
مالکان سے لے کرشعبہ صحافت سے وابستہ ایک چھوٹے درجے کے اہلکارتک‘ہرایک
فردگومگوکی کیفیت سے دوچارنظرآتاہے۔آپ نے دیکھا،ایک انتہائی ددرویش صفت
شخصیت دل محمدعباسی کے ساتھ کیاسلوک روارکھاگیا۔دل محمدعباسی کاتعلق کھاوڑہ
کے علاقہ کتھیلی سے تھا۔آپ عرصہ تیس سال سے زائدشعبہ صحافت سے وابستہ تھے
اور ’’صدائے وقت‘‘کے نام سے اپناایک ہفت روزہ راولپنڈی سے نکالتے تھے۔دل
محمدعباسی مرحوم کے ساتھ مجھ ناچیزکوایک سال تک کام کرنے کاموقع ملا۔اُنہیں
حالات کی ستم ظریفی نے اپاہج کرکے رکھ دیاتھااورپھروہ اسی بے بسی ولاچارگی
کے عالم میں تقریباًایک سال تک بسترمرگ پہ رہنے کے بعداپنی تین معذوربچیوں
سمیت آٹھ بچوں اوربیوہ کو داغ مفارقت دے گئے۔ریاستی دارالحکومت مظفرآبادکی
اخباری صنعت سے وابستہ ایک معتبراورمعروف شخصیت راجہ ظفرحسین کے ساتھ
کیاسلوک کیاگیا۔مجھے راجہ ظفرحسین کے ساتھ لگ بھگ چارسال صحافتی امورانجام
دینے کاموقع ملاہے اورانہیں بہت قریب سے دیکھنے کاموقع ملاہے ۔مجھے ذاتی
طورپرمعلوم ہے کہ راجہ ظفرحسین کوعارضہ قلب کیونکر لاحق ہوا۔اس کی بڑی وجہ
یہی تھی کہ وہ خداترس اورکارکن نوازعظیم شخصیت تھے۔جب انہوں نے
اپنااخبار’’روزنامہ دومیل‘‘شروع کیاتو روزاول سے ہی انہیں اپنے ساتھ وابستہ
کارکنوں کی فکرمعاش نے ستاناشروع کردیاتھا۔جب انہیں اپنے ساتھیوں کااستحصال
ہوتانظرآیاتووہ سخت رنجیدہ ہوئے یہاں تک کہ اسی غم میں ہم سے جداہوگئے۔اﷲ
کریم ان سمیت دنیاسے رخصت ہونے والے تمام قلم کے سپاہیوں کواپنے جواررحمت
میں جگہ عطافرمائے۔جب ہم اس طرح کے حالات پرنظردوڑاتے ہیں توپھر ہمیں
کمیونسٹوں کے ان خیالات کودرست مانناپڑتاہے کہ سرمایہ دارطبقہ مختلف طریقوں
اورحربوں سے پریس پر اثراندازہورہاہے۔حالات کے رحم وکرم پرڈوب جانے والے ان
اخباری کارکنوں کاقصورصرف یہی تھاکہ ان لوگوں نے کٹھ پتلی بن کرکام
کرناگوارانہ کیا۔اس ساری گھمبیرصورتحال اورتمام ترحالات کے باوجودہماری
دانست کے مطابق ایک عامل صحافی کاکرداربنیادی وفیصلہ کن ہوتاہے۔صحافی
اگرسچا،محب وطن اوردیانتدارہے تووہ تمام ترمفادات،عہدے اوررکھ رکھاؤیہاں تک
کہ جان بھی قربان کردیتاہے لیکن ڈیل نہیں کرتا،جیساکہ مذکورہ دونوں شخصیات
نے اپنے عمل سے کردکھایااوراسطرح کے دیگربے شمارلوگ ہیں جو حالات کی ستم
ظریفی کاشکارہوئے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں صحافت کے شعبہ میں بعض ایسے
لوگ بھی گھس آئے ہیں جنہیں صحافت کے حوالے سے واجبی سی معلومات بھی
نہیں۔ایسے ہی لوگ زردصحافت کے فروغ کاباعث بن رہے ہیں۔صحافت میں داخلے
پرکوئی پابندی نہیں،جس کا جی چاہتاہے وہ بہت آسانی سے اس شعبہ میں
اپنی’’دکان‘‘ بنالیتاہے۔کوئی بیریئرنہ ہونے کی وجہ سے ہی ایسے بعض لوگ محض
اثررسوخ اورروپے پیسے کی بنیاد پر خود اخبار اور دیگر چینلز کے مالک بن
بیٹھے ہیں۔جب صورتحال اس طرح کی ہوجائے توپھرپریس کا یہی حال ہوگا‘جوآج
ہمارے سامنے ہے۔ریاست ایسے پریس سے کسی تبدیلی یابہتری کی توقع کیسے کرسکتی
ہے۔ طرفہ تماشایہ کہ یہ مالکان جومختلف حربے اورڈیلزکرکے اخبارات وچینلزکے
مالک بن بیٹھے ہیں۔عجیب وغریب شعبدہ بازیاں کررہے ہیں۔وہ مالکان کی
یونینزکاحصہ تو ہیں ہی۔ساتھ ساتھ رپورٹروں کی یونینوں میں بھی بدستورشامل
ہیں۔آزادکشمیربھرمیں اس کاعملی مظاہرہ آج ہی بخوبی کیاجاسکتاہے۔ایسے کئی
ایک مالکان صحافتی تنظیموں اورپریس کلبوں میں کلیدی عہدوں پربراجمان
ہیں۔ستم ظریفی کی حدتو یہ ہے کہ کوئی ان کے خلاف آوازبھی نہیں
