ستیہ پال آنند اور ’کتھا چار جنموں کی‘
(DR Abdual Karim, Muzaffarabad)
’کتھا چار جنموں کی‘ معروف
شاعر،افسانہ نگار،نقاد ستیہ پال آنند کی یاد داشتیں ہیں۔کتاب کو بزم تخلیق
کراچی نے زیور طبع سے آراستہ کیا ہے۔میں نے اس کتاب کو سطر سطر اور حرف حرف
پڑھا اور اپنے تاثرات تحریری شکل میں لکھ رہا ہوں۔آنند کی کچھ باتوں سے
اختلاف کیا ہے اور کچھ باتوں سے میں متفق ہوں۔کہیں کہیں ’گستاخی‘ ہوئی ہو
تو درگزر کیجیے گا۔
پہلے جنم کی کتھا زیادہ پراثر لگی۔آنند حساب میں کورے تھے تو کوئی بات
نہیں،ہم بھی ہیں حالانکہ ہم نے تو دوسرے جہان میں امتحان بھی دینا ہے ،آنند
نے نہیں۔خوشی ہوئی کہ آنند نے ’ایک مسلمان پھوپھی‘ کے سایہ عاطفت میں پرورش
پائی۔اس طرح اسلام ،سکھ مت اور ہندو مت کی تثلیث ان کو میسر رہی۔تاہم آنند
کا یہ جملہ غیر اخلاقی اور معترضہ ہی لگا کہ ’اس میں کتنا خون خالصتاً
ہندوستانی ہے،کتنا یونانی ہے اور کتنا پٹھان حملہ آوروں کا ہے، جو فوج کشی
کرنے کے بعد پہلا کام عورتوں کی عزت لوٹنے کا کیا کرتے تھے‘۔یونانی یہاں سے
چلے گے جبکہ پٹھان اکثریت میں مسلمان ہیں اور ہندوستان، پاکستان میں بڑی
تعداد میں آباد ہیں اور دونوں ملکوں کے شہری ہیں۔پٹھانوں سے مراد بہرحال
مسلمان ہیں۔کیا یہ آنند کا تعصب نہیں بول رہا۔ ۱۹۴۷ء میں میرا شہرمظفرآباد
پٹھانوں کی مدد سے آزاد ہوا۔میری ایک تائی سکھ تھیں۔میں اپنی پھوپھی سے اس
دور کی کہانیاں سنتا رہتا ہوں۔’یہاں پٹھانوں نے کتنی سکھ اور ہندو عورتوں
کی عزت تار تار کی‘ افواہیں زیادہ اور حقائق کم ہیں۔انقلابات میں ایسا ہوتا
ہے۔۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کا ایک انقلاب میں نے بھی دیکھا۔لوٹ مار اور عصمت دری کے
قصے زیادہ سنے لیکن ایسا ہوتا کم دیکھا۔ہندوستان میں ہندو زیادہ ہیں اور
تھے اور ان کی ذمہ داری زیادہ بنتی تھی اور ہے کہ وہ اقلیتوں کا تحفظ
کریں۔گجرات اور احمد آباد اب بھی سلگ رہے ہیں۔ایک محقق کو اس انداز میں بات
نہیں کرنی چاہیے۔
منشی تلوک چند محروم کے ساتھ املا کے مسائل پر آنند کے مباحث دلچسپ ہیں اور
حیرت انگیز بھی کیونکہ آنند بہت کم عمر تھے۔یہ بھی اچھا ہی ہوا کہ آنند کو
نظم کی طرف جانے کا مشورہ ایک ہندو نے دیااور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ
آنند کے لاشعور میں یہ بات پختہ تھی کہ غزل مسلمانوں کی صنف ہے۔فراق نے تو
یہاں تک لکھا کہ غزل کہنے کے لیے آدھا مسلمان ہونا پڑتا ہے۔آنند نے اسے
’تلانجلی‘ دی۔دھنے واد۔آنند کی اس بات کا میں بھی قائل ہوں کہ اردو کو
مقامی زبانوں سے سیکھنا چاہیے لیکن میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ اردو کو
اپنی شناخت کھونا نہیں چاہیے جس طرح ہندوستان میں اس کے ساتھ ہو رہا
ہے۔جانے کیوں آنند بھی اور عامیوں کی طرح ناسخ کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑ پڑے
۔انھوں نے کام کیا۔جس طرح آپ نے اردو کے لیے کام کیا۔ان کے کام میں دم تھا
اس لیے دو صدیوں بعد کا آنند ان کے کام کو اچھے یا برے الفاظ میں کوس رہا
ہے۔ان کے مقابلے میں انشاء نے بھی کام کیا لیکن ان کے’ دریائے لطافت‘ اور’
رانی کیتکی کی کہانی‘ مصنوعی لگتے ہیں۔ممکن ہے ہندوستانیوں کو نہ لگتی
ہو۔مقامی جاٹ عورتوں کی آنند کو صرف یہ محبت نظر آئی کہ ’تم لوگ چلے جاؤ گے
تو ہمیں قرض کون دے گا‘۔حالانکہ آنند جب چوتھے جنم میں اپنے گاؤں گئے تو اس
مسلمان عورت نے پھر بھی ان کو یہی کہا کہ’ آپ کا مکان ہے‘۔تو ان کے بارے
میں ایسا لکھنا کیا زیادتی نہیں؟
’کتھا دوسرے جنم کی‘ میں کرشن چندر پر آنند کا طنز بہت خوب لگا کہ’آج کل
گلشن نندہ کے ناول پڑھ رہے ہیں کہ دیکھیں وہ کیا عنصر ہے جو اس کے ناولوں
کو اتنا کامیاب بناتا ہے‘۔ویسے میں بھی کرشن چندر کو بڑا افسانہ نگار مانتا
ہوں ،ناول نگار نہیں۔اس جنم میں آنند کو اپنے ’میں‘ ہونے کا احساس کچھ
زیادہ ہی ہوگیا۔یہاں غزل سے آن کی بیزاری جاری رہی اور انھوں نے شعوری طور
پر اپنے آپ کو اس صنف سے دور رکھنے کی کوششیں جاری رکھیں۔اس جنم میں آنند
نے اپنی شادی اور بچوں کے تذکرے مختصر کر دیے جانے کیوں۔حالانکہ ان کے
اثرات ان کے چوتھے جنم تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔’ایک بوتل دیسی شراب کے
وعدے پر یار لوگ مشاعروں میں داد دینے کے لیے یا اپنے حریفوں کو ہوٹ کرنے
کے لیے ساتھ لے جاتے تھے‘۔پڑھ کر محظوظ ہوا۔یہ تو ہو رہا ہے۔کہیں شراب ،
کہیں شباب اور کہیں پیسہ۔
اس دوسرے جنم میں آنند پر انگریزی ادب اور انگریزی بہت سوار رہے۔ہونے بھی
چاہیے تھے کیونکہ آنند کے روزگار کا مسئلہ جو ٹھہرا۔اردو کو کیوں آپ
انگریزی ادب کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔کیا یہ جاننا غالب کے لیے ضروری تھا کہ
اس کا معاصر انگریز شاعر کون تھا؟اور کیا یورپی تخلیق کاروں کو اردو ادب سے
اسی طرح کی شناسائی ہے جس طرح آپ اردو والوں کے لیے انگریزی ادب کی چاہتے
ہیں۔آپ کو اسی جنم میں یہ احساس ہوگیا کہ ’دونوں زبانوں کا راستہ جدا جدا
تھا‘۔لیکن اس کے لیے آپ پھر اردو اور غزل کو مطعون ٹھہراتے ہیں۔یہ پڑھ کر
خوشی ہوئی کہ آپ کمیونسٹوں کے تختہ مشق رہے ۔اس جنم میں آنند نے بہت سارے
اچھے خاکے لکھے ہیں جن میں سے بعض چونکاتے بھی ہیں۔تاہم ہندوستانی قلم کار
کو اس معیار سے ناپنا برا لگا کہ ’مہندر ناتھ اچھا کہانی کار ہونے کے
باوجود ٹالسٹائی، گورکی وغیرہ کے ناموں سے ناواقف تھا‘۔
کرشن چندر کے بارے میں آنند کا یہ مشاہدہ کہ’وہ انگلیوں کی بے سکونی کا
شکار تھا اور یہ ثابت کرتا تھا کہ اس کے دماغ میں کچھ چل رہا ہے‘،میرے علم
میں اضافہ کر گیا۔ترقی پسندوں کے بارے میں آنند کے خیالات سے متفق ہوں لیکن
ان کا یہ کہنا درست نہیں کہ ’ہندی والے خاندان کے خلاف اس قسم کے عدم توازن
پر مبنی باتیں برداشت نہیں کر سکتے‘(ملک راج آنند کا مسلمان لڑکی سے معاشقہ
