28 جولائی --پوری دنیا میں ہپا ٹائی ٹس کا دن

کچھ نئے پہلؤں سے جائزہ

امیتابھ بچن کا گانا سن رہا تھا
میرے انگنے میں تمہارا کیا کام ہے - جو ہے نام والا وہی بدنام ہے

یہ گانا مجھے کبھی پسند نہیں رہا بلکہ میرے ایک مرحوم رشتے دار نے جب پہلی مرتبہ اسے سنا تھا تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا "واہیات گاناہے --بند کرو اسے "
لیکن گانوں کے ساتھ آج کل ایک اور اختراع کی جاتی ہے جسے ری مکس کر نا کہتے ہیں - چنانچہ اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں اس گانے کا ری مکس سن رہا تھا

لیکن اچانک مجھے محسوس ہوا کہ گانا خود بخود مزید مکس ہوتا جا رہا ہے - - میری نگاہیں ٹی وی کے اسکرین پر ہی تھیں - یہ جو ری مکس ہو رہا تھا ایک عجیب سا تاثر پیدا ہورہا تھا - یا یہ میرے اپنے ذہن کا کوئی مسئلہ تھا کہ مجھے مزید ری مکس ہوتا محسوس ہورہا تھا- یہ عمل جاری رہا - جانے اصل بول کہاں رہ گئے اب جو مجھے سنائی دے رہا تھا وہ یہ تھا -

میرے انگ میں لیور کا بہت کام ہے
جو ہے کام والا وہی ناکام ہے

لیکن وہی انداز وہی لے - وہی موسیقی کا اتار چڑھاؤ - لیکن بول دوسرے

میرے انگ میں لیور کا بہت کام ہے --جو ہے کام والا وہی ناکام ہے

اچانک میری نگاہ ایک پوسٹر پر پڑی جو اسکرین کے کونے میں نظر آرہا تھا - مجھے ایسے لگا کہ یہی پوسٹر ہے جو اس تبدیلی کاباعث بنا ہے-

پوسٹر نے جو بتا رہا تھا کہ اے جنتا اے عوام - اے لوگو - یہ کام کا لیور خراب ہو جائے تو ہیپا ٹائیٹس کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور 28 جولائی کو پوری دنیا ہیپاٹائیٹس کا دن منا رہی ہے-

کلیجی یعنی لیور خوں صاف کرنے کے کام آتا ہے یا دوسرے الفاظ میں اسے ڈی آکسیڈائز کرتا ہے -

زیادہ مقدار میں کوئی دوا پی لی جائے --یا کسی دوا کو مسلسل استعمال کیا جائے - یا شراب نوشی کثرت سے کی جائے یہاں تک کہ کافی زیادہ نوش کر لی جائے تو اس کے اثرات خوں میں شامل ہو جاتے ہیں تو لیور یعنی کلیجی انہیں الگ کرتی ہے -

اس کے علاوہ لیور شوگر پروٹین وغیرہ لیکر انہیں ان اشیا میں تبدیل کر دیتی ہے جنکی انگ کو ضرورت ہوتی ہے - یہ ایک اسٹور کا کا کام بھی کرتی ہے اور اپنے اندر وٹامن --ھارمونز- کولیسٹرول کا ذخیرہ محفوظ کر لیتی ہے اور بوقت ضرورت سپلائی کرتی رہتی ہے -

لیور کا ایک ملحقہ حصہ تلی یا اسپلین ہوتا ہے - جو خوں کے ناکارہ سیلوں سے "بلی روبن" نامی چیز بناتے ہیں - یہ ایک نارمل عمل ہے - بلی رو بن کلیجی یعنی لیور -میں منتقل ہوتے رہتے ہیں -

یہاں لیور ان "بلی روبن" کو تبدیل کر کے ایک اور شے بناتا ہے جسے بائل کہتے ہیں -

یہ بائل بڑی آنت میں جاکر خدمت خلق کے جذبہ کے تحت چکنائی (فیٹ) ہضم کروانے کو مائل بہ کرم رہتا ہے - بائل یہ احسان کر نے کے لئے ایک خصوصی پائپ یا ڈکٹ استعمال کرتا ہے - کبھی یہ ڈکٹ یا پائپ ---- لیور----- میں خرابی کے سبب بند ہو جاتی ہے تو یہ بائیل اپنا ویلفیئر والا کام نہیں کر سکتا -اس بائل کی منتقلی کا عمل ختم ہو جاتا ہے -