اٹھاسکتا۔کوئی آوازاٹھائے بھی کیسے، جو صحافی ایساکرے گا،اگلے ہی دن کا
اخبار،جس کے ساتھ وہ منسلک ہوگا،اس کے خلاف ایک بڑااورنمایاں
اشتہارلگادیتاہے۔ جس میں اسے لاکھوں کانادہندہ اورنہ جانے کیسے کیسے
الزامات کا سامناکرناپڑرہاہوتاہے ۔یوں نہ صرف اس کا صحافتی کیرئیرداؤپرلگ
جاتاہے بلکہ اس کی شہرت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچتاہے۔یوں ایسے بلیک
میلر مالکان کے خلاف کوئی بول سکتاہے نہ کوئی اوراتھارٹی ایسے استحصالی
ڈرائیکولازکو پوچھنے کی جرات کرسکتی ہے۔ایک کھرے اورسچے صحافی کواس تعفن
ذدہ ماحول میں کس قدرمعاشی،معاشرتی واخلاقی طورپر مشکلات
کاسامناکرناپڑتاہے،اس کا تصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔ایک صحافی جس کا روزگاراسی
شعبہ سے وابستہ ہے وہ کس طرح اپنے خاندان کی کفالت کی ذمہ داریاں پوری
کرتاہے،یہ معاملہ کسی معمہ سے کم نہیں۔حقائق پردرست سمت کام کرنے والے
صحافی کاہراعتبارسے راستہ روکاجاتاہے۔کہیں اس کی خبراورمضامین کوغائب
کردیاجاتا ہے توکہیں وہ خودخبربن جاتاہے۔اس کو اپنے میڈیم پرمناسب جگہ نہیں
دی جاتی۔آپ نہیں دیکھتے کہ ہمارے ہاں محب وطن،بے لوث،نڈراوربے باک اچھے
لکھاریوں اوراچھابولنے والوں کاکوئی پرسان حال نہیں۔ان کی کوئی قدرومنزلت
نہیں۔ان کی پیشہ ورانہ خدمات کاکہیں اعتراف تک نہیں کیاجاتا۔بلکہ ایسے
صحافیوں کی حوصلہ شکنی کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیاجاتا۔آج کاپریس
قوم کو کیادے ہے اوراسے کیادیناچاہیئے۔یہ غورطلب معاملہ باریک بینی سے
سوچنے کامتقاضی ہے اس پر پھرکبھی موقع ملاتو تفصیلی بات کی جاسکتی ہے۔اس
موضوع پر بہت کم لکھاگیاہے،حالاں کہ اس پر بہت زیادہ اورتسلسل سے
لکھاجاسکتاہے ۔مگرکیوں نہیں لکھاجاتا،اس کی وجہ آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔
’’صحافتی شعبے میں سب سے زیادہ خطرناک روش یہی ہے کہ غلط کو غلط کہنے پر آپ
کو حرف غلط کی عملی تصویربنادیاجائے‘‘اسی باعث بہت کم صحافی آپ کو ہردورمیں
اپوزیشن کاکرداراداکرتے نظرآئیں گے۔ یہ بات اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ
اس منفی روش کے مضمرات پریس کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ شعبہ صحافت کی حرمت
وتقدس کوبھی ڈبورہے ہیں۔گویاپریس عملاًایک اکھاڑہ بن کررہ گیاہے۔شعبہ صحافت
میں پھیلنے والایہ ناسورخواہ سرمایہ داراوراجارہ دارمافیاکی وجہ سے پھیل
رہاہے،خواہ آزادپریس سے وابستہ غلام گردشوں کی شطرنج کے گمنام مہرے اس ذلت
کاباعث ہیں۔اس کے آگے بندباندھنے کے لئے کل نہیں،آج سے ہی منظم اندازسے لام
بندی کی ضرورت ہے۔جب تک ہم اپنی ذات سے بے رحم اوربے لاگ احتساب کاآغازنہیں
کردیتے۔ہمارے ماتھے پرلگنے والے کلنک کے اس داغ کوکوئی نہیں مٹاسکے
گا۔اگرہم شترِبے مہارکی مانندپھیلے اپنے پریس کو لگام نہ دے سکے توآنے
والاہر چوہدری عبدالمجیداورہرایک فاروق حیدراسی طرح ہماری کمنٹریاں
لگاتاپھرے گا۔ یہ چنداشعار میں اپنے ہم خیال وبے لاگ صحافیوں کے نام
کرتاہوں ـ۔:
میں چاہنے والوں کو مخاطب نہیں کرتا
ترک تعلق کی میں وضاحت نہیں کرتا
میں اپنی جفاؤں پہ نادم نہیں ہوتا
میں اپنی وفاؤں کی تجارت نہیں کرتا
خوشبوکسی تشہیرکی محتاج نہیں ہوتی
سچاہوں مگراپنی وکالت نہیں کرتا
احساس کی سولی پہ لٹک جاتاہوں اکثر
میں جبرِمسلسل کی شکائت نہیں کرتا
میں عظمت انسان کاقائل توہوں محسن
لیکن کبھی بندوں کی عبادت نہیں کرتا
٭٭٭ |