کراچی:سمندر 50 زندگیاں نگل گیا....ذمے دار کون؟

ماہ مبارک کے روزوں کے بعد ڈھیروں ساری خوشیاں، مسرتوں اور الفتوں کا پیغام لے کر آنے والی عید الفطر جاتے جاتے سمندر کے کنارے بسے شہر کراچی کے باسیوں کے لیے غم، رقت آمیز مناظر، آہ و بکا اور بہت سے لاشے چھوڑ گئی ہے۔ کراچی میں عید الفطر کے موقع پر پکنک کے لیے جانے والے 50 افراد سمندر میں ڈوب کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ڈوبنے والے 50 افراد میں سے 36 افراد کی نعشوں کو نکال لیا گیا ہے، جبکہ بقیہ ڈوبنے والے افراد کی نعشوں کو نکالنے کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔ سرچ آپریشن میں پاک بحریہ کے ہیلی کاپٹر، غوطہ خور اور اسپیڈ بوٹس حصہ لے رہی ہیں۔ ریسکیو حکام کے مطابق سمندر سے نکالی جانے والی نعشیں مسخ شدہ ہیں، اس لیے ان کی شناخت کپڑوں سے کی جارہی ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈوبنے کے زیادہ واقعات عید کے دوسرے روز سی ویو، کلفٹن اور ہاکس بے پر پیش آئے۔ لاشیں ملنے پر رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ عید کی خوشیاں ماتم میں تبدیل ہو گئیں۔ موت کی اطلاع ملنے والے گھرں میں کہرا م بپا ہوتا رہا۔ عید کے موقع پر شہر کے مختلف علاقوں سے ساحل سمندر پر تفریح کی غرض سے ہزاروں افراد سی ویو، کلفٹن، دو دریا، ہاکس بے، کیپ ماﺅنٹ اور سنہرا پوائنٹ پر امڈ آئے، بیشتر افراد نے سمندر میں نہانے پر پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سمندر میں نہانے کا لطف اٹھایا۔ اس موقع پر کچھ منچلے سمندر کی بپھری ہوئی لہروں کی پروا کیے بغیر گہرے پانی کی طرف چلے گئے اور پھر ڈوبنے کے واقعات کا سلسلہ شروع ہو گیا، لیکن اس کے باوجود بھی نہ تو انتظامیہ کی جانب سے شہریوں کو روکنے کے سخت انتظامات کیے گئے اور نہ ہی منچلے سمندر میں نہانے سے باز آئے، بلکہ وہ سمندر کی بپھری لہروں میں جاگھسے اور پھر واپس نہ آئے۔ وزیر اعظم میاں نوازشریف نے سمندر میں نہانے کے دوران ہونے والی اموات کو انتظامیہ کی غفلت اور لاپرواہی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اس بارے میں صوبائی حکومت سے رپورٹ طلب کی اور انتظامیہ کو سی ویو پر مناسب انتظامات کرنے کے احکامات صادر کیے۔ جبکہ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ کراچی کا سانحہ مجرمانہ غفلت ہے اور اس غفلت کے مرتکب افراد کو سخت سزا دی جائے۔ وزیر داخلہ نے سندھ کے چیف سیکرٹری سے رابطہ کرکے واقعے کی تحقیقات کی ہدایت کی ہے۔ جبکہ کمشنر کراچی شعیب صدیقی کا کہنا ہے کہ ساحل سمندر بہت طویل ہے اور انتظامیہ کی جانب سے پابندی کے باوجود لوگوں کو سمندر میں جانے سے روکنا ممکن نہیں ہے۔ سندھ حکومت نے سمندر میں ڈوب کر مرنے والوں کے ورثا کو فی کس دو دو لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔

مبصرین کے مطابق کراچی میں عید کے موقع پر اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا سمندری لہروں کی نذر ہوجانا انتہائی افسوس ناک بات ہے۔ اس سانحے میں شہریوں اور حکومت دونوں کی جانب سے غفلت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ کراچی ایک ایسا شہر ہے ، دیگر بہت سے مقامات کے ساتھ ساحل سمندرخاص طور پر اس کی وجہ شہرت ہے۔ صرف مقامی افراد ہی نہیں، بلکہ ملک بھر کے دیگر شہروں سے کراچی آنے والوں کی بھی پہلی خواہش ساحل سمندر کا نظارہ کرنا ہی ہوتی ہے اور جب عید جیسا تہوار ہو تو ہزاروں افراد خدا کی اس نعمت سے لطف اٹھانے کلفٹن، منوڑا، ہاکس بے اور پیراڈائز پوائنٹ کا رخ کرتے ہیں۔ اس بات کا حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو بخوبی علم ہے۔ ان حقائق کے باوجود ہر سال حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے برابر کیے جاتے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ انتظامیہ کے نزدیک سی ویو صرف کمائی کا ذریعہ ہے، وہاں کے حفاظتی انتظامات اس کے ذمے ہی نہیں ہیں۔ سی ویو پر کروڑوں روپے کا ٹیکس لینے والے ادارے ذمہ داریوں سے کنی کتراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کراچی کے شہریوں کے لیے تفریح گاہ ساحل سمندر کا کلفٹن سے دو دریا تک ساحل کی تمام زمین کی دعوے دار ڈی ایچ اے ہے، جبکہ ساحل سمندر پر آنے والے لوگوں سے پارکنگ فیس کنٹونمنٹ بورڈ وصول کرتا ہے۔ پارکنگ فیس وصول کرنے کے لیے ساحل سمندر کا ایک بہت بڑا روڈ پارکنگ ایریا بنا کر بند کردیا گیا ہے۔ اس سڑک کے داخلی اور خارجی راستوں پر بیریئرز موجود ہیں اور وہاں پر تعینات عملہ ساحل سمندر میں داخل ہونے والی گاڑیوں سے کارکنگ فیس کی مد میں پرچی تھما دیتا ہے۔ ان کے علاوہ ساحل سمندر پر انتظامیہ کے بہت سے کاروبار ہیں، جن کا پیسہ انتظامیہ کی جیب میں جاتا ہے۔ ساحل سمندر سے کروڑوں روپے کمائی کے باوجود کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں ہے جو شہریوں کو اگاہ کرسکے کہ پانی میں کس حد تک جانا ہے اور اس کے بعد خطرہ ہے، کم از کم انتظامیہ کی جانب سے عوام کی رہنمائی کے لیے کوئی سائن بورڈ ہی لگادیا جائے،لیکن ہر سال سمندر میں لوگوں کے ڈوب جانے کے باوجود ایسا کچھ بھی نہیں کیا جاتا۔اس سے بھی بڑی نااہلی کی بات یہ ہے کہ ساحل سمندر پر کسی ناخوشگوار حالت سے نمٹنے کے لیے لائف گارڈز ہی متعین نہیں کیے گئے تھے،اتنے افراد سمندر کی لہروں کی نذر ہوگئے لیکن کہیں لائف گارڈز نظر نہ آئے۔ بلکہ ذرائع کے مطابق تو بلدیہ عظمیٰ کراچی اور محکمہ میونسپل سروسز کے افسران کی ملی بھگت سے ساحل سمندر پر شہریوں کی جان بچانے والا عملہ گھر بیٹھے تنخواہیں وسول کررہا ہے، اسٹیشن آفیسر نے رشوت لے کر پورے عملے کو رخصت دے رکھی ہے۔ لہٰذا سمندر میں ڈوب کر مرنے والوں کے اہلخانہ اعلیٰ حکام سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے پیاروں کی ہلاکت کا ذمے دار کون ہے؟ انتظامیہ سی ویو پر آنے والوں سے معاوضہ تو وصول کرتی ہے، حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے، انتظامیہ کی اس نااہلی کا خمیازہ شہریوں کو اپنی جانیں گنوا کر برداشت کرنا پڑتا ہے۔ انتظامیہ کی کاہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ذرائع کے مطابق حکومت عید الفطر کے موقع پر سمندر میں نہانے پر پابندی سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کرنا ہی بھول گئی تھی،جب سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھی تو کمشنر کراچی کو دفعہ 144کے نفاذ کے نوٹیفکیشن جاری کرنے کا خیال آیا، جس پر انہوں نے اپنے ماتحت عملے کو فوری طور پر نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم صادر کیا۔ جبکہ دوسری جانب ذرائع کے مطابق محکمہ داخلہ سندھ نے سمندرمیں نہانے پر پابندی 13 جون سے 13جولائی تک ایک ماہ کے لیے عاید کی تھی، پابندی ختم ہونے کے بعد اس میں توسیع کا کوئی نوٹس نہیں ملا۔

