امریکہ کی دیرینہ آرزو۔ ۔ ۔پاکستان کے جوہری اثاثوں پر قبضہ

ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کے نام پرامریکی پروپیگنڈا اور مکروہ عزائم

پاکستان اپنے جوہری اثاثوں کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔ ۔ ۔ ۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں اور نہ ہی ایسا پہلی بار ہوا ہے، اس سے قبل بھی امریکی خفیہ ایجنسیاں، عہدیدار اور میڈیا اس قسم کے بے بنیاد شوشے چھوڑتے رہے ہیں اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اثاثوں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرتے رہے ہیں، گزشتہ دنوں امریکی جریدے ”نیویارکر“ کی حالیہ رپورٹ بھی دراصل اسی سلسلے کی ایک کڑی اور اس کے تانے بانے اس امریکی مذموم مقاصد کی نشاندہی کررہے ہیں، جس کا مقصد پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اثاثوں پر امریکی کنٹرول کی دیرینہ آرزو کی تکمیل ہے، نیویارکر کی یہ متنازعہ رپورٹ جسے امریکی صحافی سیمور ہرش نے تیار کیا ہے، میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ پاک فوج کے ساتھ پاکستان کے جوہری اثاثوں کے تحفظ سے متعلق حساس معاہدوں پر بات چیت کررہا ہے، ان معاہدوں کے تحت امریکہ کا خصوصی تربیت یافتہ یونٹ بحران کی صورت میں پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کا اضافی تحفظ کر سکے گا۔

جوائنٹ چیف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل طارق مجید نے امریکی جریدے کے مضمون کو مسترد کرتے ہوئے اسے لغو اور شرانگیز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت کیلئے انتہائی مؤثر نظام موجود ہے اور ہمارے جوہری اثاثوں تک رسائی کے بارے میں حساس معلومات غیرملکی فرد، ریاست یا ادارے کو دینے یا تبادلے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کا کہنا ہے کہ ایٹمی ہتھیار بنانے والے اس کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں، دفتر خارجہ نے بھی جوہری اثاثوں کی حفاظت کیلئے کسی غیرملکی مدد کی ضرورت کے خیال کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے رپورٹ کو بے بنیاد اورمن گھڑت قرار دیا ہے، خیال رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد میں امریکی سفیر این پیٹرسن واضح طور پر یہ کہہ چکی ہیں کہ امریکہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر قبضے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نیویارکر میں شائع ہونے والی حالیہ رپورٹ امریکہ کے انہی مخصوص مقاصد کیلئے تیار اور شائع کی گئی ہے جس کا اظہار سابق امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کانگریس کمیٹی کے سامنے ان الفاظ میں کرچکی ہیں کہ ” ہم نے بحرانی صورت میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کا کنٹرول حاصل کرنے کیلئے ایک ہنگامی منصوبہ بنا رکھا ہے “ اسی وجہ سے اہم امریکی عہدیداروں کی طرف سے مسلسل یہ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے کہ انتہا پسند پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کر سکتے ہیں یا پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیرمحفوظ ہیں ۔

حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں امریکی پروپیگنڈا دراصل بھارتی لابی کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ تھا کیونکہ ہنود و یہود کسی طور یہ بات برداشت کرنے کو تیار نہیں کہ کسی مسلمان ملک کے پاس جوہری صلاحیت موجود ہو، یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اس کے حواریوں نے آج تک پاکستان کی ایٹمی قوت کو تسلیم نہیں کیا اور پہلے ہی دن سے آج تک پاکستان پر طرح طرح سے دباؤ ڈالا جارہا ہے اور امریکا مختلف حیلوں و بہانوں سے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور طاقت کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔

حالات و قرائن سے اندازہ ہورہا ہے کہ اس وقت امریکی جریدے نیویارکر نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے جو رپورٹ شائع کی ہے وہ بے مقصد نہیں ہے، گو کہ پاکستان کی طرف سے اس رپورٹ کی سختی سے تردید کی گئی ہے لیکن اس رپورٹ میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ کسی طور نظر انداز کرنے کے لائق نہیں بلکہ اس کو بین السطور پڑھنے، سمجھنے اور غور کرنے کی اشد ضرورت ہے، خیال رہے کہ مذکورہ رپورٹ امریکا کے مشہور صحافی سیمورہرش کی تیار کردہ ہے جس کے رابطے پاکستان کی اہم شخصیات سے ہیں، امریکی صحافی سیمور ہرش امریکہ کے ان چند صحافیوں میں سے ہیں جو خاص مواقع پر اسلام آباد آکر نہ صرف اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں بلکہ دنیا میں ان کی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے رپورٹوں کو خاص توجہ کی نظر سے دیکھا اور پڑھا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ سیمور ہرش یہودی لابی سے قریبی تعلق کی بناء پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں ایک خاص نقطہ نظر رکھتے ہیں، گو کہ اس رپورٹ کا بیشتر حصہ تو اخباری اصطلاح میں”ٹیبل اسٹوری“ معلوم ہوتا ہے، مگر اس تحریر کو مکروہ سازش اور پاکستان مخالف گمراہ کن پروپیگنڈ ے کا حصہ قرار دیا جاسکتا ہے اور یہ کسی ایسی سازش کی کڑی معلوم ہوتی ہے جس کا بنیادی مقصد چند عناصر کی پشت پناہی سے دنیا میں پاکستان کے تشخص کو داغدار کرنا اور ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے نام پر کہوٹہ یا دیگر حساس مقامات پر امریکی کنٹرول کیلئے راہ ہموار کر کے پاکستان کو ایٹمی سطح پر مفلوج کرنا اور بھارت کیلئے نرم چارہ بنانا ہے۔

