بھوکا بٹیر

میں چند لمحوں کے لیے آپ کو تھوڑا سا ماضی میں لے جانا چاہتا ہوں اس کالم میں ایک تصویر کے دو رخ ہیں ویسے جب آپ کسی تصویرکو سیدھی طرف سے دیکھیں تو وہ اصل تصویر لگتی ہے مگر دوسری طرف سے تصویر کی رعنائی کچھ اور ہوتی ہیں مگر اس کالم میں معاشرے کی جس تصویرکا میں ذکر کروں گا اس تصویر کے دونوں رخ ایک جیسے ہیں لیں جی اب آپ بھی سن لیں اور دیکھ لیں۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب سابق وزیر اعظم آزاد کشمیرممتاز راٹھور (مرحوم )آزاد کشمیر کی سیاست کے افق پر ایک درخشاں ستارے تھے اور انکا اقتدار بام ِعروج پر تھا ۔انھوں نے اپنے گھر سے محض چند قدم کے فاصلے پر ایک گرلز مڈل سکول کو اپ گریڈ کر کے ہائی کا درجہ دیا اور نوٹیفیکیشن ایک نامی گرامی شخصیت کو دے کر مظفرآباد سے حویلی رخصت ہونے کا عندیہ دیا ۔مگر وہ نامی گرامی بلکہ آپ انہیں بااثر شخصیت کہہ لیں تو زیادہ اچھا رہے گا نے وہ نوٹیفیکیشن ممتاز راٹھور صاحب کے سامنے پھاڑا اور ردی کی ٹوکری میں پھینک کر فرمانے لگے کہ راٹھور صاحب آپ ہمارے ساتھ یہ ظلم کیوں کر رہے ہیں؟ممتاز راٹھور صاحب نے حیرانگی سے پوچھا کیا مطلب ؟کیسا ظلم؟ اس با اثر شخصیت نے جواب دیا کہ اگر آپ اس سکول کو ہائی کا درجہ دیں گے تو یہاں کی بچیاں پڑھ لکھ جائیں گی اور پھر اپنے بچوں کو بھی تعلیم کی طرف راغب کریں گی جب سب لوگ تعلیم یافتہ ہو جائیں گئے تو میرے پاس تھانیدار ،جج،اور ایس ڈی ایم کو خط لکھوانے کون آئے گا(اس وقت چونکہ ٹیلیفون کی سہولت موجود نہیں تھی) لہٰذاعلاقے کی بااثر شخصیات انتظامیہ کو بھی اپنے ہاتھ میں رکھتی تھیں یا انتظامیہ ان بااثر شخصیات کو اپنے ہاتھ میں رکھتی تھی اور اگر کسی غریب شخص کا کوئی کام تھانے،کچہری میں پھنس جائے تو با اثر شخصیات کی چاندی ہو جاتی تھی ۔یہ بااثر شخصیات غریب بیچارے سے نذرانہ وصول کر کے تھانیدار،جج،یا اسسٹنٹ کمشنر کو اپنے نام کا خط لکھ کر کام مکمل کرنے کا فرمان جاری کرتے تھے۔ممتاز راٹھور صاحب نے جواب میں کہا کہ یہ لوگ اگر تعلیم حاصل نہیں کریں گے تو مستقبل میں کیسے گزر اوقات کریں گے،تعلیم کے بغیر نوکری ملے گے نہ اچھا کاروبار کر سکیں گے اور نہ ہی بیرون ممالک میں جا کر کچھ کر سکیں گے ۔یہ لوگ بھوکے مر جائیں گے،لیکن بااثر شخصیت نے کہا کہ بھوکا بٹیر زیادہ لڑتا ہے۔لہذا یہ جتنے بھوکے رہیں گے اتنا ہی مجھے اور مجھ جیسے دوسرے بااثر لوگوں کے لیے اور مقامی سیاست میں کامیابی کے لیے اچھا ہے اور یہی سیاست کا اصل گُر بھی ہے ۔یہ گرلز مڈل سکول اُس کے بعد آج تک ہائی نہیں ہو سکا۔مسلم کانفرنس کے دس سالہ دور اقتدار میں چوہدری محمد عزیزوزیر تعلیم بھی رہے،سنیئر وزیر بھی اور قائم مقام وزیر اعظم بھی مگر انھوں نے بھی اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور اپنی ہر تقریر میں اس سکول کو مرحوم ممتاز راٹھور کے گھر کا سکول کہہ کر اس سکول کا مذاق اڑاتے رہے ۔