مبصرین کے مطابق سانحہ کراچی دل دکھا دینے والا ہے، لیکن اس سے بہت سی خامیاں اور کوتاہیاں واضح ہو گئی ہیں، پاکستان میں حکومتیں اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پابندیاں تو عاید کر دیتی ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد کرانا بھول جاتی ہیں۔ کراچی کے ساحل پر یہ حادثہ پہلا نہیں ہے، ماضی میں بھی ایسے حادثات ہوتے رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ساحلوں پر فول پروف حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ہی عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے کوئی مہم چلائی گئی۔ متعلقہ حکام کو کم از کم اس حادثے کے بعد ہی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچا جاسکے۔ اگر دنیا کے دیگر ممالک کی بات کی جائے تو وہاں یہ صورتحال پیدا نہیں ہوتی، سمندر میں طغیانی وہاں بھی آتی ہے، لیکن حفاظتی اقدامات ایسے ہوتے ہیں کہ حادثات کی شرح انتہائی کم ہوتی ہے، بلکہ ان مقامات پر تفریحی سہولتوں کی فراہمی کو مزید بہتر بنایا جاتا ہے اور کسی ممکنہ حادثے کے پیش نظر لائف گارڈز کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے۔ یورپ کی تو بات ہی کیا ہے ، متحدہ عرب امارات کے ساحلوں پر بھی نہ صرف لائف گارڈز کی سہولت میسر ہے، بلکہ صفائی ستھرائی کا بھی خاص انتظام کیا جاتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں ڈوب کر مرنے والوں کی ساری ذمہ داری صرف حکومت اور انتظامیہ پر ہی نہیں ڈالی جاسکتی، بلکہ اس میں سمندر میں نہانے والوں کا بھی قصور ہے۔ انتظامیہ کے مطابق سندھ حکومت نے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے ساحل سمندر پر دفعہ 144 نافذ کی تھی، لیکن چڑھتے سمندر کی طغیانی کے پیش نظر نہانے پر پابندی عاید کیے جانے کے بعد بھی تفریح پر آنے والی فیملیز نے پابندی کو درخور اعتنا نہ سمجھا، عوام کی طرف سے یہ بھی لاپرواہی دیکھنے میں آئی کہ جب گارڈز پکنک منانے آئے لوگوں کو خطرناک پوائنٹ سے دور ہٹا دیتے تو گارڈز کے جانے کے بعد وہی فیملیز واپس ان جگہوں کا رخ کرلیتیں۔ عوام کے اس طرز عمل کا نتیجہ المناک سانحے کی شکل میں نکلا۔ منچلے اپنی گاڑیوں سمیت سمندر میں اتنی دور تک جا گھسے جہاں سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک انتظامیہ اور عوام دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کریں اس وقت تک کسی بھی حادثے پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے۔ حالیہ حادثے میں عوام اور انتظامیہ دونوں ذمے دار ہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701485 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.