تاہم اس رپورٹ کا سب سے خطرناک ترین پہلو یہ انکشاف ہے کہ”گزشتہ گرمیوں میں ایک جھوٹی خبر یہ ملی کہ پاکستان کے 80سے100تک کے ایٹم بموں میں سے ایک غائب ہے جس پر دبئی میں موجود ایف بی آئی، سی آئی اے، پینٹا گون اور انرجی ڈیپارٹمنٹ کی ایکشن ٹیم پاکستان پر حملے کے لیے تیار ہوگئی، تاہم چار گھنٹے بعد جب یہ خبر غلط ثابت ہوئی تو ٹیم کو روانگی سے روک دیا گیا، اس خبر کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اگر اور کچھ دیر تک اس افواہ کی تردید نہ ہوتی تو پھر کیا ہوتا، یہاں قابل توجہ اور سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ایسی ہی کسی اور افواہ کی بنیاد پر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر یلغار ہوسکتی ہے، یہ افواہ خود امریکی ذرائع بھی اڑا سکتے ہیں اور امریکا اس پر فوری عمل کرسکتا ہے۔

کیونکہ دبئی میں تربیت یافتہ ایکشن ٹیم کی موجودگی ظاہر کررہی ہے کہ امریکا اس مقصد کے لئے تلا بیٹھا ہے، نیویارکر کی اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ جنرل کیانی اور امریکی ایڈمرل مائیکل مولن میں ذاتی دوستی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر باہم رابطے ہیں، چنانچہ امریکا اور پاکستانی فوج میں یہ مذاکرات ہورہے ہیں کہ ایٹمی تنصیبات اور اسلحہ کو کوئی خطرہ درپیش ہو تو ماہرین پر مشتمل امریکی ٹیم کو حرکت میں آنے کی اجازت ہوگی اور امریکی دستے جوہری ہتھیار اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں، رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ جوائنٹ اسپیشل آپریشنز کمان نے پاکستانی ایٹمی اسلحہ کی منتقلی کے لیے بھی منصوبہ بندی کرلی ہے، پاک فوج کو خصوصی فنڈز دیے جائیں گے اور پاکستان نے ہتھیاروں کے مقامات اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے بارے میں معلومات فراہم کردی ہیں۔

دراصل سیمورہرش کی رپورٹ امریکہ کی اس دیرینہ خواہش کی عکاسی کرتی ہے جس کا اظہار ہم مضمون کے ابتداء میں کرچکے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں موجودہ حالات امریکی جنگ کے پیدا کردہ ہیں، افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ہی خطے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی بڑھی ہے، ان حالات میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو اگر کوئی حقیقی خطرہ ہے تو وہ بھارت، اسرائیل اور امریکہ سے ہے، کیونکہ امریکی ایجنٹ پاکستان کے مختلف شہروں بالخصوص اسلام آباد میں سرگرم عمل ہیں اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائش گاہ اور کہوٹہ کے قریب بلیک واٹر اور دیگر امریکی اہلکاروں کی موجودگی کا انکشاف ہو چکا ہے، اس بناء پر سیمور ہرش کی رپورٹ کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کا ایٹمی پروگرام اپنے اعلیٰ انتظامات کی وجہ سے محفوظ ہے اور اس پر انتہا پسندوں کے قبضے کا کوئی امکان نہیں، لیکن امریکہ کی طرف سے اس خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا مقصد واضح ہے کہ وہ عالمی سطح پر تشویش پیدا کر کے اس پر خود کنٹرول کرنا چاہتا اور اس قسم کی پورٹوں کے ذریعے اپنی حکمت عملی چھپانا چاہتا ہو، یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان کا جوہری پروگرام کا کنٹرول اور کمان سسٹم دنیا کے کسی بھی ایٹمی ملک سے زیادہ جدید اور بہتر ہے اور یہی وجہ ہے کہ دشمن کی کوئی بھی شرارت آج تک کامیاب نہیں ہوسکی لیکن امریکہ دوستی کے پردے میں جس دشمنی کا خواہاں ہے، اس سے بچنے کی تدابیر ہمیں ہر سطح پر کرنی چاہئیں۔

اور حکومتی ذمہ داران کو ان رپورٹوں کی واضح تردید کرنے کے ساتھ قوم کو یہ یقین دہانی بھی کرانی چاہئے کہ پہلے کی طرح ہمارے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت جذبہ جہاد سے سرشار پاک فوج اپنے کنٹرول اینڈ کمان سسٹم کے تحت کر رہی ہے، یہ پروگرام ہم نے اپنی صلاحیت، محنت اور وسائل سے شیلف میں سجانے کیلئے نہیں بلکہ بوقت ضرورت استعمال کرنے کیلئے تیار کیا ہے، لہٰذا دنیا اس ضمن میں اپنی غلط فہمی کو دور کرلے، ہم نہ صرف اپنے جوہری پروگرام کی حفاظت کرنا جانتے ہیں بلکہ اس کی طرف اٹھنے والی ٹیڑھی آنکھ اور بڑھنے والے ناپاک ہاتھ کو روکنا اور دشمن کو منہ توڑ جواب دینا بھی جانتے ہیں۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357754 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More