جمعتہ الوداع کی شام کو چینل پر
یہ ٹکر چل رہا تھا کہ اسلام آباد کو فوج کے حوالے کردیا گیا اور اس کے ساتھ
ہی وزارت داخلہ کا تردیدی بیان بھی چل رہا تھا کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا
لیکن ہفتہ 26جولائی کے اخبارات میں تردید غائب تھی اور وزارت داخلہ کے
ترجمان کی طرف سے یہ بیان سامنے آیاکہ فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے
اسلام آباد میں اسٹریٹیجک تنصیبات کی نگرانی کے لیے طلب کیا گیا ہے اور
ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ فوج بلانے کا مقصد آپریشن ضرب عضب کے ممکنہ
ردعمل سے نبٹنا ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس آپریشن ضرب عضب کے مضمرات اور
اس کی گہرائی پر زیادہ غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی دس لاکھ سے
زائد قبائلی گھر سے بے گھر ہو کر جن مصائب میں گرفتار ہیں اس سے ان کے صبر
کا پیمانہ لبریز ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ادھر عمران خان نے پی ٹی آئی کی کور
کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا ہے کہ اگر آرٹیکل 245کے تحت فوج آتی ہے تو پھر
کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہوگی حکومت کو شاید یہ خطرہ محسوس
ہونے لگا کہ کہیں عمران خان کے 14اگست کے پروگرام میں آئی ڈی پیز کے لوگ
شامل نہ ہوجائیں اور اس طرح وفاقی حکومت کے خلاف قبائلیوں کا غصہ عمران خان
کی تحریک کو کامیابی کی منزل تک لے جا سکتا ہے۔ایک رائے یہ بھی سامنے آرہی
ہے کہ آرٹیکل 245کے تحت جب تک فوج رہے گی بنیادی حقوق معطل رہیں گے عدالتیں
غیر موثر ہو جائیں گی فوج کے اقدام کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیاجا سکے
گا ۔جناب وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے مسجد نبوی میں شب قدر کی عبادت میں
یقیناَ ملک کے استحکام اور سلامتی کے لیے دعائیں مانگی ہوں گی ایسے میں
الطاف حسین کا یہ اعتراض درست ہے کہ ملک اور مسلح افواج حالت جنگ میں ہیں
اور وزیر اعظم نفلی عبادت کے لیے ملک سے باہر ہیں لیکن ایک اخبار میں کسی
کا یہ تجزیہ بھی شائع ہوا ہے کہ نواز شریف صاحب محض رمضان کی برکتیں سمیٹنے
کے لیے نہیں گئے ہیں بلکہ سعودی حکمرانوں کے ذریعے کہیں اور کسی تک اپنا
پیغام پہنچانے یا کسی بات پر انھیں راضی کرنے کے لیے سعودی اثر ورسوخ کو
استعمال کرنا ہوبہر حال عمران خان کا چودہ اگست والا شو اب شاید کیا بلکہ
یقیناَ نہیں ہو سکے گا کہ ایک تجزیہ یہ بھی ہے اس بگ شو سے پہلے ہی اصل
مقصد حاصل کرلیا گیا ہے ۔آئی ڈی پیز کے حوالے سے اب جو خبریں مختلف چھنیوں
سے چھن چھن کر سامنے آ رہی ہیں وہ تشویشناک ہی نہیں بلکہ بڑی ہولناک ہے اس
کی ایک چھوٹی سی جھلک 24جلائی کے جسارت میں شاہنواز فاروقی صاحب کے کالم
میں دیکھی جاسکتی ہے دس لاکھ سے زائد افراد پینے کے پانی خوراک اور پیشاب و
دیگر حوائج ضروریہ کے لیے جس پریشانی کا شکار ہیں آپریشن کی حمایت کرنے
والوں کو اس کا ندازہ نہیں تھا میرے خیال سے جنرل کیانی نے شمالی وزیرستان
کے آپریشن کو اسی ملتوی کیے رکھا تھا اس سے شدید قسم کے انسانی المیے جنم
لے سکتے ہیں یہ قبائلی جو اپنے گھروں میں آرام اور سکون سے تھے بڑے مہمان
نواز ہوتے ہیں آج اپنے پیٹ بھرنے کے لیے راشن کے حصول کے لیے گرمی دھوپ اور
روزے میں لمبی لمبی لائن لگا کر وطن کی محبت میں اپنی انا کو قربان کرکے دو
وقت کی روٹی حاصل کر پاتے ہیں ،سرکاری کیمپوں کی بد انتظامی اور بد حالی کا
حال کئی کالم نگار بیان کر چکے ہیں بلکہ روزنامہ جنگ کے ایک معروف صحافی نے
تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر مخیر حضرات کو آئی ڈی پیز کے حوالے سے کوئی مدد
کرنا ہے تو وہ الخدمت کے ذریعے سے کریں ،کیونکہ الخدمت کے کیمپوں سے
انتہائی منظم انداز میں کیمپوں میں مقیم لوگوں میں راشن اور کھانا تقسیم
کیا جارہا ہے اور طبی حوالے سے بھی ان کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے آج کے
اخبارات میں یہ خبریں بھی شائع ہوئیں ہیں کہ ہمارے دو بڑی جماعتوں کے رہنما
ملک سے باہر عید منا رہے ہیں جناب آصف زرداری صاحب لندن میں اورجناب
نوازشریف صاحب سعودی عرب میں عید منائیں گے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ
دونوں رہنما اپنے ملک میں ان آئی ڈیی پیز کے کیمپوں میں بے گھر ہونے والے
قبائلیوں کے ساتھ عید مناتے ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ الخدمت فاؤنڈیشن اور
جماعت اسلامی کے ذمہ داران اور کارکنان آئی ڈی پیز کے ساتھ بنوں میں عید
منائیں گے ۔ ہمارے حکمراں کیا اپنے سیاسی مقاصد کے لیے فوج کو ایک ڈھال کے
طور سے استعمال کررہے ہیں یہ سوال اس تناظر میں بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے
کہ کراچی جہاں روز آٹھ سے دس افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ
اتوار 27اگست کو رینجرز کے چار اہلکاروں کو دو مختلف مقامات پر دہشت گردوں
نے فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا وہاں پر فوج کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی
ہے بلکہ کراچی کے تاجروں اور کاروباری حضرات نے تو کئی مرتبہ یہ مطالبہ کیا
ہے کہ کراچی کو فوج کے حوالے کیا جائے لیکن یہاں فوج نہیں بلائی جاتی اور
اسلام آباد میں محض مفروضوں کی بنیاد پر اور عمران خان کے مارچ کے خوف کے
پیش نظریہ فیصلہ کیا گیا ہے آج چوہدری نثار کا یہ بیان بھی ابہام پیدا
کررہا ہے کہ آپریشن ضرب عضب اور اسلام آباد میں فوج بلانے کا فیصلہ ایک
ساتھ ہوا تھا ،انھوں نے کہا کہ ملک حالت جنگ میں ہے فوج کے ساتھ اچھے
تعلقات ہیں جمہوریت کو دور دور تک کوئی خطرہ نہیں ۔لیکن حالات یہ بتارہے
ہیں کہ خطرات تو بہت قریب آچکے ہیں ۔ |