دنیا میں امریکی جارحیت کے بعد!
(Hafiz Muhammed Faisal Khalid, Lahore)
افغانستان سے امریکی انخلاء کے
بعد عمومی طورپر یہ تعصر پایا جارہا تھاکہ اب اس خطے کے حالات میں بہتری
آئے گی اورشاید افغانستان اور اس کے مضافات میں امن قائم ہو سکے گا۔کیونکہ
امریکا کی جانب سے طاقت کے وحشیانہ استعمال نے نہ صرف خطے کے امن کو تباہ
کیا تھا بلکہ کئی بے گناہ انسانی جانوں کا قتل عام کی وجہ سے اس خطے میں
مقیم لوگوں کے دلوں میں نفرت اور انتقام کی آگ شدت اختیار کر چکی تھی۔اور
یہی جہ ہے کہ امریکا کے مد مقابل طالبان کا گروہ امریکی جارحیت کے نتیجہ
میں دن بدن بڑھتا چلا گیا۔امریکہ اپنی عزت بچانے کیلئے خود تو ایک ڈرامائی
انداز میں افغانستان سے فرار ہوگیا مگر تحفے میں اس خطے کو ایسے گمبھیر
مسائل دے گیا کہ جنکا حل اب شاید سپر پاور کے پاس بھی موجود نہیں۔دس سالہ
امریکی جارحیت کے بعد جو نتائج سامنے آئے وہ یہ کہ پہلے طالبان صرف
افغانستان تک محدود تھے مگر اب انہوں نے دوسرے علاقوں میں بھی خود کو منظم
کرنا شروع کردیا جسکی زندہ مثال عراق میں ابھر نے والی جماعت داعش ہے جسنے
کئی عراقی علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔اس وقت عراق میں قیام خلافت کا
عزم لئیے ہوئے ایک عسکری تنظیم بنام ـــ․الدولتہ الاسلامیہ فی العراق و
الشام․جسے عرب میڈیا داعش کے نام سے جانتا ہے نے عراق میں اپنا سر اٹھا یا
۔داعش کے مطابق اس کے پاس بیس ہزار سے زائد جنگجوموجود ہیں جنکا تعلق عراق
اورشام سے ہے۔نظریاتی طور پرداعش القاعدہ سے زیادہ سخت ہے۔یاد رہے کہ
القاعدہ سے ہی تعلق رکھنے والے ایک گرہ نے ابوبکر البغدادی کی قیادت میں
القاعدہ کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے اس سے علیدہ گی اختیار کی
تھی۔داعش نے اسلامی ریاست کے قیام کی غرض سے شام کی سرحد سے عراق کی جانب
پیش قدمی شروع کی اورابتک اسے عراق کے تین شمالی اور مغربی صوبوں پر کنٹرول
حاصل ہو چکا ہے۔اس کے علاوہ عراق کی سب سے بڑی آئل ریفائنری بھی داعش کے
قبضے میں آچکی ہے۔اطلاعات کے مطابق داعش تین صوبوں پر قبضے کے بعد اپنی پیش
قدمی جاری رکھے ہوئے ہے جسکے نتیجہ میں عراق کے مختلف علاقوں میں 75000 سے
زائد عراقی افواج مزاحمت کاروں کا سامنا کئیے بغیر میدان چھوڑ کر بھاگ چکے
ہیں جسکے بعد داعش کیلئے میدان صاف نظر آرہاہے۔دوسری جانب بعض محققین کا
کہنا ہے کہ عراق میں حالات کی خرابی کا منصوبہ پہلے سے ہی تیار شدہ تھا اور
امریکہ عراق میں شیعہ و سنی فسادات کرواکر اپنے کچھ اہداف حاصل کرنا چاہتا
تھا۔ جسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک جانب داعش نے عراق میں
اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو دوسری جانب امریکہ ایران کو جو کہ شیعہ اکژیت
والا ملک ہے اسے داعش کے خلاف کاروا ئی کر نے کی صورت میں مکمل تعاون کی
یقین دہانی کروا چکا ہے جسکے بعد ایران وامریکا کے ما بین ایٹمی ہتھیاروں
پر ہونے والی مصنوعی چپقلش اور اسکے پس پردہ حقائق کھل کر سامنے ٓاچکے ہیں
اور ایران عراق کے حوالے سے اپنی حکمت عملی واضع کر چکا ہے جسکے بعدحالات
مزید کشیدہ گی کیطرف بڑھتے جارہے ہیں ۔ اب اگر یہ تحقیق درست ہے تو یاد رہے
کہ اس کے نتیجہ میں شاید امریکا کا تو کچھ نہ جائے گا مگر اس خطے کا امن
مکمل طور پر تباہ ہو جائیگا اور حالات اس حد تک خراب ہو سکتے ہیں کہ جنکو
سمبھالنا شاید ممکن نہ ہو گا۔کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ مذہب کی بنیاد پر لڑی
جانے الی لڑائی اکژسانحہ کا روپ اختیا کر جاتی ہے ۔کیونکہ ایسی لڑائیوں کا
تعلق براہ راست اقوام کے عقائد سے ہو تا ہے۔دوسری جانب اگر امریکا اور اسکے
اتحادی اپنے مشترکہ مفاداد کیلئے آپس میں سرجوڑ سکتے ہیں تو اس خدشے کوبھی
نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ عین ممکن ہے کہ القاعدہ اورداعش متحد ہو کر
اپنے مشترکہ مفاداد کے پیش نظر اپنے دیرینہ دشمن کے خلاف صف بندی کر لیں جس
سے یہ لڑائی شاید کسی مخصوص علاقے تک محدد نہ رہے گی بلکہ یہ ایک ایسا
ناسور بن جائے گی جو نہ جانے کتنی بے گناہ جانوں کو نگل جائے گا۔ |
|