'' گوہر آباد''
(Amir jan haqqani, Gilgit)
گوہرآباد وہ گاؤں ہے جو گلگت
بلتستان میں سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔ اس گاوں کا رقبہ اراضی بہت طویل ہے۔
گیس پائن،گیس بالا، رائیکوٹ، تھلیچی پر مشتمل ہے۔ پورے گلگت بلتستان میں سب
سے زیادہ جنگلات گوہرآباد میں پائے جاتے ہیں
جسمیںکائل،فر،چیڑھ،دیار،بنئی،کائو اور قسم ہائے قسم درخت وافر مقدارمیں
موجود ہیں۔ فیری میڈو جیسی معروف اور خوبصورت جگہ بھی گوہرآباد کے حصہ میں
آئی۔ اور نانگا پربت بھی اسی گوہرآباد میں ہے۔گوہرآباد کی زمین زرخیز اور
درخت پھلدار ہیں۔ جلغوزے کے درخت پورے گلگت بلتستان میں سب زیادہ یہی پائے
جاتے ہیں۔ جلغوزے کا کاروبار لوگو ں کی معیشت کا بہترین وسیلہ ہے۔اور لوگ
مال مویشاں کثرت سے پالتے ہیں۔ مارتل، کھلیمئی ، سگھر،بھری، چھلو ، ہومل،
سلومن بھوری ، مطیرا، دساہ ، چانگھا، دروگاہ، ملپٹ ، جبار دار، مٹھاٹ اور
تتو گوہرآباد کی چراگاہیںہیں جہاں لاکھوں مال مویشاں چرتے ہیں۔ گوہر آباد
کے لوگ ملنسار اور مہمان نواز ہیں۔ شادی بیاہ بہت سہل ہے۔ لوگ دیندار اور
صلح جو ہیں۔ اسی فیصد سے زائد لوگ خطہِ غربت سے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔
گوہرآباد میں آبشاروں، چشموں اور گلیشیٔرز کا شفاف پانی وافر مقدار میں ہے
مگر نہری نظام نہ ہونے کی وجہ سے وسیع اراضی بنجر پڑی ہوئی ہے اور فصلیں
قلت آب کا شکار ہیں۔تناسب آبادی کے اعتبار سے گووہرآباد میں سب سے زیادہ
حفاظ کرام اور علماء ہیںاور سب سے زیادہ گریجویٹ بھی گوہرآباد کے ہی ہیں۔
صحت اور تعلیم کے حوالے سے گوہرآباد ابتری کا شکار ہے۔ ایک ڈسپنسری ہے مگر
دوائی اور ڈاکٹر ندارد۔ ٢٥ سال قبل بوائز مڈل سکول تھا جو آج تک ہائی سکول
کا درجہ نہ پا سکا۔ یہ الگ بات ہے کہ گوہرآباد کے لوگ سب زیادہ تعلیم یافتہ
ہیں۔ انہوں نے ابتداء سے انتہا تک تعلیم چلاس،گلگت،ایبٹ آباد،اسلام آباد،
لاہور اور کراچی سے حاصل کی ہے۔ کراچی میں سب سے زیادہ گوہرآباد کے طالب
علم ہیں۔اکثریت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ قابل مبارک ہیں وہ طلبہ جو
رات کو سیکورٹی کمپنیوں اور ہوٹلوں میں نوکری کرتے ہیں اور دن کو سکول،
کالج،یونیورسٹی اور کوچنگ سینٹروں میں جاکر زیور تعلیم سے آراستہ ہورہے ہیں
اور اپنی تمام تر تعلیمی اخراجات خود برداشت کرتے ہیں۔بعض جوان تو اپنے
گھروں کو بھی رقم بھیجتے ہیں مگر ہمارے مخیّر حضرات کے پاس ان کے لیئے کوئی
پلان نہیں ہے اور نہ کوئی ویلفیئر سوسائٹی۔گوہرآباد کے کسی بھی اسکول میں
کمپیوٹر کی کلاس نہیں ہے۔ تعلیمی انفرااسٹرکچر برباد ہے۔اسا تذہ کی اکثریت
میٹرک پاس ہیں اگرچہ بعض نے تنخواہ اور گریڈ بڑھانے کیلئے اوپن یونیورسٹی
سے ایف اے اور بی اے مشکل سے کلیر کیا ہے اور ایسے ٹیچرز بھی ہیں جن کے
میٹرک میں چار چار مضامین فیل ہیں۔ انکی بھرتیاںرشوت اور سفارش کی بنیاد پر
ہوتیں ہیں۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ لائق اور محنتی اساتذہ گوہرآباد سے کہیں
اور ٹرانسفر کیے جاتے ہیں۔ جسکی ایک واضح مثال سابق ہیڈ ماسٹر نقیب اللہ
صاحب اور حاجت خان صاحب اور دیگراساتذہ کی ہے۔ دینی تعلیم کے اعتبار سے بھی
گوہرآباد بہت درماندہ ہے ۔پورے گوہرآباد میں درس نظامی کے کسی ایک درجہ کی
بھی تعلیم نہیں دی جاتی، قاری اشرف صاحب نے تیس سال لوہے کے چنے چبا کر
درجنوں حفّاظ پیدا کیے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی سینکڑوں حفاظ ہیں۔گوہرآباد کی
