اسرائیل کے سابق وزیراعظم منانم
بیگن کی کتاب ’’انقلاب‘‘ میں یہ الفاظ درج ہیں:
’’اے اسرائیلیو! تم پر ضروری ہے کہ اپنے دشمنوں کو قتل کرنے میں کبھی نرم
نہ پڑو اور ان پر ترس نہ کھاؤ، تاکہ ہم عربی کلچر نام کی چیز ختم کر دیں
اور اس کے کھنڈروں پر اپنی تہذیب کھڑی کریں، فلسطینی محض کیڑے ہیں، جن کو
ختم کر دینا چاہیے۔‘‘
اسی سوچ کی وجہ سے اسرائیل نام کا وحشی درندہ وقفے وقفے سے مظلوم فلسطینیوں
پر انسانیت سوز مظالم اور بربریت کا سلسلہ تیز کر دیتا ہے، جو کہ ایک عرصے
سے جاری ہے۔
سر زمین انبیاء فلسطین میں اسرائیل گزشتہ 66 برسوں سے خون کی ندیاں بہا رہا
ہے، لیکن عالمی طاقتوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ عالمی سامراجی
طاقتوں کے جہاں کہیں مفادات ہوتے ہیں وہاں تو جنگ سے لے کر مذاکرات اور
کانفرنسوں سمیت ہر قسم کے اقدامات عمل میں لائے جاتے ہیں، لیکن یہاں زبانیں
گنگ ہیں۔
اس حالیہ دہشت گردانہ کاروائی کو بند کرانے کے لیے، مصری خونی صدر عبد
الفتاح سیسی نے کاغذ کے چند ٹکڑوں پر اپنے آقا اسرائیل کی مرضی کے مطابق
کچھ الفاظ تحریر کرکے اراکین حماس کو اسرائیل کے خلاف دفاعی کاروائی بند
کرنے کی اپیل کی تاکہ سیسی کو اسلام اور مسلمانوں کے حامی و مددگار ہونے کا
سرٹیفیکیٹ (Certificate) مل جائے۔ منصوبے کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم
بنجامن نیتن یاہو نے اس تجویز کو فورا قبول کر لیا اور کچھ گھنٹوں کے لیے
دہشت گردی بند بھی کردی لیکن قربان جائیے ’’حماس‘‘ کے جیالوں پر جنہوں نے
اس تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ:
’’مصری حکومت کی جانب سے فائر بندی کی جو تجویز پیش کی گئی ہے وہ شکست
خوردہ اور بزدلانہ ذہنیت کی پیداوار ہے، جسے غیور فلسطینی عوام کسی صورت
میں قبول نہیں کر سکتے۔‘‘
حماس کے جنگ بندی کو قبول نہ کرنے سے اسرائیل کو اب اپنی جارحیت جاری رکھنے
کا نیا بہانہ مل گیا ہے۔ جب یہ انکار سامنے نہیں آیا تھا تو اس وقت یہ جواز
تھا چونکہ حماس کی جانب سے راکٹ پھینکے جا رہے ہیں اس لئے وہ مجبور ہے۔ جب
راکٹ نہیں پھینکے جا رہے تھے تو یہ بنیاد تھی کہ حماس کے لوگوں نے تین
یہودیوں کا قتل کر دیا ہے اس لئے تمام فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینے کا حق
اسے حاصل ہو گیا ہے۔ جب یہودی قتل نہیں ہوئے تھے اس وقت فلسطینی نوجوانوں
کو شہید کرنے کیلئے نقبہ کے دن پرامن احتجاج میں شریک ہونا وجہ جواز تھا۔
جب وہ احتجاج نہیں ہوا تھا اس وقت محمود عباس کے ساتھ امن معاہدے پر گفتگو
ترک کرنے کیلئے یہ دلیل پیش کی گئی کہ عباس نے حماس کے ساتھ مل کر مخلوط
حکومت بنا لی ہے جبکہ اس اتحاد سے پیشتر محمود عباس کو عار دلائی جاتی تھی
کہ وہ سارے فلسطینیوں کی نمائندگی نہیں کرتے، حماس ان کی رہنمائی تسلیم
نہیں کرتی اس لئے ان سے بات چیت بے سود ہے۔ گویا بہانے، دلائل اور جواز
بدلتے رہے لیکن بربریت کا بازار بہر صورت گرم رہا۔ گویا جبر و استبدادکو
جاری رکھنا بنیادی مقصد ہے اس کیلئے بوقتِ ضرورت مختلف قسم کے حیلے بہانے
تراش کر لئے جاتے رہے۔
اس میں شک نہیں کہ اسرائیل کی فوجی طاقت کے مقابلے حماس کے وسائل نہایت
محدود ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت کہ حماس کے قوت ایمانی، شجاعت وجرئت مندی
اور صبر واستقامت صہیونیوں کو خوفزدہ کر دیتا ہے۔ اس لئے وقفہ وقفہ سے اس
طاقت کو کچلنے کی مذموم کوشش اسرائیل کرتا رہا ہے۔
غزہ پر صیہونی یلغار پر عالمی برادری کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔ غاصب
اسرائیل ایک درندہ بن چکا ہے۔ عالمی برادی اور عالم مغرب نے بالخصوص صیہونی
درندے اسرائیل کو کھلی آزادی دے رکھی ہے جس کے نتیجے میں وہ جب چاہتا ہے
فلسطین کے معصوم انسانوں کا قتل عام کرتا ہے اور ان کے خون سے ہولی کھیلتا
