علمی و ادبی مجلہ سنگم

علمی و ادبی مجلہ سنگم،گورنمنٹ ڈگری کالج حضرو ،اٹک(پنجاب۔ پاکستان)سال اشاعت 2014 , تبصرہ نگار:غلام شبیر

گورنمنٹ ڈگری کالج ،حضرو (اٹک)کے ادبی مجلے ’’سنگم‘‘ کا تازہ شمارہ حال ہی میں شائع ہوا ہے ۔اس رجحان ساز علمی و ادبی مجلے کے سر پرست ممتاز دانش ور پروفیسر محمد زکریا (پر نسپل )ہیں۔ مجلے کے مدیر اعلا کے فرائض زیرک ادیب ،محقق اور نقاد پروفیسرسید نصرت بخاری انجام دے رہے ہیں جب کہ پروفیسر نثار احمد اس مجلے کے مدیر ہیں۔ نامور منتظم اورماہر ِ تعلیم پروفیسر جمشید اقبال (ڈپٹی ڈائریکٹر آف کالجز، اٹک) کی فکر پرور اور بصیرت افروز رہنمائی میں اس علاقے کے تعلیمی اداروں میں فروغِ علم وا دب کے لیے نہایت سازگار فضا پیدا ہو گئی ہے۔تعلیمی اداروں سے شائع ہونے والے علمی وادبی مجلا ت کے بارے میں بالعموم دو رائیں پائی جاتی ہیں ۔پہلی رائے تو یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کے علمی و ادبی مجلات کوطلبا و طالبات ہی کا ادبی مجلہ ہو ناچاہیے۔دوسری رائے یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کے ادبی مجلات کو طلبا و طالبات کا ادبی مجلہ بھی ہو نا چاہیے۔ان دونوں آرا میں جو لطیف فرق ہے وہ اہلِ نظرسے پوشیدہ نہیں۔سنگم کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ علمی و ادبی مجلہ واقعتاًطلبا و طالبات ہی کا مجلہ ہے جس میں نئی نسل کے ذوق کے مطابق رنگ ،خوشبواور حسن و خوبی کے تمام دل کش استعارے اس طرح سمٹ آئے ہیں کہ ان کی عطر بیزی سے قریہ ء جاں معطر ہو گیاہے۔پاکستان کی نئی نسل میں ذوقِ ادب اور تخلیقی فعالیت کو مہمیز کرنے میں ’’سنگم‘‘ جو اہم کردار ادا کر رہا ہے وہ ہر اعتبارسے لائقِ صد رشک و تحسین ہے۔ اس مجلے کے قلمی معاونین میں ارد و،پنجابی اور انگریزی زبان سے دلچسپی رکھنے والے ممتاز اہلِ قلم شامل ہیں ۔ مجلے کی مجلسِ ادارت نے تحریروں کے ا نتخاب میں کڑے معیارکو پیشِ نظررکھا ہے اور دانہ دانہ جمع کر کے اسے خرمن کی شکل دی ہے۔سبدِ گُل چیں جو گُل ہائے رنگ رنگ موجود ہیں ان کی مسحور کُن مہک قلب ونظر کو مسخر کر لیتی ہے ۔سنگم کا یہ شمارہ (اشاعت 2014)ایک سو چھیانوے صفحات پرمشتمل ہے ۔ان میں سے ایک سو اٹھاسی صفحات پراردو زبان کی تحریریں شائع ہوئی ہیں انگریزی زبان کی تحریروں کو آٹھ صفحات ملے ہیں جب کہ پنجابی زبان کی کوئی تحریر مجلے میں جگہ نہیں پا سکی۔

