سائنس ایک ایسا علم ہے جس کے
ذریعے ایک طرف تو موجودہ چیزوں یا اجسام کی ساخت و ماہیت وغیرہ کے متعلق
معلومات حاصل کی جاتی ہیں تو دوسری طرف غیر موجودہ چیزوں کا کھوج لگا کر نت
نئے تجربات کے ذریعے مختلف ایجادات اور دریافتوں سے ترقی کی راہیں ہموار کی
جاتی ہیں ،سائنس اور ترقی کو ایک دوسرے سے الگ نہیں سمجھا جاتا یہ دونوں وہ
اہم امور ہیں جنہوں نے انسانی تخیل کو اپنے تسلط میں لے لیا ہے ، اسی لئے
موجودہ دور کو سائنس اور ترقی کا دور کہا جاتا ہے ۔
آج سے چند سال پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ انسانوں کے ہاتھوں ایسی
ایسی مشینیں ایجاد کر لی جائیں گی جن کے ذریعے بہت سے کام پلک جھپکتے ہی
انجام پانے لگیں گے ،سائنس کی امتیازی حیثیت پوری دنیا میں تسلیم کر لی گئی
ہے اور نہ صرف بہتر معیار زندگی کی ضمانت بن چکی ہے بلکہ طاقت اور حیثیت کے
حصول کی واحد امید اسی سے وابستہ ہو چکی ہے دنیا کو حقیقی تناظر میں دیکھنے
کیلئے سائنسی نقطہ نظر کو لازمی قرار دیا جا رہا ہے ،اہم بات یہ ہے کہ
سائنس کی حیرت انگیز طاقت کو ترقی اور کامیابی کا ضامن سمجھا جاتا ہے ،اور
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے میں سائنس دانوں
نے بہت محنت کی، قدم قدم پر ایسی بہت سی چیزیں دکھائی دیتی ہیں جو سائنس کی
مہربانی کا نتیجہ ہیں ،پہلے سائنس یہ بتاتی تھی کہ کائنات کن قوانین کے تحت
حرکت میں ہے اب سائنس یہ بتا رہی ہے کہ کائنات اور انسان کو کن قوانین اور
نظریات کے مطابق حرکت کرنی چاہئے ،سائنس معاشروں کو تبدیل کرنے ،ایک نظام
کے مطابق ڈھالنے اور انسانی معیارات کا تعین کرتی ہے ۔
آج کے دور کو سائنس کی ترقیات اور چمک دمک کا دور کہا جاتا ہے ،لیکن ایک
طرف اگر اس نے تعمیر و ترقی کے لئے راہیں ہموار کی ہیں تو دوسری طرف سائبر
کرائمز نے معاشرے میں بدنظمی اور ہلچل سی پیدا کر دی ہے ،سوشل نیٹ ورک اور
سیٹلائٹ چینل محض ایک انٹر ٹینمنٹ کا ذریعہ ہیں لیکن ان کو ہمارے ملک میں
جرائم کی پہلی سیڑھی بنا دیا گیا ہے ،تمام دنیا میں یہی چینلز اور فیس بک
،سکائپ وغیرہ استعمال ہو رہے ہیں لیکن دنیا میں شاز وناظر ہی ان کے توسط
یاذریعہ سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہو جتنا پاکستان میں ہوتا ہے، یہاں
مختصر بیان کرنا لازمی ہے کہ پچاس ساٹھ قبل جب ریڈیو اور ٹرانزسٹر کا دور
تھا لوگ مطمئن تھے جب ٹیلی وژن کی آمد ہوئی تو اس چھوٹی سکرین نے دنیا میں
انقلاب بپا کر دیا آج چونکہ ٹی وی ہر گھر میں موجود ہے اور اس سمال سکرین
یا سائنسی ایجاد کو ہم لوگ غلط نظریے سے استعمال کر رہے ہیں بالخصوص ہمارا
الیکٹرانک میڈیا شعوراور مکمل نالج نہ ہونے کے باعث ایسے ایسے پروگرامز نشر
کر رہا ہے جس سے نئی نسل سائنس یا ٹیکنالوجی کو سمجھنے کی بجائے اس کا غلط
استعمال کر رہی ہے ۔
مغربی ممالک میں ٹی وی کو صرف وقت گزاری کی ایک مشین سمجھا جاتا ہے کوئی
