ایڈ ٹو سیریا ایسے صالح نوجوانوں
کی تنظیم ہے کہ جو برسوں سے شام پر ڈھائے جانے والے مظالم سے سماجی رابطوں
کی ویب سائٹس کے ذریعے لاکھوں افراد کو نہ صرف آگاہ کرتے ہیں بلکہ انکے لئے
فنڈز جمع کرکے ادویات اور دیگر ضروریات اپنی جانوں کو خطروں میں ڈال کر
مظلوم اور بے بس شامی مسلمانوں تک پہنچاتے ہیں۔شامی مسلمان اس وقت تاریخ کے
بدترین دور سے گذر رہے ہیں۔گذشتہ دنوں اسی فلاحی تنظیم کے زیر اہتمام شامی
مسلمانوں کی حالت زار سے شہر قائد کے باسیوں کو آگاہ کرنے اور انکے لئے
فنڈز جمع کرنے کی غرض سے دعوت افطار کے ساتھ تقریب کا اہتمام کیا گیا۔جس
میں مختلف شعبہ زندگی سے وابستہ افراد نے شرکت کی۔تقریب حاضری کے لحاظ سے
متاثر کن نہیں تھی لیکن جذبوں کے لحاظ سے تقریب مکمل طور پر اپنے شامی
بھائیوں کیلئے جذبات سے لبریز تھی۔تقریب میں چند تقاریر بھی ہوئیں،اس کے
ساتھ ساتھ شامی مسلمانوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم کی تصویری نمائش سمیت
حصوصی دستاویزی فلم بھی دیکھائی گئی۔مقررین نے شام کے مسلمانوں کے موجودہ
حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس وقت عالمی ادارے اپنے مذموم مقاصد کے
ساتھ دنیا کے سامنے مکمل طور پر ٔبے نقاب ہوچکے ہیں۔تاہم مسلم حکمرانوں کی
بے حسی نہایت ہی قابل افسوس ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالم اسلام کے حکمران
ایک جانب اور رعایا دوسری جانب کھڑی ہیں۔مسلم حکمران یہودیوں اور دنیا بھر
کے مسلم دشمن اداروں کے ساتھ مل کرمخص اپنے ذاتی مفاد کیلئے انکے ہم رکاب
ہیں۔مقررین کا کہناتھا کہ شام کے مظلوم مسلمان بشار الاسد کی درندگی کو سہ
رہے ہیں تو دوسری جانب دینا بھر کے یہودی اسرائیل کے پیچھے کھڑے ہوکر
فلسطین کے عوام کا قتل عام کر رہے ہیں۔شام اور فسلطین سمیت دینا کے
متعددممالک میں مسلمان مر رہے ہیں اور مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی
حواب خرگوش میں ہے۔اسکا یہ کردار قابل مذمت ہی نہیں قابل افسوس بھی
ہے۔مقررین نے دوٹوک انداز میں شرکاء پر یہ واضح کیا کہ مسلم حکمران گو کہ
بے حسی اور خواب غفلت میں ہیں لیکن مسلم امہ کے غیور عوام جاگ چکی ہے اور
وہ وقت جلد آنے والا ہے کہ جب مسلم امہ کے یہ غیور عوام دینا کے کسی بھی
حصے میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے اور انکی ہر
ممکن مدد کیلئے آگے بڑھیں گے۔
افطار سے کچھ دیر قبل تقریب ختم ہوئی ، شرکاء میں سے بیشتر نمناک آنکھوں کے
ساتھ کھجور اور شامی و فلسطینی مسلمانوں کے خون جیسے لال رنگ کے شربت سے
افطار کرنے لگے۔کئی چہرے ایسے بھی تھے جوکہ جسمانی طور پر تو وہاں موجود
تھے مگر ذہنی اور روحانی طور پر اپنے مظلوم بھائیوں کے درمیان خود کو محسوس
کر رہے تھے۔
اقوام متحدہ کیلئے فسلطین اور اسرائیل کا معاملہ ، مسئلہ کشمیر کی طرح ہو
کر رہ گیا ہے۔نظریاتی طور پر وجود میں آنے والا اسرائیل جسے دنیا بھر کے
یہودیوں کی مکمل حمایت حاصل ہے وہ ایک طویل عرصے سے قبلہ اول کے قرب و جوار
میں یہودیوں کو بساتا آرہاہے اور اب تو صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ وہ زمین جس
پر فلسطینیوں کی اکثریت تھی آج وہاں وہ اقلیت بن کر رہ گئے ہیں۔اقوام متحدہ
جو اب واضح طور پر دنیا کے چند بڑے ممالک کے مفادات کا تخفظ کرنے والی
تنظیم بن کر رہ گئی ہے۔ اس کی حالت یہ ہے کہ ہزاروں شامی اور فلسطینی
مسلمانوں کے قتل عام پر کوئی کاروائی نہیں کرتی۔اس سے کہیں بڑھ کر قابل شرم
کردار تو او آئی سی کا ہے جو اپنے نام کی طرح اس وقت جاگ کر دیکھنا شروع