اور شادی کے باوجود اس کا پیچھا نہ چھوڑنے کے تذکرے تو آپ نے بڑے فخر سے
کیے ہیں)۔یہ باتیں اردو والے مسلمان تو بالکل برداشت نہیں کرتے اور انھیں
تو صرف لڑکی نہیں راج آنند کو بھی ’ٹھوک‘ دینا چاہیے تھا۔ویسے کمیونسٹ
پارٹی پاکستان میں نہیں پنپ سکی البتہ ہندوستان میں اب بھی موجود ہے۔کرشن
چندر تو پہلی بیوی سے تنگ تھے آنند نے دوسری کو رگڑا دیا ہے۔کیا اس کے
پیچھے بھی ہندو تعصب نہیں بول رہا۔میں نے سنا اور پڑھا ہے کہ کرشن چندر نے
اسلام قبول کر لیا تھا۔کیا فرماتے ہیں آنند اس مسئلے کے بیچ۔آنندکی اس بات
سے میں جزوی متفق ہوں کہ ’لاہوری غیر لاہوریوں کو خاطر میں نہیں
لاتے‘۔معیاری کام کو کوئی روک نہیں سکتا۔
پریم چند کی طرح تنگ دستی کی وجہ سے آنند نے بھی اردو افسانے اور ناول ہندی
میں ترجمہ کرکے پیسے کمائے تاہم پریم چند کی طرح آنند کو ہندی میں پزیرائی
بھی ملی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کمیونزم آنے کے بعد روس نے کوئی بڑا
ادیب پیدا نہیں کیا۔’کتھا تیسرے جنم کی‘ میں پروفیسروں کے (سب نہیں) بارے
میں آنند کا تجزیہ پسند آیا کہ ’یہ مخلوق اول تو ایسی باتوں سے ہی پرہیز
کرتی ہے جن کا تعلق نصاب سے ہٹ کر ہو اور اگر بات آبھی جائے تو تفصیل میں
نہیں جاتی‘۔تاہم پروفیسر ایش کمار نے آپ کو درست مشورہ دیا کہ ’اگر آپ نے
بہت کچھ پڑھا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اس کی ہر جگہ تشہیر کریں‘۔اور
یہ خامی آپ کے اندر موجود ہے جب آپ بھری محفل میں لوگوں کو ان کی معمولی
غلطیوں پر ٹوکتے ہیں۔تیسرے جنم میں بھی آپ کا اردو والوں کو مغربی عینک سے
ناپنے کا پیمانہ جاری رہا۔آپ کی یہ بات ایک استاد کی حیثیت سے مجھے بہت
اچھی لگی کہ آپ لیکچرز میں وہ زبان استعمال کرتے ہیں جو طلبہ کو سمجھ آرہی
ہو۔ٹیری کا indoor experiment کا تجربہ مجھے بہت پسند آیا اور میں بھی اسے
کلاس میں آزمانے کا سوچ رہا ہوں۔
انگریزی ادب میں عشق کے بارے میں آنند کا تجزیہ درست ہے کہاں جسم کی پکار
اور کہاں عشق۔عروض کے بارے میں ناظم حکمت کا حوالہ مجھے اس لیے پسند نہیں
آیا کہ ترکوں نے ماضی میں رسم الخط کے معاملے میں اپنی قوم کو ماضی سے کاٹ
ڈالا تھا اور ترک اب پھر اپنے ماضی کی طرف پلٹ رہے ہیں اس لیے ان کو کوئی
حق نہیں کہ وہ عروض کے معاملے میں ہم پر طنز کریں۔انگریزی بین الاقوامی
زبان اس وجہ سے بھی ہے کہ وہ ایک برتر طاقت کی زبان ہے۔فارسی اور اردو نہیں
،کیوں؟ یہ بحث طلب ہے اور اس پر بات ہونی چاہیے۔تاہم اگر ہندی والے ضد چھوڑ
دیں تو یہ بین الاقوامی زبان تو ہے۔اس جنم میں آپ کو درست احساس ہوا کہ
پاکستان زبان کی وجہ سے ٹوٹ گیا لیکن جناب اس میں زبان ایک عامل تھی۔اور
بھی عوامل تھے بنگلہ دیش بننے کے۔اختر الایمان کی یہ بات کہ ’آج ایک پڑھے
لکھے اردو شاعر سے ملاقات ہوگئی آخرورنہ اردو میں کون پڑھا لکھا ہے۔سب ہی