لیکن ادھر تلی اپنا بلی ربن کا عمل جاری و ساری رکھتا ہے - سو یہ بلی روبن خوں میں داخل ہو جاتا ہے -

خوں سے اپنے ارد گرد کے ٹشو مثلا جلد وغیرہ میں چلا جاتا ہے اور یوں جلد کا رنگ زردی مائل ہو جاتا ہے -

اس پر لوگ باگ شور مچاتے ہیں کی جانڈس ہو گیا یرقان ہو گیا - جبکہ یہ یرقان کلیجی کے خراب ہونے کے سبب سے ہوا ہے اس لئے ایسا جانڈس جو لیور کے خراب ہونے سے ہو اسے ہیپا ٹائیٹس کہتے ہیں اس کا علاج کیا ہے وہ تو ڈاکٹر ہی صحیح دوا بتا سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک شے ہمیں تحفے میں عطا کی ہے اور وہ ہے مولی - بھارت کے اپنے زمانہ کے مشہور رسالہ "بیسویں صدی" کے ایڈیٹر نے ایک کتاب "صحت اور زندگی" لکھی تھی اور اس میں کہا تھا کہ فوائد کے اعتبار سے مولی اس قدر فائدہ بخش ہے کہ پیٹنٹ سے پیٹنٹ دواوں کی بڑی بڑی شیشیان اس کے سامنے ہیچ ہیں -

مولی کے پتوں کو ابال کر چائے بنالیں ان کی جڑوں کو بھی ڈال لیں تو بہتر ہے - اسے مریض کو پلانے سے یرقان میں کمی واقعہ ہوتی ہے یا پھر مولی کے پتے لیکر اسے پیس کر پیسٹ سا بنالیں اور اسے نہار منہ پی لیں -

پپیتے کو بھی یاد کریں - -جاپانی تو اسے کبھی نہیں بھولتے اور کہتے ہیں کہ پپیتے کے بیج لے کر انہیں پیس لیں تاکہ اس کا جوس سا بن جائے -- یہ جوس لیموں کے رس کے ساتھ ملا کر دن میں ایک مرتبہ مریض کو پلائیں کافی فائدہ مند ثابت ہوتا ہےاس کے علاوہ پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ رکھیں - اس میں گلو کوسملاکر مریض کو پلائیں - کافی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے-

کسی کو یہ مرض ہو جائے تو کیا علامات ظاہر ہوتی ہیں

کچھ تو عمومی علامات ہوتی ہیں جیسے جلد کی رنگت قدرے پیلی محسوس ہوتی ہے اور ساتھ ہی بخار بھی ہو جاتا ہے -
پیٹ کے اوپر داہنی جانب نرماہٹ محسوس ہوتی ہے لیکن یہ ماہر ڈاکٹر ہی بتا سکتا ہے - لیکن اس کے ساتھ ساتھ پسلی کے نیچے دائیں جانب مریض کو درد بھی ہوتا ہے -
بھوک ختم ہو جاتی ہے -جوڑوں میں درد ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ

جب مرض میں اضافہ ہوتا ہے تو مریض کو شدید بے چینی محسوس ہوتی ہے جس کے سبب وہ چڑ چڑا ہو جاتا ہے-

اسے صحیح سمجھنے یا سوچنے میں دشواری ہوتی ہے - بچوں کو دیکھا گیا ہے کہ کلاس میں سب سے اچھے جارہے ہوتے ہیں لیکن اس مرض کا شکار ہونے کے بعد ایک دم کئی مرتبہ محسوس ہوتا ہے کہ بالکل کچھ نہیں آتا - ٹیچر حیران ہو تے ہیں اور ماں باپ سے شکایت کر تے ہیں کہ یہ ایک دم کیوں بھول جاتا ہے اور ایک دم کیوں اس بچے کا ذہن کیوں خالی یا بلینک ہو جاتا ہے - ماں باپ کو بھی سمجھ نہیں آتا کیوں ایسا ہو رہا ہے جب کہ اصل محرک یہی ہیپاٹائیٹس کا مرض ہوتا ہے-

