سی مور ہرش کی بے بنیاد اور شر انگیز رپورٹ

افوج پاکستان کے جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کے سربراہ جنرل طارق مجید نے پاکستان کے جوہری اثاثوں کے بارے میں امریکی جریدے نیویارکر میں شائع ہونے والی مشہور صحافی سی مور ہرش کی خبر کو بے بنیاد اور شر انگیز قرار دیا ہے۔ جنرل طارق مجید نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جوہری اثاثوں کی حفاظت کے لیے پاکستان نے ایک بہت ہی مؤثر اور فعال نظام وضع کر لیا ہے جس میں ان اثاثوں کی تحویل اور رسائی کے معاملات کے بارے میں سخت ترین ضوابط بنائے گئے ہیں۔ انھوں نے نیویارک اخبار کے اس دعویٰ کو رد کیا کہ پاکستان ان اثاثوں کی حفاظت کے لیے امریکہ سے خفیہ مذاکرات کر رہا ہے۔ جنرل طارق مجید نے کہا کہ پاکستان کو جوہری اثاثوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کسی ملک کے تعاون کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کی حفاظت اور ترقی کے ذمہ دار ہونے کے ناطے وہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ کسی غیر ملک یا فرد یا کسی ادارے کو پاکستان کے جوہری اثاثوں تک رسائی یا ان اثاثوں کے بارے میں خفیہ اور اہم معلومات فراہم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جنرل طارق مجید نے واشگاف لفظوں میں کہا کہ ملک کا سکیورٹی نظام ان اثاثوں کی حفاظت اور ان کو ہر ممکنہ خطرے سے بچانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے اور وہ اس کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ انہوں نے کہا وہ سمجھتے ہیں کہ جوہری اثاثوں کی حفاظت کے لیے پاکستان سکیورٹی فورسز کسی بھی دوسرے ملک کی سکیورٹی فورسز سے زیادہ اہل ہیں اور ان کو بہتر کرنے کے لیے کسی بھی دوسرے ملک سے مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کم و بیش انہی الفاظ میں وزارت خارجہ اور اسلام آباد میں امریکی سفیر پہلے ہی امریکی میگزین نیو یارکر میں سی مور ہرش کے پاکستانی جوہری اثاثوں سے متعلق رپورٹ کو مسترد کرچکے ہیں۔ سی مور ہرش کی اس متنازعہ رپورٹ میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ انہوں نے جوہری اسلِحہ کی حفاظت سے متعلق بتایا کہ وہ سب محفوظ ہیں جو کہ ایک طویل اور گہری سرنگ میں رکھے گیے ہیں تاکہ ترسیل میں آسانی ہو اور گہرائی کی وجہ سے کسی بھی حملے کی صورت میں محفوظ رہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا پاک فوج کے ساتھ حساس نوعیت کے مذاکرات کر رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان کے دفاعی شعبے کو دی جانے والی چار سو ملین ڈالر امداد بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے تاکہ فوج اپنی ضروریات پوری کر سکے۔ پاکستان نے اس رپورٹ کے مندرجات کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستانی فوج اور امریکہ کے مابین جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کے لیے مذاکرات کے الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔ امریکہ پاکستانی جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کے لیے پاکستان فوج کی مدد فراہم نہیں کر رہا اور نہ ہی جوہری اثاثوں یا مواد پر قبضے کی خواہش رکھتا ہے۔ پاکستان وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اسٹریٹجک و ایٹمی اثاثے تہہ در تہہ محفوظ ہیں اور ان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول انتہائی فول پروف ہے۔ ’حفاظت کا تمام تر نظام مقامی ہے۔ تحفظ کے لیے کسی امداد کی ضرورت ہے نہ ان اثاثوں تک کسی کو رسائی کی اجازت دیں گے۔‘ ان کے مطابق پاکستانی افواج حفاظت کی ہر ممکن صلاحیت رکھتی ہیں۔ ’سکیورٹی کے بار ے میں امریکی حکام سے گفت و شنید کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں کوئی بھی تجویز انتہائی مضحکہ خیز ہوگی جبکہ چند عناصر پاکستان مخالف گھناؤنے اور گمراہ کن پروپیگنڈے پر عمل پیرا ہیں جو کسی صورت کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘

ترجمان دفتر خارجہ عبدالباسط نے رپورٹ کو سازش اور پاکستان مخالف گمراہ کن پروپیگنڈے کا حصہ قرار دیا اور کہا کہ مصنف کی جانب سے غلط اور لغو معلومات شائع کر کے انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد چند عناصر کی پشت پناہی سے پاکستان کے تشخص کو داغدار کرنا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ مضمون کے مصنف سیمور ہرش پروپیگنڈا پر کام کرتے ہوئے اپنی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے حال ہی میں دیے گئے بیان کو بھول گئے جس میں انہوں نے جوہری اثاثوں کے تحفظ پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ لہٰذا کالم نگار کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور سنسنی خیزی سے پرہیز کرتے ہوئے حقائق کو اجاگر کرنا چاہیے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ۲۷ سالہ تحقیقات کار اور رپورٹر سیمور ہرش نے ’دی نیو یارکر‘ میگزین میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں رپورٹ شائع کی ہے۔ وہ طویل عرصے سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا پیچھا کئے ہوئے ہیں۔ لھتونیہ کے یہودی خاندان سے تعلق رہنے والے سی مور ہرش یونیورسٹی آف شکاگو اور نیو یارکر میگزین سے وابستہ ہیں۔ انھیں ویٹ نام جنگ میں سائی لی قتل عام کے بارے میں رپورٹ شائع کرنے پر عالمی شہرت ملی تھی۔ اس رپورٹ پر انھیں ۰۷۹۱ میں پلٹز ایوارڈ دیا گیا تھا۔