تو نیم خواندہ ہیں‘۔میرے نزدیک یہ زیادتی ہے اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے
کے مترادف۔ویسے آپ کی اردو نظم نے ہمارے سماج میں کیا اچھی تبدیلی لائی ہے۔
ترقی پسند شاعروں اور شراب کے قصے آنند نے اس جنم میں خوب لکھے ہیں۔عینی کی
اس بات میں وزن تو ہے کہ ’کچھ لوگ ہندوستان کی تاریخ کو محمد بن قاسم(میر
قاسم نہیں) سے شروع کرتے ہیں‘۔میرے نزدیک درست کرتے ہیں کیونکہ وہیں سے
ہندوستان میں نظریاتی کشمکش کا دور شروع ہوتا ہے۔ویسے آنند کا طریقہ واردات
خوب ہے۔جو بات آنند کہنا چاہتے ہیں یا جس کی خواہش رکھتے ہیں اس کے لیے کسی
اور کا حوالہ دے دیتے ہیں۔’آگ کا دریا‘ کا اختتام بہرحال مایوسیوں پر ہوا
ہے اور میں اسے بڑا ناول تسلیم نہیں کرتا۔پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے
خلاف جو کچھ لکھا جائے گا خواہ اس کو نوبل انعام ہی کیوں نہ ملے ،مجھے اس
سے نفرت ہے۔باقر مہدی کے بارے میں تحریر کرتے کرتے جانے کیوں آپ پھر
انتہاؤں پر چلے گئے اور اپنی علمیت کا رعب جھاڑنے لگے ۔یورپی ادب کے بار
بار حوالے دینا آپ کے نزدیک کار ثواب ہوگا ہمارے نزدیک نہیں۔
اسر صاحب کا یہ حوالہ کہ ’میں ایک موہیال برہمن ہوں جو کربلا کے معرکے میں
حسین ؓ کے دوش بدوش یزیدیوں کے خلاف جنگ میں شامل تھے‘۔ایک تاریخی جھوٹ
ہے۔کوئی ہندو کربلا کے معرکے میں شامل نہیں تھا۔پریم چند نے ہندو مسلم
ایکتا کے لیے ایک ڈرامہ ’کربلا‘ بھی لکھا تھا اور ایسا ہی ایک حوالہ دیا
تھا ۔اس پر بڑی بحثیں ہوئیں لیکن ہاتھ کچھ نہ آیا۔ملک راج آنند کا خاکہ
پسند آیا ۔کیا ترقی پسندوں کا اخلاقی معیار تھا کہ شادی شدہ عورت کو بھی نہ
بخشو اور اس کو بھی ورغلاؤ اور دوسرے مذہب کی عورت کی عزت کا کیا خوب معیار
ہے۔واہ واہ۔موصوف سراپا ترقی پسند تھے اور میرے علم میں اس خاکے نے بڑے
اضافے کیے۔ غزل کے بارے میں آنند کا پختہ یقین ان کے ساتھ ہی سورگ میں یا
نرک میں چلا جائے گاکہ اردو شعراء تو اس کو تلانجلی دینے سے رہے۔غزل اور
سانیٹ،اوڈ وغیرہ میں روایت کا فر ق ہے۔
چوتھے جنم میں آنند نے خاکے خوب لکھے ہیں۔وہ سدا مہاجر رہے اور اپنے
پاکستانی ہونے پر فاخر رہے۔تاہم آپ کو غلط مشورہ دیا گیا کہ والد کی طرح آپ
کو بھی مار دیا جائے گا۔وہ ایک خاص وقت تھا جب انسانیت مر گئی تھی۔اگر آپ
اس ملک میں رہنے کا فیصلہ کرلیتے تو یقیناً اس کے وقار میں اضافہ
کرتے۔اردوکی لسانی تحریک کا انحصار اگر آپ کے نزدیک گلکرسٹ اور پیٹرک کی
لغات پر ہے تو یہ وقیع کام سورگ باش ہونے سے پہلے کرتے جایے شاید اردو کے
محققین اور نقاد اس کے بعد آپ کی طر ف آ جائیں۔کیا کہنے آپ کے کہ آپ کے ایک
کالم نے چمن نہال کو ساہتیہ ایوارڈ دلوا دیا۔’اوریچر اور ولے نیل‘ میرے لیے
علم میں اضافے کا باعث بنے۔ اس کے لیے دھنے واد۔راشد کے کریمیٹ ہونے کا علم
ہم کو بھی ہے۔بات فن سے الگ ہوکر مذہب پر آئے گی تو بہت سارے عقدے وا ہوں