سردار یعقوب خان عدم اعتماد کے ذریعے وزیر اعظم بنے ناگہ ناڑی میں کسی مسلم کانفرنسی رہنماکے گھر انکی دعوت تھی جس میں ،سردار میر اکبربھی شامل تھے لوگوں نے وہاں اس سکول کو ہائی کا درجہ دینے کا مطالبہ کیاسردار میر اکبر خان نے پوچھاکہ یہ سکول آج تک ہائی کیوں نہ ہو سکا تو چوہدری محمد عزیز جو کہ اس وقت بھی وزیر تعلیم تھے نے وہاں بھی اس سکول کا مذاق اڑایاکہ یہ سکول سابق وزیر اعظم مرحوم ممتاز راٹھور صاحب کے گھر کے صحن میں ہے انھوں نے اسے ہائی کا درجہ نہیں دیا اب میں اس سکول کو اَپ گریڈ کروں تو ممتاز راٹھور مرحوم کی روح مجھ سے ناراض ہو گی ۔ یوں عوام کا وہ مطا لبہ سابق سینئر وزیر چوہدری محمد عزیز کے اس مذاق کی گرد میں گم ہو گیاجبکہ اس سکول کو اپ گریڈکر کے چوہدر محمد عزیز عوامی ہمدردی حاصل کر سکتے تھے ،اب آپ اسی تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیں چوہدری محمد عزیز بحثیت وزیر یونین کونسل بدھال کے دورے پرتھے ۔بھاٹا کوٹ کے ایک گرلز پرائمری سکو ل کو مڈل سکول میں اپ گریڈ کرنے کا اعلان کیاوہاں کی ایک با اثر شخصیت کو یہ اعلان ناگوار گزرا اور انھوں نے چوہدری محمد عزیز پر سیاسی دباؤ ڈال کر یہ اعلان واپس لینے پر مجبور کر دیا کہ اگر یہاں کی بچیاں تعلیم حاصل کر گئیں تو انکی کھڑپینچی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یوں یہ سکول بھی آج تک پرائمری ہے اور اس وقت تک پرائمری ہی رہے گا جب تک اس طرح کی بااثر شخصیات اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے عوام کو تعلیم سے دور رکھیں گی ۔اور یو ں بھوکے بٹیر لڑتے رہیں گے انکی کھڑ پینچی بھی چلتی رہے گی اور نان نفقہ بھی۔یہی ہمارا معاشرتی رویہ ہے جس کی بدولت آج تک اگر کسی نے ترقی کی ہے تو وہ صرف اور صرف با اثر لوگ ہیں ۔غریب اور عام آدمی آزدی کے وقت جہاں تھا آج بھی وہیں کھڑا ہے،عام آدمی کل بھی بھوکا ننگا تھا،آج بھی بھوکا ننگا ہی ہے،وہ کل بھی بیروز گار تھا آج بھی بیروز گار ہے،کل بھی محروم تھا آج بھی محروم ہے،کل بھی ظلم جبر و استبداد کی چکی میں پس رہا تھا آج بھی انسانیت سوز مظالم کا شکارہے،عام آدمی کل بھی استحصال زدہ تھا آج بھی با اثر لوگوں کی خدمت پر مجبورہے۔ کھڑپنچوں کی کھڑپنچیاں چل رہی ہیں ہاں البتہ ایک تبدیلی ضروری ہوئی ہے کہ انتظامیہ تک سفارشی خط کی جگہ اب موبائل فون نے لے لی ہے جو کام دو یا تین دن میں ہوتا تھا آجکل موبائل فون کی بدولت برق رفتاری سے ہو جاتاہے ۔عام آدمی کل بھی عام سا تھا آج بھی عام ہے اور مستقبل میں بھی عام ہی رہے گااس میں قصور بھی عام آدمی کا اپنا ہی ہے جو ان لوگوں کے نرغے میں آجاتا ہے وہ لوگ جو ہر حکومت کا ہر اول دستہ ہوتے ہیں یہ لوگ عام ،چھوٹے اور غریب لوگوں کو جانوروں کی طرح ہانک کر رکھتے ہیں ۔برادری ازم کے نام پر لڑاتے ہیں،لوگوں کی زمینوں پر اپنے ہرکاروں کے ذریعے قبضے کروا تے ہیں ،عدالتوں میں کیس کرواتے ہیں ۔جعلی پرچے کٹواتے ہیں اور پھر انہی غریب ،بے بس اورلاچارلوگوں سے پیسے لیکر انکی ضمانتیں کرواتے ہیں،جج سے کیس خارج کرواتے ہیں اور اپنی اولادوں کے لئے جہنم پالتے ہیں۔ عام آدمی توبھوکے بٹیر ہیں اور خوب لڑتے ہیں۔اب آجائیں ان بااثر شخصیات کے گٹھ جوڑ پرہر برادری میں کچھ باعزت با وقارمنصف اور کچھ نام نہاد بااثر لوگ ہوتے ہیں۔ہر برادری کے بااثر شخص کا ہر دوسری برادری کے با اثر شخص کے ساتھ رابطہ استوار رہتا ہے۔