فلسطین کے آنسو

رمضان المبارک کا مہینہ بڑی برکتوں اور رحمتوں کے ہمراہ جلوہ گر ہوا مگر فلسطین کے مسلمانوں کی سحریوں ، افطاریوں کو بیزاریوں اور دشواریوں نے گھیرے رکھا ۔ ان کے روزو شب غم و اندوہ میں ڈوبے رہے۔ اسرائیلی طیاروں کی گھن گرج بارود کی برستی آگ بحری، برّی اورفضائی حملوں کی ہلاکتوں نے فلسطینی مسلمانوں پر قیامت صغریٰ برپا کردی۔ مکانوں سے اُٹھتے شعلوں اور انسانی آبادیوں پر چھائے دھووں نے انسانی ضمیر کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔

جھلسی جلی لاشوں ، مکانوں کے ملبوں، زخمیوں کی آہوں کے بیچ کھڑے نڈھال فلسطینیوں کی صورت حال سے کلیجہ مُنہ کو آرہا ہے۔ عرب اخبارات میں چھپنے والی پھولوں جیسے فلسطینی بچوں کے زخمی بدنوں، مکانوں کے فرشوں پر خون کے بنے جوھڑ وں اور اُٹھتے جنازوں کی تصویروں نے رونگٹے کھڑے کردیے ہیں۔

ویسے تو انبیاء کرام علیہم السلام کی سرزمین کے یہ باسی 66سالوں سے ایک مسلسل بربریت کا شکار ہیں جس کے نتیجے میں ایک لاکھ فلسطینی شہید ہوچکے اور دولاکھ کے گھروں کو مسمار کیا جا چکاہے۔ لیکن کذشتہ چھ سالوں کے دوران غزہ پریہ تیسرا بڑا حملہ ہے جس نے ظلم وستم کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔

امت مسلمہ عجیب آزمائش و ابتلاء اور کرب و بلا سے دوچار ہے ۔ ایک طرف اندرونی خلفشار اور انتشار کے گہرے زخم ہیں ،مصیبتوں اور تلخیوں کا الم ہے، سینہ تنگی اور خانہ جنگی کا دھواں ہے، خود کش حملوں کی تڑتراہٹ اور دھماکوں کی گھبراہٹ ہے تو دوسری طرف بیرونی آفتیں ہیں جن کا رخ امت مسلمہ کو فوکس کیے ہوئے ہے ۔ باطل قوتوں کے ڈرونز اور لڑاکا طیاروں کو مسلم ممالک کی سرحدوں کے اندر ہدف سمجھا دیئے گئے ہیں ، میزائلوں اور راکٹوں کو مسلم فضاؤں میں برسنے پر مامور کر دیا گیا ہے ، توپوں کے دھانے مسلم آبادیوں کی طرف آگ برسا رہے ہیں ، بے رحم ٹینک اسلامی شہروں کی طرف اچھل کود رہے ہیں ، جدید سے جدید اور مہلک سے مہلک اسلحہ مسلمانوں کی زمینوں اور سینوں پر آزمایا جا رہا ہے ۔

اس وقت خاتم النبیین حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے سفر معراج کی یادوں سے معمور بیت المقدس کی سر زمین شدید مصائب میں ہے۔تازہ کربلا میں لہولہان غزہ ہے ، غزہ کی سرزمین فلسطینیوں کا پر انا وطن ہے اور امت مسلمہ کے لئے الفت و عقیدت کا مرکز ہے کیونکہ ختم المرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺ کے پر دادا حضرت ھاشم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا انتقال اسی شہر میں ہوا اور یہی آپ کا مدفن ہے ۔اس لئے اسے تاریخ میں غزہ ھاشم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی کہا جاتا رہا ہے ۔ مکہ شریف اور غزہ کا پرانا رابطہ تجارتی نوعیت کا تھا کیونکہ غزہ پرانے زمانے میں بہت بڑی تجارتی منڈی تھی۔اور اہل مکہ یہاں تجارت کے لئے آتے جاتے تھے ۔

غزہ اس مقدس فلسطین کا ایک حصہ ہے جس فلسطین کی تاریخ تقدس کے لمحات سے استوار ہے جس کے چپے چپے پر اﷲ تعالیٰ کے عظیم انبیاء کرام علیہم السلام کی داستانیں رقم ہیں اسی کے دامن میں بیت المقدس کی زندہ عظمتیں ہیں ۔