گے۔
کتابوں کے بارے میں کیا پاکستان اور کیا ہندوستان ہر جگہ ایک سا رویہ
ہے۔کتاب دشمنی کو ہمارے میڈیا نے بڑھایا ہے اور گلیمر کو ہوا دی ہے۔اب کتاب
شو پیس کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے لگتا ہے کہ یہ بھی ماڈل بن چکی
ہے۔اس کے فرنٹ اور بیک کی بات کریں اس کے اندر مت جائیں۔اپنے بیٹے کے لیے
آپ یقیناً اوک کے درخت کے مماثل ہیں۔آنند صاحب یاد رکھیں کہ غزل کی روایت
بہت مضبوط ہے اور ن م راشد،میرا جی اور مجید امجد کی علامتی نظم نگاری اس
کو توڑ نہیں سکتی تو کیا یہ بہتر نہیں کہ اس قضیے میں مت پڑیں اور اپنا
اپنا کام کیے جائیں۔مزاحمتی ادب کے بارے میں آپ نے درست تحریر کیا ہے کہ یہ
وقتی ابال تھا ۔ویسے غالب کی تاریخ کے حوالے سے دانستہ کوتاہی بہرحال
کوتاہی ہے اور اس سے صرف نظر نہیں کیا جانا چاہیے۔
مشتاق شاد کے ساتھ آپ نے فرینڈلی فائر کو پسند نہیں کیا حالانکہ آپ لوگوں
کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے درمیان بے تکلفی موجود تھی۔یہ اور بات
ہے کہ آپ دونو ں کا مذہب الگ اور نظم اور غزل کی کشمکش بھی موجود تھی۔دونوں
ایک دوسرے کو تسلیم کرتے نظر نہیں آتے۔تاہم آپ کا ان کو منافق کہنا آپ کو
چھوٹا ثابت کرتا ہے۔اناپروری واقعی ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن یہ تو آپ میں بھی
موجود ہے اور آپ کو کسی دوسرے کو تسلیم کرنے سے روکتی ہے۔افتخار نسیم پر
بات کرتے کرتے آپ یورپ اور امریکہ کی ہم جنس پرستی کو درست ثابت کرنے چل
دیے۔میں نے اس پر کچھ کام کیا ہے اور میں آپ کی اس بات کو درست تسلیم نہیں
کرتا کہ اس کے پیچھے حیاتیاتی عوامل موجو دہیں۔میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ جو
مفعول ہوتا ہے وہ مستقبل میں فاعل بننے کی کوشش کرتا ہے اور اس طرح کے
تجربے کسی اور پر کرتا ہے۔ہمارے ہاں اس کو ’ممیسیے‘ کہتے ہیں۔یہ ایک مرض ہے
جو وقت کے ساتھ پختہ ہوتا ہے۔یورپ اور امریکہ میں یہ ایک فکر کا نام ہے جس
کو ’غیر ذمہ دار رویہ‘ کا نام دیا جاسکتا ہے کہ خاندان نہیں بنانا اور بچے
نہیں پیدا کرنے کہ بچہ ایک مکمل پیراسائیٹ ہے جو آپ کو کھا جاتا ہے اور آپ
کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
بشیر بدر کے ساتھ آپ کا سلوک جذباتی لگا کیونکہ آپ تو نظم کے شاعر ہیں اور
میر و غالب تو غزل گو تھے ان کے لیے اتنا جذباتی ہونا مصنوعی لگا۔غزل کے
بارے میں یہ انتہائی غیر اخلاقی جملہ ہے کہ ’یہ صنف سخن وہ بوڑھی طوائف ہے
جس کی قیمت آج بھی کم نہیں کی جا سکتی‘۔آپ کا ’یہ بیہودہ خیال‘ بالکل حقیقی
ہے کہ’میں خود اگر غزلوں کا مطالعہ نہیں کرتا تو کیا ضروری ہے کہ ایک غزل
گو شاعرہ میری نظموں کو پڑھے‘۔ڈاکٹر وزیر آغا کا نام نوبل انعام کے لیے
نمبر ۳ پر ہونا میرے لیے خوشگوار حیرت کی بات ہے اور ان کے خلاف پاکستان