بھی نیا پروگرام ٹی وی پر نشر کرنے سے پہلے انفارمیشن منسٹری (سنسر بورڈ)
میں سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کیلئے بھیجا جاتا ہے اور وہ ادارہ اس پروگرام کو
مد نظر رکھ کر سرٹیفیکیٹ جاری کرتا ہے کہ یہ پروگرام فلاں فلاں عمر کے
افراد کے دیکھنے کے قابل ہے یا نہیں مثلاً اگر ایک پروگرام یا فلم جس میں
معمولی سا بھی تشدد کا عنصر پایا جاتا ہے اسے بارہ سال سے کم عمر کے افراد
نہیں دیکھ سکتے یا ہالی وڈ کی تشدد سے بھر پور فلموں کو اٹھارہ سال سے کم
عمر کے افراد کیلئے ممنوع قرار دیا جاتا ہے کارٹونز پروگرامز وغیرہ کے لئے
عمر کی کوئی قید وبند نہیں رکھی گئی اور ہر ایک کو دیکھنے کی اجازت
ہے،علاوہ ازیں مغربی ممالک میں کئی نیوز چینلز ایسے ہیں جو صرف ہر گھنٹے
بعد تین سے پانچ منٹ کی ہیڈ لائینز نشر کرتے ہیں اور اس کے بعد سائنس کی
نئی ایجادات یا تحقیقات کے بارے میں جیسے کہ نظام شمسی ، سمندر کی گہرائی
اور وہاں پائے جانے والے جانوروں ،نئی موٹر کارز اور ان کی ٹیکنالوجی
،ہسٹری، جغرافیہ یا ایک پینسل کیسے تیار کی جاتی ہے وغیرہ جیسے معلوماتی
اور تعمیری پروگرامز ہمیشہ ناظرین کی دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں،بچوں کے
دیکھنے کے تمام پروگرام شام نو بجے بند کر دئے جاتے ہیں ،اور بچوں کے ڈاکٹر
ز کی والدین کو خاص طور پر ہدایت ہے کہ دن میں آدھا گھنٹہ سے زیادہ بچے ٹی
وی نہیں دیکھ سکتے، جبکہ پاکستان میں دن رات مختلف چینلز پر صرف سیاست اور
تشدد ہی دکھا یا جاتا ہے جس سے بالخصوص بچوں پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں
بچوں کے ذہن معصوم اور خام ہوتے ہیں وہ اچھے برے کی تمیز نہیں کر سکتے اور
اپنا قیمتی وقت جو انہیں پڑھائی کو دینا چاہئے سکرین کے سامنے گزارتے ہیں،
اشتہارات سے انکی نفسیات پر برا اثر پڑتا ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ بچے ملک و قوم کا مستقبل ہیں لیکن ان کے مستقبل کی تعمیر و
تشکیل پر توجہ نہیں دیتے جو بچے خیالی تصورات و بے جا خواہشات میں مبتلا ہو
کر اپنا وقت ضائع کرتے ہیں وہ بھلا کیسے مستقبل کا اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں،
عید کے موقع پر ہر چینل نے بچوں کے بارے میں مختلف رپورٹ نشر کیں کہ والدین
کے ساتھ پر فضا مقام پر یا پارکس وغیرہ میں تفریح کی اور دیکھنے میں یہ آیا
کہ ہر دوسرے بچے کے ہاتھ میں جدید طرز کا کھلونا ہتھیار تھا بہت افسوس ہوتا
ہے ایسے والدین کی سوچ پر ہتھیار بھی کوئی کھیلنے کی چیز ہے بھلے وہ کھلونا
ہی کیوں نہ ہو ؟مغربی ممالک میں ہر چھوٹے بڑے شاپنگ سینٹر سے کھلونا ہتھیار
ہٹا دئے گئے ہیں ،اسکی وجہ یہ بیان کی گئی کہ نہ ہتھیار مارکیٹ میں ہوں گے
نہ بچے ان کی طرف راغب ہو نگے ،اپنے کالم ہتھیار میں اس کے منفی اثرات
تحریر کر چکا ہوں۔