یہ ایک تلخ داستان ہے انگریزوں نے2 نومبر1917؁کو اعلان بالفورکے ذریعے فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کا اعلان کیا جسے اسرائیل سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔عرب سرزمین پر جیسے یہودی سلطنت کا قیام ہے ناجائز اولاد کی مانند تھا اور ایک غاصبانہ کاروائی تھی ایسے ہی ان شرپسندوں کے ملک کو اسرائیل کا مقدس نام دینا بھی ایک لغوی غصب تھا جو آہستہ آہستہ رواج پا گیا کیونکہ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے جو عبرانی زبان کے دو الفاظ اسرا اور ایل سے بنا ہے ۔ اسرا کا معنی ہے عبد اور ایل کا معنی ہے اﷲ ۔ تو اسرائیل کا معنی بنا عبد اﷲ ، اس ملک کا نام عبد اﷲ ہے اور کام عبد الشیطان والے ہیں ۔

بد قسمتی سے 1948؁سے غزہ سمیت فلسطین کے دیگر علاقوں پر اسرائیل نے ظالمانہ قبضہ جما رکھا ہے اور پورے فلسطین میں فلسطینیوں کی نسل کشی اور جبری انخلاء کا سلسلہ جاری ہے ۔66سال سے فلسطینی اس غاصبانہ قبضے کے خلاف جہاد کر رہے ہیں ،یہودی مظالم کے خلاف آزادی فلسطین کے لئے جہاد تاریخ کا ایک روشن باب ہے اور ایک طویل داستان ہے ،بیدار عربوں کے بچے بچے کی زبان پر سالہاسال سے یہ ترانہ ہے۔
اصبح الآن عندی بندقیہ …… الی فلسطین خذونی معکم
(چونکہ میں نے غلیل حاصل کر لی ہے …… چنانچہ مجھے اپنے ساتھ فلسطین لے چلو)

بظاہر ۲۰۰۵ء سے غزہ پر حماس کی حکومت ہے جو انتخابی عمل کے ذریعے قائم ہوئی لیکن غاصب یہودی فوجی جب چاہتے ہیں ٹینکوں اور بھاری جنگی مشینری کے ہمراہ غزہ کے گلی کوچوں میں داخل ہو جاتے ہیں اور نہتے شہریوں پر آتش و آھن کی بارش شروع کر دیتے ہیں یہاں تک کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے بھی باز نہیں آتے ۔جنوری2009؁سے غزہ کو خصوصی طور پر مشق ستم بنا یا گیا ہے ۔ جہاں ہر قسم کے اسلحہ سے لیس صہیونی درندے دندناتے پھررہے ہیں ۔جنوری2009؁میںDime بم کا بھی استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں فلسطینی اتھارتی کے زیر کنٹرول بہت سے علاقوں میں کینسر کا مرض وبائی صورت اختیار کر گیا ۔

یہ عجیب بات ہے کہ امت مسلمہ پر ڈھائے گئے مظالم ایسے ہوتے ہیں یاتو اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کو نظر ہی نہیں آتے یا انسانی حقوق کے علمبر داروں کے نزدیک انسان اور حقوق کی تعریف ہی کچھ اور ہے ۔لگتا ہے کہ سلامتی کونسل کا مطلب اسلام دشمنوں کی سلامتی ہے ۔ یہ بات سمجھ سے با لا تر ہے کہ دھشت گردی کے خلاف جھاد کے دعویداروں کو مسلم امہ کا خون بہانے والوں کی دھشت گردی نظر کیوں نہیں آتی ؟ 66 سالوں سے فلسطینیوں کا خون بہانے والے صہیونی ، 64سالوں سے کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے ہندو فوجی دھشت گرد کیوں نہیں ہیں ؟ اور ان کے خلاف کاروائی اقوام متحدہ کا فرض منصبی کیوں نہیں ہے ؟