یہ دن کی روشنی میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں،برائی کرتے ہیں،سیاسی سطح پر عام آدمی کو لڑاتے ہیں اور یو ں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہیں لیکن اگر کوئی بھی عام آدمی ان کے خلاف بولے تو ایک دم یہ سارے گٹھ جوڑ کر لیتے ہیں اور اپنے مخالف کو مل کر راندہ درگاہ بنا دیتے ہیں۔جعلی پرچے کٹواناانکا محبوب مشغلہ ہے ان چند مخصوص با اثر لوگوں خواہ وہ کسی بھی برادری یا قبیلے سے ہوں کا ایک ہی ایجنڈا ہوتا ہے یہ سب مل کرلوگوں پر اپنی ہیبت بٹھانے اور انہیں مغلوب کرنے کے لیے ایسے ایسے طریقے ایجاد کرتے ہیں کہ جنہیں دیکھ اور سن کر تاریخ کے بدترین جابروں کی سفاکیاں بھی شرم سے پانی پانی ہو جاتی ہیں ۔اور عام آدمی بھوکے بٹیر کی طرح لڑتاہی رہتا ہے مرتا رہتا ہے،غربت ،بیروزگاری،جہالت،معاشرتی وسماجی ا نتہا پسندی کے اصل ذمہ دار یہی لوگ ہیں جو لوگوں کو تعلیم سے دور رکھ کر اپنے زیرِسایہ رکھتے ہیں ۔یہ نہیں جانتے کہ اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لیے زندگی کے جن راستوں پر دوسروں کے لیے خار بوتے جا رہے ہیں ان کے پیچھے آنے والی انکی اپنی ہی نسلیں اس راستے سے لہولہان ہو کر گزریں گی کیونکہ ہم جو بوتے ہیں اسے ایک دن کاٹنا تو ہے چاہے ہم خود کاٹیں یا ہماری آنے والی نسلیں کاٹیں ۔بہر حال آج کے بوئے ہوئے اس بیج کی فصل کو ایک دن کاٹنا ہی پڑے گا۔میرا اصل موضوع تو بھوکا بٹیر اور گرلز مڈل سکو ل پلنگی ہی تھا مگر اس سکول اور اس جیسے دوسرے تعلیمی اداروں کو خستہ حالی کی طرف دھکیلنے والوں کا تذکرہ تھوڑا زیادہ ہو گیاہے لیکن کیا کروں میں کوئی بات دل میں نہیں رکھ سکتاجو زمینی حقائق ہیں وہ بیان کرنا ہی پڑتے ہیں تاکہ کڑوے سچ کی کڑواہٹ تھوڑی سی تو محسوس ہو سکے۔عوام علاقہ سے بھی مودبانہ گذارش ہے کہ کب تک ان لوگوں کے لیے برادری ازم اور مجموعی عزت و غیرت کے نام پر بھوکے بٹیر کی طرح لڑتے رہو گے ۔اپنے حقوق کیوں نہیں لیتے کیوں نہیں چھینتے ان لوگوں سے جو 67سالوں سے آپ کے حقوق پر شب خون مار رہے ہیں۔یہ کالم میں نے کسی پر تنقید کے پتھر پھینکنے کے لیے نہیں لکھا بلکہ زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر مظلوم عوام پر جبر و طاقت کے برسائے ہو ئے پتھروں کو چننے اور انکی آواز کو بلند کرنے کے لیے لکھا ہے کہ اندھیری رات چاہے کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو صبح ضرور ہوتی ہے۔ آخر میں وزیر برقیات راجہ فیصل ممتاز راٹھور صاحب کی ’’خدمت ِاقدس ‘‘میں عرض کر دوں کہ یہ سکول اب نہ صرف آپ کے گھر کے پڑوس میں ہے بلکہ آپ کے والد مرحوم ممتاز راٹھو ر صاحب کے مقبرے سے عین سو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔آپ ہی ان لوگوں پر کچھ مہربانی کر دیں جنہوں نے آپ کو ووٹ دیئے انکی بچیوں کی تعلیم اور مستقبل کا کچھ بندوبست کردیں۔ تا کہ مرحوم ممتاز راٹھور کا تعلیم سب کے لیے یکساں والا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔ورنہ بھوکا بٹیر زیادہ بھوک بھی برداشت نہیں کر سکتا۔
Asif Rathore
About the Author: Asif Rathore Read More Articles by Asif Rathore: 14 Articles with 12851 views writer . columnist
Chief Editor Daily Haveli News web news paper
.. View More