انھوں نے اپنے کیریر کا آغاز پولیس رپورٹنگ سے کیا تھا۔ ابو غریب جیل عراق کے بارے میں بھی ان ہی کی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ جس سے دنیا کو امریکیوں کے مظالم کی خبر ہوئی۔ ان کی کئی رپوٹوں نے دنیا میں تھرتھری مچائی ہے۔ جنوری ۶۰۰۲ میں سیمور ہرش نے ’دی نیو یارکر‘ میگزین میں سی آئی اے کی ایک خفیہ رپورٹ کا حوالہ دیا تھا جو سیٹلائیٹ سے لی گئی تصاویر اور دیگر معلومات کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں اس رپورٹ نے امریکہ کے جھوٹے پروپیگنڈے کو بے نقاب کیا تھا۔ جو وہ ایران کے خلاف کرتا رہا ہے۔

جریدے کے مطابق سی آئی اے کی رپورٹ میں کچھ اہلکاروں نے اپنے نام نہ ظاہر کرتے ہوئے یورپ اور امریکہ کے ان دعوؤں پر شک کا اظہار کیا ہے کہ ایران درحقیقت جوہری ہتھیار تیار کرنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’سی آئی اے کو اب تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا ہے کہ ایران کسی خفیہ جوہری پروگرام پر کار بند ہے جو کہ اس کے پرامن جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ چل رہا ہو‘۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان ڈانا پرینو نے اس آرٹیکل پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بش انتظامیہ کے بارے میں غلط اندازوں پر مبنی ہے۔ ’وائٹ ہاؤس ایسے شخص کے کام اور تجزیے کو تسلیم نہیں کرے گا جو ہمارے فوجیوں کی ہتک کرتا رہا ہو اور اس کی تحقیق جھوٹ پر مبنی ہو اور جس کا مقصد اس کے اپنے بنیاد پرست خیالات کا جواز پیش کرنا ہو‘۔ انھوں نے یہ رپورٹ بھی شائع کی تھی کہ امریکہ اور اسرائیل حِزب اللہ کے خلاف جنگ کے بارے میں بہت پہلے سے رابطے میں تھے۔ تحقیقی صحافی سیمور ہرش نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف کارروائی کا منصوبہ بنانے کے بعد بش انتظامیہ کے اہلکاروں کو آگاہ کیا تھا۔ اس طرح ان کی ایک اور رپورٹ میں اس انکشاف نے دنیا کو حیران کردیا تھا کہ امریکی کمانڈوز ایران کے اندر گھس کر ممکنہ امریکی حملوں کے لئے فوجی ٹھکانوں کی نشاندہی کررہے ہیں۔

اس خبر میں سیمور ہرش نے لکھا تھا کہ انہیں خفیہ اہلکاروں نے بتایا کہ بش انتظامیہ کا اگلا نشانہ ایران ہے۔ سیمور ہرش کے مطابق ایران کی ایٹمی تنصیبات اور میزائیل تنصیبات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ سیمور ہرش نے اپنی یہ رپورٹ پینٹاگون سے منسلک سابق انٹیلی جنس اہلکاروں اور ان ذرائع کے حوالے سے تیار کی تھی ۔ جنہوں نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی ہے۔ ان کی ایک رپورٹ میں امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے ذاتی طور پر ایسا خفیہ پروگرام شروع کیا ہے جو عراقی قیدیوں سے بدسلوکی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ مذکورہ پروگرام کے تحت عراق میں امریکی فوج کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت کے بارے میں معلومات کے حصول کے لئے قیدیوں کو جسمانی تکلیف اور جنسی ذلت پہنچانے کے حربے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ سی مور ہرش کی تحقیقاتی رپورٹوں میں گمنام ذرائع کا کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کی رپورٹیں ایک خاص وقت اور خاص معاملے پر ہوتی ہیں۔ جن کے دور رس نتائج نکلتے ہیں۔ اور جن کی بنیاد پر فیصلہ کرنے والے فیصلہ کرتے ہیں۔ کئی سچ کے ساتھ ان کی رپورٹوں میں برتے جانے والے امتیازی سلوک کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ ان کے سی آئی اے سے گہرے روابط ہیں۔ جن کی بنیاد پر وہ کسی بھی اسٹوری کے ٹائم فریم کا تعین کرتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں مذکورہ صحافی کا رویہ ہمیشہ معاندارانہ رہا ہے۔ جیسا کہ انھوں نے اپنی اس رپورٹ میں پاکستان کے دو صدور کے متعلق بیان کیا ہے۔ صدر زرداری کے متعلق پرویز مشرف کی زبانی کلمات سے انھوں نے ایک تیر سے دو شکار کئے ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں یہ گمراہ کن رپورٹ اس ملک کے عوام کو افواج پاکستان سے بدظن کرنے کی سازش ہے۔ ہرش یہودی اور ہندو لابی کے پروردہ ہیں اور پاکستان کے بارے میں ان کی یہ رپورٹ ملک کی اساس پر حملہ ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418799 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More