یہی ایک کولٹی ہے کہ بہترین حفّاظ قرآن پیدا ہوئے ہیں۔ اس لیئے تو احقر نے
گوہرآباد کو حافظ آباد نام رکھنے کی تجویز دی تھی مگر نقارخانے میں طوطی کی
کون سنتا ہے۔مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ آج پورے گوہرآباد میں حفظ کی ایک کلاس
نہیں۔قاری صاحب اور اس کے شاگردوں کے وہ قرآنی جلوے بھی نہیں رہے۔
گلگشت گوہرآباد مسائلستان بنا ہوا ہے۔ یہاں کے جنگلات کی عجیب روگ کہانی
ہے۔ چند وڈیروں کی کارستانیوں کی وجہ سے اب تک غریبوں کا پانچ ارب سے زیادہ
کا نقصان ہوا ہے مزید اربوں کے نقصانات کا قوی امکان ہے۔ دو دہائیوں سے
گوہرآباد کے ملکیتی جنگلات اٹکے ہوئے ہیں۔ غریب عوام نہ کسی نئے ٹھیکدار
کوبیج سکتے ہیں نہ پرانے کمیشن خور کوئی حل نکالتے ہیں۔اب تو یہ ایک لاینحل
اورگنے چنے چند شخصیات کی اَنا کا مسئلہ بن گیا ہے۔
گوہرآباد میں ایک عجوبہ بھی ہے جو '' ہپرنگ'' کے نام سے معروف ہے۔ اس کے
بارے بہت سی اساطیر اور من گھٹرت کہانیاں بیان کی جاتی ہیں جن کا حقیقت سے
دور کا بھی تعلق نہیں ہے ۔گورنمنٹ اگر '' ہپرنگ '' اور '' فیری میڈو'' کو
سیر گاہ بنائے اور مناسب انتظامات کریں تو یہ دونوں مقامات بین الاقوامی
توجہ کا مرکز بن سکتی ہیں جس سے گلگت بلتستان کی معیشت مضبوط اورکھربوں کی
آمدن موصول ہوسکتی ہے۔فیری میڈو میں بین الاقوامی سیاحوں کی آمدورفت رہتی
ہے مگر ناقص انتظامات کی وجہ سے وہ دلبرداشتہ ہوجاتے ہیںاور دوبارہ رخ
نہیںکرتے ہیں۔
گوہرآباد میں سڑک اور بجلی کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔بجلی کے ناقص سسٹم نے
لوگوں کی زندگی اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے۔ جو گوہرآباد کے وزیر جناب بشیر
احمد،اکسن صاحبان اور انکی ٹھیکیداران سے ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔روڈ جگہ جگہ
سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جو نئے روڈ بنائے جارہے تھے وہ ایک بھی مکمل نہیں
ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے لوگ تار کول کی امید لگائے بیٹھے ہیں مگر انکی یہ
امید بر نہیں آتی۔ سچ پوچھے تو یہاں کے لوگ آج بھی زندگی کے تمام بنیادی
سہولتوں سے محروم ہیں اور پتھر کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔ باوجودیکہ
گلگت بلتستان میں سب زیادہ سرکاری اور غیر سرکاری آفیسرز کا تعلق گوہرآباد
سے ہے اور گلگت بلتستان اسمبلی میں ہر دور میںایک سے تین ممبران گوہرآباد
کے موجود رہتے ہیں۔گزشتہ حکومت میں بھی جی بی اسمبلی میں گوہرآباد سے تین
شخصیات اعلٰی عہدوں پر براجمان تھے اور اب بھی اسمبلی میں دو ارکان موجود
ہیں۔گوہرآباد کی زبوں حالی اور بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی سے اس بات کا
بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں کے سرکاری آفیسران اور سیاسی لیڈر
غریب عوام سے کتنے مخلص ہیں۔یہ لوگ الیکشن کے دنوں اور سمر تعطیلات گزارنے
کیلئے گوہرآباد آ دھمکتے ہیں۔ سال کے باقی ایام چلاس ، گلگت اور ملک کے
دیگر شہروں میں فروکش رہتے ہیں۔یہی سفید پوش طبقہ گوہرآباد کے جنگلات ، گیس
داس، کینو داس ، رائلٹی اور دیگر بنجر اراضی کی تقسیم میں دیوار چین بنا
ہوا ہے۔
شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے بعد یہاں دو پل بنائے گئے تھے ۔ ایک پل گزشتہ
سیلاب میں بہہ گیا ہے جو انتہائی ناقص میٹیریل سے دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔
دوسرا پل اپنی طبعی عمر پوری کرکے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم جمائے انتہائی
خستہ حالت میں ہے ۔کسی بھی وقت بڑے جانی حادثہ کا خطرہ ہے ۔جب گاڑیاں پل
کراس کرتی ہیں تو پسنجر اور لوڈ اتارے جاتے ہیں یہ سلسلہ گزشتہ دس سال سے
جاری ہے۔ گوہرآباد کایہ ''بوڑھاپل''گلگت بلتستان کے چیف منسٹر ،وزرائ،
ارکان اسمبلی،چیف سیکریڑی سے دہائی دے رہا ہے کہ خدارا! میری حالت زار پر
رحم کیجئے۔ واقعی باسیان گوہرآباد کی طرح یہ پل بھی رحم و کرم کے مستحق ہے۔
کوئی ہے خلق خدا کی زبان سننے اور سمجھنے والا ................؟ منسٹر
بشیر صاحب! کیا آپ کو گیس بالا چیئر لفٹ کی طرح گوہرآبا د پل بھی دریا برد
ہوکر درجنوں انسانی جانوں کے ضیاع کا انتظار ہے؟کچھ تو خوف خدا کیجیے اور
اس خستہ پل یا متبادل کے لیے عملی اقدام کیجیے۔کیوں مظلوموں کی بددعاؤوں کا
انتظار ہے۔کیا پورے گوہرآباد کے عوام نے بلاتفریق رنگ و نسل اور قوم کے آپ
کو بھاری اکثریت سے اس لیے جتوایا ہے؟۔
گزشتہ اسمبلی میں گوہرآباد سے تعلق رکھنے والے تین لوگ ایڈوکیٹ فدااللہ،
محترمہ گل میرا صاحبہ اور بشیر احمد تھے۔ بشیر احمد مسلم لیگ ق میں ہونے کی
وجہ سے keyپوسٹ پربراجمان تھے۔گلگت بلتستان کی تاریخ میں مشرف دور میں سب
سے زیادہ فنڈ آیا تھا مگر یہ لوگ گوہر آباد میں کوئی ترقیاتی کام نہیں
کرواسکے۔محتر مہ گل میرا صاحبہ نیک دل اور درد مند خاتون ہے مگرآن پڑھ اور
عورت ذات ہونے کی وجہ سے کوئی انقلابی قدم نہ اٹھا سکی۔ڈسٹر کٹ کونسل کے
شاہ میرزا اور طارق ابرار کا کردار بھی زیرو فیصد رہا بلکہ صرف ذاتی گھر کی
تعمیر تک محدود رہا اور کچھ کرپشن۔ حالیہ انتخابات میں بشیر احمد بھاری
اکثریت سے جیت گیا۔کیا یشکن کیا شین،کیا ڈوم کیا کمین،کیا جوان کیا
بوڑھا،کیا اپنا کیا غیرسب نے اس کو ووٹ دیے ۔ یوں وہ GB اسمبلی کے پہلے
اپوزیشن لیڈر بن گئے اور اب ایک انتہائی اہم وزارت پر براجمان ہیں۔ اور گل
میرا صاحبہ بھی خواتین کی خصوصی نشست میں سیلکٹ ہو کر اسمبلی میں پہنچی۔وہ
حکمران جماعت کی اہم رکن ہے۔
مجھے خدا کی ذات پر کامل یقین تھا کہ اگر وزیر تعمیرات بشیر احمد اور محتر
مہ گل میرا صاحبہ خلوص دل سے گوہرآباد کی تعمیر وترقی ،مسائل کا حل اور یگر
محرومیوں پرتوجہ دیتے تو صرف انہی پانچ سال میں گوہرآباد سونے کی چڑیا بن
سکتی تھی مگر ایسا نہ ہوسکا، انہیں صفحات میں گوہرآباد کے مسائل کی طرف
بارہا ان کی توجہ مبذول کروائی گئی مگر وہ اپنے اکاؤنٹ بھرتے رہے اور
گوہرآباد جلتا رہا۔ یاد رہے !غریب کے چہروں کے تیور بدل رہے ہیں، ان کے بچے
اپنی مدد آپ اعلی تعلیم حاصل کر کے اعلی مناصب پر فائز ہو رہے ہیںاگر اب
بھی انکے دکھوں کا مداوا نہ ہوا تو آنے والے دن آپ کیلئے خطرناک ثابت
ہوسکتے ہیں ۔ غریبوںکا انقلاب دستک دے رہا ہے لوگوں میں ایک اچھوتا اضطراب
پایا جاتا ہے لہٰذااپنی ذمہ د اریوں کا احساس کرتے ہوئے لوگوں کے دکھ درد
کو بانٹیں اور عنداللہ وعندالناس سرخرو ہوجائیے۔ لیکن پیٹ کے بچاریوں کے
لیے یہ سب کچھ ناممکن ہے۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ پانچ سال پہلے شروع کردہ
ہاسپٹل،نالوں میں لنک روڈ اور دیگر تعمیراتی کام آج بھی کسی مسیحا کا
انتظار کررہے ہیںمگر کوئی نہیں کوئی نہیں۔رہی بات اکلوتاگرلز مڈل سکول کی
نئی عمارت کی زمین بوسی کا؟ اللہ ہی محافظ ہے۔گوہرآباد کے رستے ہوئے ناسور
اور دکھتے زخم بہت سارے ہیں۔ زندگی رہی تو آہستہ آہستہ ان کو منظر عام پر
لاتے رہیں گے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ |
|