بلاشبہ ٹی وی انٹر ٹینمنٹ کے علاوہ انفارمیشن دینے کا بھی کردار ادا کرتا
ہے لیکن پاکستان میں بچوں کے لئے نہ تو کوئی تعلیمی پروگرامز پیش کئے جاتے
ہیں اور نہ تخلیقی، بچوں کے ذہنوں میں سیاست اور تشدد کا زہر گھولا جارہا
ہے ،والدین کو چاہئے کہ جتنا ممکن ہو بچوں کو ٹی وی سے دور رکھیں نہیں تو
ذہنی و جسمانی نقصان کے ذمہ دار ہوں گے جیسے کہ بینائی کی کمزوری یا بہرہ
پن دونوں صورتوں میں بچوں کو کم عمری میں ہی آلات کا سہار ا لینا پڑے گا
،بچے کچی مٹی کی طرح ہوتے ہیں آپ انہیں جس سانچے میں چاہیں ڈھال سکتے ہیں
،بچوں کی رہنمائی اور نگرانی کرنے پر ہی وہ مستقبل کا اثاثہ ثابت ہوں
گے،اسلئے بچوں کوتشدد سے بھرپور انڈین فلمیں یا بے مقصد خواتین کے فیملی
جھگڑوں پر مبنی ڈرامے دکھانے سے بہتر ہے کمپیوٹر پر تعلیمی اور تخلیقی
پروگرام ڈاؤن لوڈ کر دیں جن سے انہیں کچھ حاصل بھی ہو ،کیونکہ اسی سانئنس
اور ٹیکنالوجی نے جہاں
زندگی کے دوسرے شعبوں میں اپنے قدم جمائے ہیں وہیں تعلیمی اور تخلیقی میدان
میں اس کے ذریعے ایک انقلاب آیا ہے ۔
آپ صرف دو گھنٹے توجہ سے انٹر نیٹ پر اپنے بچوں کی عمروں کو مدنظر رکھ کر
مختلف ویب سائٹ پر تعلیمی اور تخلیقی ویب سائٹ تلاش کریں اور انہیں ڈاؤن
لوڈکرنے کے بعد سیو کر لیں بچوں کو انٹر نیٹ اس وقت تک استعمال کرنے کی
اجازت نہ دیں جب تک وہ باشعور نہیں ہو جاتے، بچوں کے ذہن اتنے فاسٹ ہیں کہ
وہ فوراً ہر چیز کو سمجھ جاتے ہیں چیدہ چیدہ باتیں انہیں سمجھا دی جائیں
اور وقتاً فوقتاً ان کی نگرانی بھی کی جائے اور سمجھایا جائے ، انٹر نیٹ پر
بچوں کے لئے ریاضی، سائنس، سماجی علوم ، ذ ہنی آزمائش، گیمز،آرٹ و تصویر
سازی ، جنرل نالج ،انگلش لیکچر،کے علاوہ ہائی ٹیک معلوماتی پروگرامز بھی
ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔
جرمنی میں پہلی کلاس سے ہی سکول کی طرف سے ریاضی، انگلش ،اور جرمن گرامر
سیکھنے کیلئے بچوں کو سوفٹ وئر دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ ہوم ورک کرنے میں
بچوں کے مددگار ثابت ہوں۔
ہم لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کو مانتے
ہوئے بھی اس سے دور بھاگتے ہیں سائنس کی ایجادات پر عش عش تو کرتے ہیں لیکن
اسے اچھا بھی نہیں سمجھتے ، ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہمارے بچے سائنس اور
ٹیکنالوجی میں عبور حاصل نہیں کریں گے تو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے علاوہ
ازیں پتھروں کے زمانے میں واپس جانے سے بہتر ہے دور جدید کی تخلیقات کو
قبول کریں اور بچوں کے مستقبل کی راہ میں روکاوٹ نہ بنیں سائنس اور
ٹیکنالوجی ہی بچوں اور ہم سب کا مستقبل ہے ، سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہمیں
بہت کچھ دیا ہے لیکن سیاست اور تشدد کلچر نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ |