اب خطاب کرنے کے لیے ایک نئی شکل
و صورت کا شخص سامنے آیا ۔ اس بار اس شخص کا چہرہ با رؤب تھا ۔ اس کے دونوں
کندھوں سے بندوقویں لٹکی تھی۔ اﷲ اکبر کے نعروں کیساتھ اس نے پر جوش تقریر
کی ۔ کہنے لگا اﷲ نے ہم سب کو اس فتنے اور ظلم کو ختم کرنے کے لیے چن لیا
ہے ۔ہم اﷲ کے پیارے بندوں میں سے ہیں ۔ اﷲ ہمیں جنت میں داخل کرے گا۔ ملک
میں جو ظلم ، افراتفری پیدا ہو رہی ہے اس کو ختم کرنے کے لیے ہم لوگ چنے
گئے ہیں ۔ یہ بندوق ہی اس ظلم کا خاتمہ کریگی اس کے بعد ہمیں اپنی قربانی
دینی ہوگی اس بارود کیساتھ خود کو اڑا کر اور شہادت کا رتبہ حاصل کرنا ہے ۔
دشمن کو خاک میں ملا کر خود بھی خاک ہو جانا ہے اور جنت حاصل کرنی ہے۔ اس
تقریر کے بعد لڑکوں نے اﷲ اکبر کے نعرے لگائے اور اﷲ کی رضا کے لیے شہاد ت
کا جام پینے کے لیے تیار ہوگئے۔ اس بار دس آدمی اسلحہ سے لیس ان لڑکوں کو
تربیت گاہ کی طرف لے گئے ۔۔۔ راستہ بہت دشوار گزار تھا ۔ اﷲ اکبر کے نعروں
کیساتھ لڑکوں کو پہاڑوں میں گھری ایک تربیت گاہ کی طرف لے جایا گیا۔ وہاں
موجود بزرگ ہستیاں لڑکوں کو شاباشی دیتے ہیں اور شہادت جیسا رتبہ پانے کی
تمنا پر بہت سے انعامات کا اعلان کرتے ہیں ۔
تربیت گاہ میں لڑکوں کا اسلحہ کا استعمال اور خود کو بارود سے کس جگہ پر
کیسے اڑانا ہے اس کی تربیت دی جاتی ہے ۔ اس سارے عمل میں لڑکوں کو اﷲ کی
خوشنودی ، والدین کی خوشحالی اور انعامات کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور
لڑکے ان سب کی لالچ میں خوشی خوشی سب کچھ سیکھتے رہتے ہیں ۔چند مہینوں کی
برین واشنگ کے بعد ان لڑکوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ انھیں دشمنوں کو مقابلہ
کرنے اور انھیں ختم کرنے کے لیے چن لیا گیا ہے۔
عمران باقی لڑکوں کی طرح اپنی سمجھ بوجھ کھو بیٹھا تھا اسے یہ تک معلوم
نہیں تھا کہ اسے دہشت گردی کے لیے تیار کیا جا رہاہے۔ لڑکوں کیساتھ پہلے
نرمی برتی گئی پھر آہستہ آہستہ انھیں سخت راہوں سے گزار کر انھیں اپنے اصل
مقصد کیطرف راغب کیا گیا۔ قدرت بھی اپنے کشف دکھاتی رہی ۔ پھول کھلتے رہے
بادل گرجتے برستے رہے ۔ صبح سے شام اور شام سے صبح ہوتی رہی ۔۔۔۔اس سب
کیساتھ اچھے سے اچھا اور برے سے برا سلوک کیا جاتا رہا اور انھیں نشہ آور
قہوہ اور کھانے کیساتھ ساتھ فلمیں بھی دکھائی جاتی جن میں تمام وہ واقعات
ہوتے تھے جو ان کے ذہنوں کو ظلم کے خلاف اور پختہ کیے جا رہے تھے ۔انھیں یہ
باور کرایا جا رہا تھا کہ ظلم کا خاتمہ ایسے ہی ہوگا اور ایسے ہی جنت ملی
گی اور ان کے ماں باپ کو ایک اچھی زندگی۔ وہ ان کا خون گرماتے اور انھیں
مکمل دہشت گرد کے روپ میں ڈھال دیا گیا۔ اب وہ صرف حکم کے انتظار میں تھے
کہ کب انھیں موقع ملتا ہے اور وہ ظالموں کیساتھ ساتھ خود کو ختم کرکے جنت
حاصل کریں۔آخر کار وہ دن آگیا جب ان لوگوں کو بھیجا جانا تھا ظلم کے خاتمے
اور خود کے خاتمے کیلئے ۔۔۔انھیں ایک سکول کا منظر دکھایا گیا کہ کس طرح اس
سکول میں بچوں کو غلط تربیت دیکر اﷲ اوراسلام سے دور کیا جاتا ہے۔ ہم اﷲ کے
پسندیدہ بندے ہیں ۔ اﷲ نے ہمیں پسند کیا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان
ظالموں کو ختم کر یں جو اسلام کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں ۔ سکول میں تمام
بچوں کو ایسی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جو ظلم کا حکم دیتی ہیں ۔ لہذا ہمارا
فرض ہے کہ ان کا خاتمہ کیا جائے اورظلم کو روکا جائے تب ہی اﷲ ہم سے خوش
ہوگا فلم کو بڑے ہی اچھے اندارز میں Documentکیا گیا کہ لڑکوں میں جوش آگیا
اور سب مشتعل ہو کر آگے بڑھے ہر لڑکا یہ کہنے لگا میں تیار ہوں اس جہاد
کیلئے ۔۔۔۔
دہشت گردوں نے عمران کو اس جہاد کیلئے چن لیا وہ عمران کو اپنے بڑے سردار
کے پاس لے گئے ۔ سردار نے عمران کو نشاندہی دی اور اسے یقین دلایا کہ بیٹا
تم اﷲ کے بہت قریب ہو ۔جنت چند قدم دور ہے۔ تمہاری شہادت سے ہم تمہارے اہل
خانہ کو ساری زندگی مراعات دیتے رہیں گے انہیں کبھی بھی تنگی کا سامنا نہیں
کرنا پڑے گا۔ تمہاری ماں جب سنے گی کہ تم نے شہادت کا رتبہ پا لیا ہے تو
یقین مانو وہ بے حد خوش ہو گی اور ہر ماں کیلئے دعا کر ے گی کہ ایسا بیٹا
جنے ۔۔ ۔ یہی نہیں بلکہ اﷲ تمہیں اس قربانی کی بدولت فوراً جنت میں داخل کر
دیگا۔ جہاں آرام ہی آرام ہے اور تمہیں یہ تمام ساتھی بھی جنت میں ملیں گے ۔
عمران تمہارے جو ساتھی چلیں گئے ہیں وہ جنت میں تمہارا انتظار کر رہے ہیں
اور تمہارا استقبال کرنے کیلئے بے چین ہور ہے ہیں۔عمران ان کی باتوں میں
آگیا اور سردار کے پاؤں چوم کر کہنے سردار جلدی سے مجھے میدان جنگ بھیجا
جائے تاکہ میں جام ِ شہادت پیوں۔ ۔۔ |