ہیپا ٹا ٹیٹس کی آخری علامت مریض کے جسم میں بے تحاشہ خارش کی صورت میں نمودار ہوتی ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مرض کافی شدت اختیار کر چکا ہے - اس کا سائنسی سبب خون میں بلی ربن کا کثیر تعداد میں موجود ہونا ہے - جلد میں یہ کھچاوٹ-سنسناہٹ یا خارش رات کو سوتے وقت یا دن کو بھی سوتے وقت زیادہ محسوس ہوتی ہے جس کے سبب مریض کی نیند متاثر ہوتی ہے اور وہ کمزور ہوتا چلا جاتا ہے - اس کے لئے ڈاکٹر سے رابطہ کرکے دوائیاں لے سکتے ہیں - اپنے طور پر اسے کم کرنی کی ایک کوشش یہ ہوسکتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ پانی پیا جائے تاکہ جسم کے اندر نمی رہے یا وہ ہا ئیڈریٹڈ رہے-

کپڑے کھلے ڈھیلے ڈھالے پہنیں اور اگر کاٹن کے ہوں تو زیادہ بہتر ہے
اس سے بچنے کے لئے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کر نی چاہئیں
ہیپا ٹائیٹس کی چار -پانچ اقسام ہیں
ہیپاٹائی ٹس اے تو گندے پانی - گلی سڑی خوراک انسانی یا جانور کے فضلے کے سبب ہوتا ہے - اس لئے اس بارے میں احتیاط کریں - بچے دانتوں سے اپنے ناخن کترتے رہتے ہیں اس سے یہ پیٹ میں جا کر اس مرض کا محرک بن سکتے ہیں - بچوں کو “پاٹی واٹر“ یا "آب دست" کا صحیح طریقہ بتایا جائے اور ان سے کہا جائے کہ ““ اس کے بعد اپنے ہاتھ صحیح طریقے سے دھو لیں خصوصآ ان بچوں کو بہت زور دیا جائے جو دانتوں سے ناخن کترتے رہتے ہیں - بڑے شہروں میں اب مسلم شاور استعمال کئے جاتے ہیں ان کے استعمال سے بچے کو صحیح طریقے سے آگاہ کیا جائے
کیونکہ فضلہ اگر اپنے مقام سے صحیح طریقے سے صاف نہیں ہو گا تو بعد میں خارش کا باعث بنے گا اور بچوں کے ناخن میں جمع ہو جائے گا -

ہپا ٹائی ٹس بی غلط طور پر جنسی تعلقات کے سبب ہوتے ہیں - یا ایسی مائع شے کے جسم میں داخل ہونے سے ہوتے ہیں جس میں خون کی آمیزش ہو -

ہیپاٹائی ٹس سی خون کے سبب پھیلتا ہے -یعنی انجکشن کی سوئی -- شیونگ کے ریزر - بال کاٹنے والے کے اوزاروں کے ذریعے --ایک اہم بات یہ ہے کہ بیوٹی پارلر میں کئی مرتبہ ایسے اوزار استعمال ہوتے ہیں جن میں ایک آدھ خون کا قطرہ لگ جاتا ہے -

کام کرنے والی خواتیں کاریگر اسے صرف ٹشو پیپر سے صاف کرتی ہیں اور اس کے بعد دوبارہ اسی سے کام کرنا شروع کر دیتی ہیں - اسے اسٹیر لائز کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کرتیں - ان خاتون کارکنوں سے بات کی کئی تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں کسی بھی کورس میں اس بارے میں احتیاطی تدابیر اختیار کر نے کو نہیں کہا گیا - یہ حیرت کی بات ہے کہ لیڈی ڈاکٹر بھی انہی بیوٹی پارلروں سے اپنا میک اپ کرواتی ہیں انہوں نے بھی اس طرف کسی کی توجہ مبزول نہیں کرائی -

ہیپا ٹائی ٹس سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بچوں کو وقت پر اس کے حفاظتی ٹیکے لگوائیں جائیں - اس سلسلے میں پاکستان اسٹیل مل نے ایک مرتبہ بہترین انتظام کیا تھا اور اس قسم کے مدافعتی ٹیکے تمام ملازمین اور انکے بچون کو لگوائے تھے اور پانچ سال بعد انہیں دوبارہ ٹیکے لگوا کر انکا حفاظتی کورس مکمل کرویا تھا -

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 355077 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More