غزہ بحیرہ روم کے مشرقی کنارے پر
ایک باریک لیکن انتہائی گنجان آباد پٹّی ہے۔ اس کے 365 مربع کلومیٹر میں 18
لاکھ افراد آباد ہیں جن کی اکثریت پناہ گزینوں کی ہے۔اس پٹی پراسرائیلی فوج
وحشت اور بربریت کا کھیل کھیلتے ہوئے لاکھوں انسانوں کو لقمہ اجل بنا چکی
ہے،موجودہ پروٹیکٹو ایج آپریشن میں ایک ہزار کے لگ بھگ فلسطینی بچوں،خواتین
کو شہید کیا جا چکا ہے،موت کا یہ کھیل ابھی تک جاری ہے،اس حالیہ لڑائی میں
حماس کا تو کوئی نقصان نہیں ہوا تاہم اسرائیل کی کمر ٹوٹتی نظر آ رہی ہے،اب
تک کئی اسرائیلی فوجی جہنم کی وادی میں جا چکے ہیں،اسرائیل کو اس کارووائی
کی ضرورت کیوں پیش آئی،اس کے پس منظر میں مقاصد کیا ہیں ان کا اندازہ
انٹرنیشنل سیکورٹی کے عالمی شہرت یافتہ ماہر ڈاکٹر نفیز احمدکے معتبر
برطانوی اخبار گارڈین کو دیے گئے انٹرویو سے لگایا جا سکتا ہے،انہوں نے
اسرائیل کے غزہ پر حملے کی اصل وجہ سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا ہے کہ
اسرائیل کا اصل ہدف غزہ کے ساحل کے قریب دریافت ہونے والے 1.4 کھرب مکعب فٹ
گیس کے ذخائر ہیں جن پر قبضہ کرنے کیلئے غزہ پر آگ برسائی جارہی ہے،ڈاکٹر
نفیز نے موجودہ اسرائیلی وزیر دفاع کے ان بیانات کا حوالہ دیا ہے کہ
2007میں غزہ پر حملے کرتے وقت دیئے گئے تھے جب وہ اسرائیلی افواج کے سربراہ
تھے ۔موشے یالون کاموقف تھا کہ فلسطینیوں کے گیس کے ذخائر پر قبضہ کرنا
ضروری ہے کیونکہ اسرائیل کے اپنے ذخائر پر آئندہ چند دہائیوں میں ختم ہونے
والے ہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر فلسطینی خود ان ذخائر سے گیس نکالیں
گے تو اس کے فوائد اسرائیل کی دشمن تنظیم حماس کو بھی پہنچیں گے جو مضبوط
ہو کر اوربڑا خطرہ ثابت ہوگی اس لئے اسرائیل نے یہ ضروری قرار دیا تھا کہ
حماس کو جڑ سے اکھاڑا جائے اور اس مقصد کیلئے 2007میں آپریشن کاسٹ لیڈکا
آغاز کیا گیا لیکن 1387فلسطینیوں کی شہادت کے باوجود حماس کا خاتمہ نہ ہو
سکا۔اس وقت اسرائیل عملی طور پر فلسطین کے تمام معدنی ذرائع ،ساحلوں اور
سمندروں کا استعمال کر رہا ہے اور مستقبل میں فلسطینی گیس کے ذخائر کو
اسرائیلی ذخائر کا حصہ بنانے کیلئے دوبارہ غزہ پر حملہ کر دیا گیا
ہے۔اسرائیل کے دو چیف سائنسدان اپنی حکومت کو بتا چکے ہیں کہ ملک کے معدنی
ذرائع خصوصا گیس ضرورت سے بہت کم ہے ۔2020تک اسرائیل کا توانائی بحران شدت
اختیار کر سکتا ہے۔اس صورتحال کے پیش نظر اب اسرائیل فلسطینی معدنی ذرائع
پر قبضے کو ازحد ضروری سمجھ رہا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ذزرائع غزہ کے ساحل
کے قریب واقع ہیں اور غزہ حماس کے زیراثر ہے۔اسی مسئلے کو حل کرنے کیلئے
اسرائیل نے ایک دفعہ پھر حماس کے خاتمہ کیلئے غزہ پر جنگ مسلط کی ہے اور
غزہ کی عوام کو حماس کی حمایت کی سزا دینے کیلئے بڑے پیمانے پربمبوں
اورمیزائلوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔غزہ کی جنگ دراصل فلسطینی مسلمانوں
کو ان کی زمین اور قدرتی وسائل سے ہمیشہ کیلئے محروم کرنے کی جنگ ہے تاکہ
یہ زمین اور وسائل اسرائیل کے ناجائز وجود کو زندہ رکھنے کیلئے استعمال ہو
سکیں۔ |