نومبر 2012میں بھی اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا اور آپریشن پلر آف ڈیفینس کے نام سے ظلم و ستم کا بازار گرم کیا گیا ۔پہلی رات ہی اسرائیلی طیاروں نے 180فضائی حملے کئے ۔ ان اسرائیلی فضائی حملوں میں ایک سو سے زائدفلسطینی مسلمان بشمول عورتوں اور بچوں کے شہید اور سات سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ سرکاری تنصیبات اور املاک کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا ۔حالیہ حملوں میں اسرائیل نے ظلم و ستم کی انتہا کردی ہے۔ آج 20جولائی کو حملوں کے 12ویں دِن تک 440فلسطینی شہید اور 2560زخمی ہوچکے ہیں۔دو ہزار ٹن سے زائدمہلک ترین بارود برسایا جا چکا ہے اور گیارہ سو سے زائد مقامات نشانہ بنائے جا چکے ہیں۔نہایت خطرناک بائیو لوجیکل ہتھیار استعمال کیے جارہے ہیں۔ غزہ کے ہسپتال کے ڈاکٹرزکے بقول کچھ مریضوں کو ایسے زخم لگے ہیں جو ناقابل فہم ہیں ۔مقبوضہ فلسطین میں ان دِنوں میں 1004جوانوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔بجلی کی تنصیات کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے غزہ کے 70فی صد حصے میں بجلی منقطع ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود اس بر بریت اور ظلم وستم کو پینٹاگون کی ظالم ڈکشنری کے مطابق Terrorisimاور Militancyنہیں کہا جا سکتا اور ابامہ اسرائیل کی حمایت کا مسلسل اعادہ کر رہا ہے اور اس کے پاس غزہ کے شہیدوں ،خون میں لت پت بچوں اور آفت زدہ مسلمانوں اور زخمیوں کی حمایت کے لئے ایک لفظ بھی نہیں ہے ۔الٹا ابامہ حماس کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے حالانکہ یہ بات با لکل حقیقت کے خلاف ہے ۔غزہ اور اس سے ملحقہ آ بادیوں کے17لاکھ انسان ہر وقت اسرائیل کے فضائی حملوں کی زد میں ہیں۔ اسرائیلی بدمست ہاتھی پہلے ہی کتنی مرتبہ امن و آشتی کو تہہ وبالا کرنے کے لئے چڑھ دوڑے ہیں ۔ ان سے نہ تو عراق کا ایٹمی ری ایکٹر محفوظ رہا ،نہ خرطوم کی اسلحہ سازفیکٹری محفوظ رہی ہے ۔بلکہ ہر مسلم ملک پر ڈھائی گئی ظلم کی رات میں اسرائیلی طیاروں کی بمباری ایک شرم ناک کردارہوتاہے ۔

عجیب تماشہ ہے کہ جو قراردادیں کسی اسلامی ملک کے خلاف ہوں مہینوں کیا گھنٹوں میں اس ملک کی بنیادیں ہلا دیتی ہیں اور انہیں عملی جامہ پہنا دیا جاتا ہے مگر جو قرار دادیں کسی اسلامی ملک کی حمایت میں ہوں ان کی یادیں بھی بھلا دی جاتی ہیں ۔ 1974؁میں طے پانے والے کیمپ ڈیود معاہدے کے تحت فلسطینیوں کی آزادی کا حق تسلیم کیا گیا مگر آج تک آزاد فلسطین ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا اور حالیہ بربریت میں تو اوسلومعاہدے کی بھی دھجیاں اڑادی گئی ہیں ۔

اسرائیل کے مسئلہ پر عربوں اور امت مسلمہ کا اپنا کردار بھی ایک المیہ اور لمحہ فکریہ ہے ۔ڈیڑھ ارب مسلمان اور57اسلامی ممالک کیا صرف زبانی مذمت کے لئے ہیں ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کا کل رقبہ اکیس ہزار مربع کلومیٹر ہے اور کل آبادی تقریباً 60لاکھ ہے اس چھوٹے سے ناجائز ملک کو اسلامی ممالک مصر ، اردن ،شام اور لبنان نے چاروں اطراف سے گھیرا ہوا ہے جن کا رقبہ 13 لاکھ مربع کلومیٹر اور آبادی تقریبا12کروڑ ہے اگر یہ ممالک شیروں جیسی ایک انگڑائی بھی لیتے تو اسرائیل ایسے شکنجے میں تڑپتا کہ اس کا کھایا پیا ہی صرف باہر نہ نکلتا بلکہ جان بھی باہر نکل جاتی ۔ لیکن سامراج نے عرب حکمرانوں کی سستی کو کیسا لاعلاج بنا دیا ہے ۔ ابھی تک عرب لیگ صرف ایک فارمیلیٹی پوری کر رہی ہے ۔فلسطینی مسلمانوں کیلئے متحدہ عرب امارات کی طرف سے 192ملین درھم کی امداد اچھی بات ہے مگر یہ درھم اِن کے زخموں پر حقیقی مرہم نہیں۔ وہ تب ہوگا جب عرب حکمران اسرائیل کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونگے۔

ہمارے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام کا انداز تدبر بھی ایک مخصوص سانچے میں ڈھل گیا ہے کہ ہم مذمت بھی اسی واقعہ کی کرتے ہیں جو امریکہ کے نزدیک قابل مذمت ہو ۔ ہمارے ملک کا ایک طبقہ تمام مسائل اور احوال و واقعات کو امریکی آنکھ سے دیکھتا ہے جسے امریکہ ظلم کہے اسے یہ بھی ظلم کہنا شروع کر دیتا ہے ۔ ہمارے حکمرانوں اور کچھ عوام امریکا کو حسن وقبح کا معیار بنا بیٹھے ہیں ۔اصل میں لہولہان غزہ کے زخموں سے بہتے لہو کا بھی یہی سوال ہے ۔