کرتی ہے جب پانی ناک سے ہی نہیں سر سے بھی اونچا ہوجاتا ہے۔تاہم ابھی تک تو
وہ سو رہی ہے نجانے کب اسے جاگ آئیگی؟؟؟
مسلم حکمرانوں کی اجتماعی بے حسی اور بے غیرتی ہے کہ وہ عالمی اداروں کے
ایجنڈے پر عمل پیر ا ہوکر اپنے ہی عوام پر مظالم ڈھا رہے ہیں۔اپنی حکومت
اور اپنے مراعات کیلئے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کرچکے ہیں۔پاکستان جو کہ
اسرائیل کی طرح ایک نظریہ کے تخت وجودمیں آیا ہے۔ان حالات میں اسکا کردار
بھی قابل افسوس ہے۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اب تو یہ سوال پاکستانی
حکومت سے عام ہوتا جارہا ہے کہ اس نے ایٹم بم کس مقصد کیلے بنایا ہے۔وہ
فلسطینی اور دینا کے دیگر مظلوم مسلمان جو کہ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے پر
سجدہ ریز ہوگئے تھے اور وہ اس با ت فخر محسوس کرتے تھے کہ اگر یہودیوں اور
عیسائیوں کے پاس ایٹم بم ہے تو عالم اسلام میں ایک ملک پاکستان کے نام سے
ایسا بھی ہے جس کے پاس ایٹم بم ہے ۔جو دنیا کے مسلم ممالک کی حفاظت کیلئے
کافی ہے۔وہ مظلوم یہ سمجھا کرتے تھے کہ اگر ان کے ساتھ کوئی جبر ہوگا تو
پاکستان انکی پشت پر کھڑا ہوگا۔ آج وہ سبھی پھترائی ہوئی آنکھوں سے پاکستان
کی جانب دیکھ رہے ہیں ، بالکل اس طرح جیسے گذشتہ ۱۱ برسوں سے امریکی جیلوں
ناکردہ گناہوں کی ۸۶ بر س کی سزا بھگتنے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی دیکھ رہی
ہیں۔وہ عافیہ کہ جسے برسوں قبل اپنے ہی ملک کے جابر حکمران پرویز مشرف نے
شہر قائد میں معصوم بچوں کے ہمراہ اغوا کرواکر امریکیوں کے حوالے کر دیا
تھا ۔وہ عافیہ کہ جس پر کوئی جرم بھی ثابت نہیں ہوا مخص اک مفروضے پر اسے
۸۶ برسوں کیلئے پس زنداں کر دیاگیا۔ایٹمی قوت پاکستان جب اس ایک عافیہ
کیلئے کچھ نہیں کرسکی تو شام اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کیلئے کیا کرسکے
گا؟؟؟ صرف پاکستان ہی کیا سعودی عرب ، ترقی، ایران ،انڈونیشیا، ملائیشیا،
بنگلہ دیش ، سمیت ۵۵ سے زائد ممالک سبھی کچھ نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ تمام
ہی مسلم حکمرانوں کے ذاتی مفادات امریکہ اور اسرائیل سے وابستہ ہیں۔اس کے
باوجود ان تما م حکمرانوں کو صدام حسین اور کرنل قذافی کا انجام نہں بھولنا
چاہئیے۔امریکہ ہویا اسرئیل، برطانیہ ہویا فرانس، چین ہو یا روس سبھی کو
اپنے مفادات عظیم تر ہیں ، لہذا جب بھی اور جو بھی انکے مفادات کے آڑے
آئیگا وہ راستے سے بالکل اس طرح ہٹا دیاجائیگا جیسے ماضی میں متعدد
حکمرانوں کو ہٹادیاگیا تھا۔
مسلم حکمران لاکھ چاہیں مگر اب امت مسلمہ کے اندر بیداری کی لہر پیدا ہوچکی
ہے ، اس لہر میں وقت گذر نے کے ساتھ ساتھ مزید تیزی آتی جارہی ہے۔عالم
اسلام اب شعوری طور پر بیدار ہورہا ہے اور وہ وقت دور نہیں کہ جب یہ لہر بے
حس اور بے غیرت اور ضمیر فروش حکمرانوں کو بہا لے جائیگی۔۳۰ برس کے مختصر
عرصے میں روس اور امریکہ مسلم امہ کی مجموعی آبادی کے مخص ایک فیصد جہادی
طبقے سے افغانستان میں شکست کھا چکے ہیں یہ ایک فیصد جوں جوں آگے بڑھے
گاویسے ہی تبدیلی رونما ہوتی جائیگی۔ پھر جب یہ ایک فیصد پورے ۱۰۰ فیصدمیں
تبدیل ہوجائیگی تب نہ عافیہ امریکی قیدمیں ہوگی ، نہ ہندوستان کشمیر کو دبا
سکے گا،نہ اسرائیل کا ناپاک وجود قائم رہ پائیگااور نہ ہی شام ، برما ،
عراق، اور دیگر آزمائش زدہ مسلمانوں کی آزمائشیں باقی رہینگی۔اس بات کو ذہن
نشین کر لیں کہ بہر حال یہ تبدیلی رونما ہونے والی ہے اور اس کا آغاز ہوچکا
ہے۔۔۔۔۔۔۔ |