میں پروپیگنڈا معمول کی بات۔پاکستان میں آپ کو خوب پروٹوکول ملا یہ سن کر
خوشی ہوئی۔چوتھے جنم میں آپ کو نظم اور غزل کا فرق بھی معلوم ہو ہی گیا کہ’
غزل کے اشعار یاد رہتے ہیں اور افسانے کے کردار بھی لیکن نظم کے اشعار کون
یاد رکھتا ہے‘۔ڈاکٹر وزیر آغا پر آپ نے ڈٹ کر لکھا ۔شکر ہے کہ آپ کسی سے
متاثر تو ہوئے۔
آپ میرپور مشتاق شاد سے ملنے گئے اور عجیب سا واقعہ لکھا ہے جس کے مطابق
شاد نے شاید آپ کے پیچھے کچھ بندے لگا دیے جو آپ کو مارنا یا اغوا ء کرنا
چاہتے تھے اور ناصر نے آپ کو بچا کر راولپنڈی پہنچایا۔آپ نے وزیر آغا کے
بیان کا سہارا لیا ہے کہ’ایک تو امریکی اور اس پر بھارتی ہندو۔وہ آپ ہی کو
مارنے آئے تھے۔شکر ہے آپ بچ گئے‘۔بہت سے سوال اٹھتے ہیں۔مشتاق شاد حیات
ہوتے تو ان سے ان کی تصدیق کرواتا یا جواب لیتا۔وہ نہیں رہے۔ناصر ہجرت کرکے
میرپور سے اسلام آباد نہیں آئے ۔ملازمت کے اختتام پر ریٹائرمنٹ کے بعد گھر
تو جانا ہی تھا نا انھوں نے۔آپ اس پوائنٹ پر محقق لگے ہی نہیں۔آپ نے بہت سی
چیزوں کو کنفیوز کر دیا ہے۔شاد بیمار تھے ۔وہ اتنے موثر نہ تھے کہ آپ کو
مروانے کی کوشش کرتے۔آنے والے دستک دے کر نہیں آتے۔دیوارتوڑ کر آتے اور آپ
کو ’ٹھوک‘ جاتے لیکن کیوں؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم کشمیر ی تکریم
مہمان سے واقف نہیں۔آزادکشمیر میں بے شمار ہندو ،سکھ، امریکی اور جانے کہاں
کہاں کی مخلوق آتی جاتی ہے۔ہم کو آپ کے مذہب سے کیا لینا۔یہاں تو امریکی
میرینز بھی موجود رہے۔آپ اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں تو پھر آپ ہندوستانی
کہاں سے ہو گئے۔پاکستان کی نسبت ہمارے ہاں شرح خواندگی زیادہ ہے۔ہمارا
معاشرہ زیادہ روادار ہے۔آپ نے ناصر سے پوچھنا گوارا ہی نہیں کیا کہ کیا وجہ
تھی اور اس رات کیا ہوا۔
آپ اتنے امیر بھی نہیں کہ کوئی آپ کو تاوان کے لیے اغواء کرتا ویسے یہ کام
پاکستان میں آسانی سے ہوسکتا تھا اگر کوئی کرنا چاہتا۔وزیر آغا اس قدر گری
ہوئی بات کر ہی نہیں سکتے۔وہ اسلام ،کشمیر اور نظریہ پاکستان سے واقفیت
رکھتے تھے۔چوتھے جنم میں واقعی آپ سٹھیا گئے۔مشفق خواجا کے تذکرے اچھے لگے
اور خاص طور پر ان کا یہ کہنا کہ ’لکھنے والوں کے خاص طبقے سے ان اصحاب کو
چن لیتا ہوں جو بزعم خود تیس مار خان ہوتے ہیں‘۔کہیں ان تیس مار خانوں میں
آپ کو بھی انھوں نے شامل تو نہیں کرلیا تھا۔ان کے مزاح کی سمجھ کسی کسی کو
آتی تھی اور اس ’کسی‘ میں جانے آپ ہیں کہ نہیں۔تاہم گاندھی کے بارے میں ان
کا فرمایا مستند نہیں۔عمل نے بتا دیا ہے کہ اردو کے ساتھ ہندوستانی ہندو
جنتا نے ۱۹۴۷ء کے بعد کیا کیا۔سکھوں اور پٹھانوں دونوں کو آپ نے بچانے کی
کوشش کی ہے کیونکہ دونوں سے آپ کا قرابت کا رشتہ ہے۔یورپ اور امریکہ کے
شعراء کے تذکرے بھی آپ نے خوب کیے ہیں اور اردو کی ان نئی بستیوں سے میرے
جیسے عامیوں کو متعارف کروایا ہے۔خوش رہیں او ر لکھتے رہیں۔ |
|