6اور 63, 62یہ ہمارے پیارے وطن
پاکستان کے آئین کی تین دفعات ہیں ، آرٹیکل چھ پر عمل درآمد کے لیے حکومت
اور اس کی کچھ اتحادی پارٹیاں بے چین تھی اور ہیں جبکہ دیگر دو دفعات پر
عمل درآمد کے لئے طاہر القادری سمیت کچھ پارٹیاں میدان عمل میں ہیں۔باسٹھ
اور ترسٹھ پر عمل درآمد کے لئے پچھلے سال عام انتخابات سے پہلے قادری صاحب
ایوان اقتدار کے سامنے ایک بھرپور دھرنادے چکے ہیں، اس وقت کی حکومت اور
علامہ طاہرالقادری کے درمیان ایک معاہدہ بھی طے پا چکا تھا جس کے تحت اگر
ہمارے سیاستدان مخلص ہوتے تو آرٹیکل باسٹھ اور ترسٹھ پر عمل کروانے کی کوشش
کر سکتے تھے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور ایک بار پھر عام انتخابات کے بعد
ایک جمہوری حکومت تو قائم ہو گئی لیکن اس طرز عمل سے یہ جموریت کے خالص
معیار پر پورا اترنے سے قاصر ہے۔ آج کل پاکستان میں سیاست وہ واحد پیشہ ہے
جس کے لیے کوئی معیار اور پیمانہ مقرر نہیں ہے لیکن سیاست ہی جمہوریت کی
بنیاد ہے، اگر بنیاد ہی خراب ہو گی تو ایسی جمہوریت کے ثمرات کوئی کیوں کر
حاصل کر سکے گا۔بڑے سیاستدان اسمبلیوں میں آنے کو توہین سمجھتے ہیں اور
چھوٹے سیاستدان صرف رجسٹر حاضری کی خانہ پری کے لئے حاضر ہوتے ہیں، ایسی
اسمبلیوں سے عوامی فلاح کی امید کیسی رکھی جا سکتی ہے ؟
یوں تو آئین کی سبھی دفعات ہی محترم ہیں لیکن مقدم اپنی اپنی مرضی کی ہیں،
حکومت کو دفعہ چھ اچھی لگتی ہے تو قادری صاحب کو باسٹھ اور ترسٹھ میں ذیادہ
دلچسپی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ جب تک آئین پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سیاست کے
حمام کی صفائی نہیں کی جاتی تب تک عوام جمہوریت سے فیض یاب نہیں ہو سکتے،
تب تک قادری صاحب جیسے لوگوں کو ایسے دھرنوں اور مظاہروں کی ضرورت محسوس
ہوتی رہے گی اور تب تک کسی مونچھوں والے جنرل یا فوجی بوٹوں کی چاپ سنائی
دیتی رہے گی۔ اس لئے اشد ضروری ہے کہ ہمارے سیاست دان خود اپنا اپنا محاسبہ
کریں اور جو سیاست کے اہل نہیں ہیں انہیں اسے پیشہ نہیں بنانا چاہیے۔ سیاست
پیشہ نہیں ہے، لیکن پیسے نے اسے پیشہ بنا دیا ہے جس کی وجہ سے عوام جمہوریت
سے مایوس ہوتے نظر آتے ہیں۔
سیاستدانوں کا خیال ہے کہ آرٹیکل چھ پر عملدرآمد اور پرویز مشرف کو سزا کی
صورت میں مستقبل میں کسی فوجی آمر کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔لیکن ہمارے
خیال میں سیاست دان ایسی کسی منظق سے ویسے ہی اپنا دل بہلا رہے ہیں جیسے
اپنے وعدوں سے عوام کا دل بہلاتے ہیں۔ اپنے دل کو جھوٹی تسلی دینا یا کسی
کے دل کو جھوٹ سے بہلانا شاید کوئی بیماری نہ ہولیکن ایسی ذہنیت کا علاج
بہرحال ضروری ہے۔
حکومت کا بھی یہ دعوہٰ تھا اور میڈیا میں بھی یہ چرچا رہا کہ پرویز مشرف کے
خلاف آرٹیکل چھ ایک ٹیسٹ کیس ہے اور ہر صورت اسے منطقی انجام تک پہنچایا
جائے گا۔ پرویز مشرف نے بھی اپنے خلاف تمام الزامات کا خندہ پیشانی سے
سامنا کرنے کا اعلان کیا لیکن افسوس کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوا۔ سیاست دانوں
نے اس کیس کی بدولت ایک فوجی آمر سے بدلہ لینے کا تاثر دیا تو عدالت بھی
سیاست کے زیر اثر دکھائی دی اور متنازعہ قرارپائی، میڈیا بھی اس کیس کی
درست سمت کا تعین کرنے میں مکمل ناکام رہا۔ پرویز مشرف نے بھی صورت حال
بھانپ لی، عوام بھی سمجھ گئے اور بلا آخر ادارے کا وقار قائم رکھنے کا
بہترین اعلان سب نے سنا۔
کاش پرویز مشرف کی ذات سے بدلہ لینے کے بجائے ایک انتہائی منظم ادارے کے
ایک غیر منظم عمل کے پیچھے چھپے محرکات کو جاننے کی کوشش کی جاتی، اس غیر
منظم عمل کا ہر کردار اس دنیا میں موجود ہے انہیں عدالتوں میں بلایا جاتا
اور ان سے جرح کی جاتی ، سامنے آنے والے عوامل کا جائزہ لیا جاتا،
سیاستدانوں اور جرنیلوں کو آمنے سامنے لایا جاتااس ساری صورتحال میں اگر
سیاستدانوں کی کچھ کوہتائیاں سامنے آتیں تو مستقبل میں ایسی کوہتایوں سے
نمٹنے کی منصوبہ بندی کی جاتی، مستقبل میں اس بیماری سے بچنے کے لیے آئین
اور قانون میں اگر کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی تو فوج اور سیاستدانوں
پر ہونے والی جرح سے حاصل ہونے والی کشید سے شیرے کو گڑمیں بدلا جاسکتا
تھالیکن شاید ہم یہ موقع کھلی آنکھوں گنوا دینا چاہتے ہیں۔
شاید ہم اسے سنگین مسئلہ(غلطی) تو قرار دیتے ہیں لیکن اس کا حل نہیں چاہتے،
اس کا جواب اس ادارے سے لینا چاہئے جو بار بار ایک غلطی کو دہرا رہا ہے نہ
کہ کسی ایک پرزے سے۔ کل پرزوں کی حرکت سے محرک کو تلاش کیا جاسکتا ہے،نہ کہ
پرویز مشرف کوپھانسی دینے سے کسی مارشل لاء کا راستہ روکا جا سکتا ہے،یہ تو
سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کے مترادف ہے۔
ہاں البتہ اس تمام کاروائی کامرکزی نقطہ پرویز مشرف ضرور ہیں اس لئے انہیں
عدالتوں میں آنے سے ہچکچانا نہیں چاہئے بشرطیکہ عدالتیں سیاسی اثر کے تابع
نہ ہوں۔جہاں پرویز مشرف بطور سابق آرمی چیف پیش ہوں وہاں اس وقت کے وزیر
اعظم بھی اس کیس کے لیے خصوصی وقت نکالیں، جس میں یہ جانچنے کی کوشش کی
جائے کہ اس وقت کے آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات کی نوعیت کو
جانچنے کی بھی کوشش کی جائے کہ آیا یہ اختلافات ذاتی تھے؟ قومی تھے؟ بین
الاقوامی تھے؟ مذہبی تھے ؟ مسلکی تھے؟ فلاحی تھے ؟یا دفاعی تھے؟
آرٹیکل چھ پر عمل درآمد چاہنے والوں کی ایک اور بھی بہت معصوم سے فرمائش ہے
کہ اس کیس کو 1999ء کے بجائے 2007ء کی ایمرجنسی سے شروع کیاجائے۔ اصولاً
تو ان کی یہی خواہش مستقبل کے کسی مارشلا کا راستہ روکنے کی کوشش کی اصلیت
کو بے نقاب کر دیتی ہے۔جس سے ان کا مقصد بھی صاف واضح ہو جاتا ہے جو کہ صرف
پرویز مشرف کو گستاخی کی سزا تک ہی محدود ہے۔ عدالت پتہ نہیں کیوں قتل کا
مقدمہ سننے کے بجائے جسم پر لگنے والے زخموں کا کیس سن رہی ہے۔ وطن عزیز
میں انصاف کی فراہمی ایک اہم مسئلہ ہے، اس اہم مسئلے کا حل حکومتی ترجیحات
میں نظر نہیں آتا، ایسے میں ٹیسٹ کیس بھی مزاق بنا دیے گئے ہیں۔ انصاف کا
تقاضہ یہ ہے کہ جہاں پر آرٹیکل چھ کے تحت مستقبل کے کسی مارشل لاء کا راستہ
روکا جانا ضروری ہے رہیں پر اشد ضروری ہے کہ آرٹیکل 62/63کے ذریعے نااہل
اور بدکردار سیاست دانوں کی سیاست میں آمد کا سلسلہ بھی روکا جانا
چاہیے۔تاکہ عوام جمہوریت سے استفادہ حاصل کر سکیں۔ |