ہے۔
آج ہمیں شدت سے شیخ اسامہ بن لادنؒ کی للکار یاد آرہی ہے جسے سن کر سینہ
ٹھنڈا ہوتا تھا۔ انہیں للکاروں سے صلیبیوں اور صیہونیوں کی نیندیں حرام
تھیں۔
القاعدہ کے ابتدائی دنوں میں افغانستان میں مجاہدین کے سامنے فلسطین کے
ساتھ اظھار یکجہتی کرتے ہوئے فرمایا:
’’فلسطین میں اپنے بھائیوں سے ھم کہتے ہیں، تمھارے بچوں کا خون ہمارے بچوں
کا بھی خون ہے اور تمہارا خون ہمارا خون ہے۔ یہ خون بھی ایک ہے اور یہ
ٹوٹنے والی تباہی بھی ایک ہے۔ ھم اﷲ کو گواہ بناتے ہیں کہ تمھیں اکیلا نہیں
چھوڑیں گے یہاں تک کہ فتح مل جائے یا ھم بھی وہی چکھ لیں جو حمزہ عبدالمطلب
نے چکھا تھا (یعنی شہادت )۔
ان شاء اﷲ یہی وہ لشکر ہو گا جو سرحدوں سے ماورا پوری دنیا میں مسلمانوں کی
داد رسی کرے گا۔ اپنے الفاظ کو عملی جامہ پہنائے گا اور سرخرو ہو گا اپنے
رب کے آگے۔‘‘
ایک اور موقع پر اپنی ایک ویڈیو کے ذریعہ پیغام دیا:
’’میں بلند و برتر اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں، جس نے آسمان کو
بغیر ستونوں کے بلند فرمایا کہ نہ امریکہ اور نہ اس میں بسنے والے کفار
کبھی سکون اور امن سے رہنے کا خواب بھی دیکھ سکیں گے، جب تک کے امن فلسطین
میں ایک حقیقت نہ بن جائے اور جب تک کہ کفار کے لشکر سر زمین نبوت اور دیگر
مسلم علاقوں کو چھوڑ نہ جائیں اور اﷲ سب سے بڑا ہے اور طاقت اور عزت اسلام
کے ساتھ ہے۔‘‘
اﷲ تبارک و تعالیٰ حضرت شیخ اسامہ بن لادنؒ کو اپنی شایان شان اجر عظیم عطا
فرمائے، انہوں نے اپنے عمل اور قابل رشک زندگی سے مسلمانوں خصوصاً اہل عرب
کے لیے بہت سے اسباق چھوڑے ہیں۔ مسلمانوں اور خصوصاً اہل عرب کی مجرمانہ
خاموشی پر حضرت عبداﷲ بن مبارکؒ کے وہ تاریخی اشعار نذر قارئین ہیں جو ایسے
مواقع پر ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں، شاید ان اشعار کو پڑھ کر
کسی مسلمان کو فلسفۂ جہاد سمجھ آجائے۔
’’محمد بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ 177ھ میں حضرت عبداﷲ بن مبارک رحمہ اﷲ نے
مجھے طرسوس کے محاذ پر کچھ اشعار لکھوائے اور مجھے حکم دیا کہ میں یہ اشعار
مکہ پہنچ کر حضر ت فضیل بن عیاض رحمہ اﷲ کی خدمت میں پیش کروں۔ وہ اشعار یہ
ہیں۔
یا عابد الحرمین لو ابصرتنا
لعلمت انک فی العبادۃ تلعب
اے حرمین شریفین کے عابد اگر آپ ہم مجاہدین کو دیکھ لیں، تو آپ جا ن لیں گے
کہ آپ تو عبادت کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔
من کان یخضب خدہ بدموعہ
فنحورنا بدمائنا تتخضب
اگر آپ کے آنسو آپ کے رخساروں کو تر کرتے ہیں، تو ہماری گردنیں ہمارے خون
سے رنگین ہوتی ہیں۔
او کان یتعب خیلہم فی باطل
فخیولنا یوم الصبیح تتعب
اور لوگوں کے گھوڑے فضول کاموں میں تھکتے ہیں، مگر ہمارے گھوڑے تو حملے کے
دن تھکتے ہیں۔
ریح العبیر لکم ونحن عبیرنا
رھج السنابک والغبار الاطیب
عنبر وزعفران کی خوشبو آپ کو مبارک ہو جبکہ ہماری خوشبو تو، گھوڑے کے کھروں
سے اڑنے والی مٹی اور اﷲ تعالیٰ کے راستے کا پاک غبار ہے۔
ولقد اتانا من مقال نبینا
قول صحیح صادق لایکذب
ہم آپ کو اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک فرمان سناتے ہیں، ایسا فرمان جو
بلاشبہ درست اور سچا ہے۔
لا یستوی وغبار خیل اﷲ فی
انف امری ودخان نارتلھب
جمع نہیں ہوسکتی اﷲ کے راستے کی مٹی، اور دوزخ کی بھڑکتی آگ کسی شخص کی ناک
میں۔
ھذا کتاب اﷲ ینطق بیننا
لیس الشھید بمیت لایکذب
یہ اﷲ کی کتاب ہمارے درمیان اعلان فرما رہی ہے کہ، شہید مردہ نہیں ہوتا یہ
فرمان بلاشہ سچا ہے۔
محمد بن ابراہیم رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ خط حضرت فضیل کو پہنچا
دیا، انہوں نے جب پڑھا تو رونے لگے اورفرمایا، ابو عبدالرحمٰن (عبد اﷲ بن
مبارک) نے بالکل سچ بات فرمائی اور مجھے نصیحت کی۔‘‘
٭…٭…٭ |