آج غزہ کے شہیدوں کا لہو غیرت مسلم کو جھنجھوڑرہا ہے آج قدس کی افسردہ فضائیں کسی صلاح الدین ایوبی کے انتظار میں ہیں۔آج سسکیاں لیتے فلسطین کو کوئی دلاسہ دینے والا نہیں۔آج فلسطین کے آنسو اس لیے بھی خشک نہیں ہورہے کہ ظالم یہودیوں کی تو سر شت ہی ایسی ہے۔ ان سے خیر کی توقع نہیں ہے۔ مگر آنسو پونچھنے والے کہا ں سوگئے ہیں اسرئیل جارحیت پر انسانی ضمیر تو خاموش ہے ہی اسلامی ضمیر کو کیاہوگیا؟فلسطین کا خمیر اپنے اوپر اپنے اوپر ڈھائے گئے مظالم کے ساتھ ساتھ عراق، شام ،لیبیا، مصر، افغانستان اور وزیر ستان مین مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے بہائے جانے والے خون پر بھی نہایت رنجیدہ ہے۔فلسطین کو جن سے مددکی توقع تھی وہ یا تو عیش و عشرت میں دُھت ہیں یا اپنے ہی شہر فتح کرنے میں مصروف ہیں یا غفلت کے لحاف اوڑھے ہوئے ہیں۔

فلسطین کے آنسووں کی جو سب سے بڑی وجہ ہے وہ اس کے بالکل پڑوس میں شام اور عراق میں متحرک تنظیم ’’داعش‘‘ کا کردار ہے۔جس کے نام نہاد خلیفہ کو مسلمانوں کے خلاف جہاد کا فتویٗ دینے کا تو شوق ہے مگر اسے فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے والے یہودیوں کے خلاف جہاد کا کوئی شرعی حکم نظر نہیں آریاجس داعش کے ٹینکوں اورراکٹوں کا رُخ اسرائیل کی بجائے انبیاء کرام علیہم السلام اور اہل بیت و اصحاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے مقدس مزارات کی طرف ہے۔جن نام نہاد مجاہدین کی گولیوں کو کسی دہشت گرد یہودی کا سینہ نہیں اَمن کے داعی مسلمان کا سینہ نظر آتا ہے۔ لگتا ہے کہ تمام دہشت گردوں کی نانی اوروہ ایک ہی ایجنڈے پہ لگے ہوئے ہیں۔

66سالوں سے کوئی دِن ایسا نہیں جس میں اسرائیلیوں کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف ظلم کی کوئی نہ کوئی واردات نہ ہوئی ہو اس کے باوجود سلام ہو فلسطینی مجاہدوں کو داستان حریت رقم کر رہے ہیں۔اگرچہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کی دیوار پر لکھا ہے، اسرائیل تیری سرحدیں مدینہ تک ہیں،مگر ظلم اور شرآخرکار مٹ جائے گا۔ وعدہ قرآنی سچا ہے جو پورا ہو گا تمام باطل قوتیں جھاگ ہیں اسلام وہ پانی ہے جو حقیقت ہے اگرچہ فی الوقت جھاگ کے نیچے ہے لیکن مستقبل صرف اسلام کا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے بر حق فرمایا ہے ایسا وقت آنے والا ہے کہ جب پتھرپہاڑ مسلمان فوجیوں سے کہیں گے یہ ہمارے پیچھے یہودی چھپے ہوئے ہیں اسے قتل کر دو۔حالات حاضرہ اگرچہ کافی غبارآلود ہیں مگر میں پورے وسوخ سے کہتا ہوں:
؂ سن رہا ہوں بنجروں میں پھر گیا ہ ہونے کو ہے
بیت ابیض جلد ہی پورا سیاہ ہونے کو ہے
؂ سمٹ جائیں گے زمین سے پھر غلامان صلیب
سامراجی سوچ کا بیڑ ا تباہ ہونے کو ہے
؂ لرز اٹھے گا حسینی کارواں سے تل ابیب
قدس کی آہوں سے پیدا اک سپاہ ہونے کو ہے
Dr Muhammad Ashraf Asif Jalali
About the Author: Dr Muhammad Ashraf Asif Jalali Read More Articles by Dr Muhammad Ashraf Asif Jalali: 14 Articles with 13269 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.