سنگم کے دونوں جانب کے رنگین سرِ ورق گورنمنٹ ڈگری کالج حضرو ،اٹک کی وادیء جمیل کے سرسبز و شاداب باغات سے مزین ہیں، جہاں روش روش پہ پھول ہی پھول نکہت فشاں ہیں ۔ یہ بُو ر لدے چھتنار ،اثمار و اشجار اور کھیل کے میدان دیکھ کر طلبا و طالبات کے دلوں کی دھڑکنیں اس عظیم مادرِ علمی سے ہم آ ہنگ ہو جاتی ہیں اوروہ اس سے ٹُو ٹ کر محبت کرنے لگتے ہیں ۔اس مجلے میں تیرہ رنگین تصاویر شامل ہیں جن میں طلبا وطالبات اور اساتذہ کو نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں جس لگن اور انہماک سے مصروف عمل دکھایا گیا ہے وہ ہرلحظہ نیا طُورنئی برقِ تجلی کی کیفیت کا مظہر ہے ۔یہ تصاویر طلبا اوراساتذہ کی تعلیمی زندگی کی حقیقی معنویت کواُجاگر کر رہی ہیں اورانھیں دیکھ کرمر حلہ ء شوق طے ہی نہیں ہوتا اور قارئین فروغ ِ گلشن و صوت ہزار کے موجودہ موسم کے مزید مناظر دیکھنے کی تمنا کرتے ہیں۔ زندگی کی اقدارِعالیہ اور درخشاں روایات کا امین یہ مجلہ افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہان تازہ تک رسائی کی راہ دکھا رہا ہے ۔تخلیقی تحریروں اوردیگر سر گرمیوں میں حریت ِ فکر ،بے لوث محبت،بے باک صداقت ،خلوص و مروت ،ایثار،انسانی ہمدردی ،حُسنِ فطرت اور جمالیات کی اقدار کی اساس پر استوار روایات کو جس موثر انداز میں اس مجلے میں پیش کیا گیا ہے وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔یہ ایک مثبت اور نئی سوچ ہے جو پاکستان کی نئی نسل کو تاریخ کے مسلسل عمل کی اہمیت سے آگا ہ کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہو سکتی ہے اور مستقبل میں اسی سے بلند آہنگ افکار کے سوتے پُھوٹیں گے ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ مجلے کی مجلسِ ادارت نے قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل دکھانے کی جو مساعی کی ہیں وہ ثمر بار ثابت ہوئی ہیں۔

پیرایہء آغاز میں پروفیسر سید نصرت بخاری کا پیش لفظ ، پروفیسر محمد زکریا(پرنسپل)اورپروفیسر جمشید اقبال (ڈپٹی ڈائریکٹر آف کالجز اٹک)کے پیغامات شامل ہیں۔ اس اہم حصے میں ان ماہرین تعلیم نے تخلیق ادب کے حوالے سے زندگی کے حیات افزا اور حیات بخش عناصر کی نمو پر توجہ مرکوز کرنے پر زور دیا ہے ۔ شاہین بچوں کو عملی زندگی کے تقاضوں کے مطابق جہدِ مسلسل پر آمادہ کرنے کے سلسلے میں یہ تحریریں کلیدی اہمیت کی حامل ہیں ۔اس کے بعد حکیم خان حکیم کا حمدیہ کلام شامل ہے۔ نعت کے حصے میں آٹھ شعرا نے حضور خاتم النبینﷺ کی خدمت میں گل ہائے عقیدت پیش کیے ہیں۔مقالات کے حصے میں بارہ وقیع مقالات شامل اشاعت ہیں ۔ایک انشائیہ اور تیرہ مضامین بارہ افسانے سترہ غزلیں اور پانچ نظموں کی اشاعت سے اس مجلے کے معنوی حسن کو چا ر چاند لگ گئے ہیں۔مشاہیر ِادب کے مکاتیب اس مجلے کا ایک اہم حصہ ہیں جن کے مطالعہ سے قاری اپنے اسلا ف کی زندگی کے نشیب و فراز اور جذبات و احساسات کے بارے میں آگاہ ہوتا ہے۔متفرقات کی صورت میں بارہ تحریریں مجلے میں شامل کی گئی ہیں ۔اس حصے میں لطائف،اقوال زریں ،معلومات عامہ ،کھیلوں کی خبریں ،سنگم کے گزشتہ شماروں پر تبصرے اور تاریخی حقائق کو جگہ دی گئی ہے۔

طلبا و طالبات کی موثر رہنمائی کے لیے ممتاز ادیبوں کی فکر پور اور بصیرت افروزتحریریں نو آموز تخلیق کاروں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں ۔ جن نامور ادیبوں کی نمائندہ تحریریں سنگم کے اس شمارے کی زینت بنی ہیں ان میں ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر ،ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد ،پروفیسر سیدنصرت بخاری،پروفیسر وسیم بخاری،پروفیسر وسیم حیدر،پروفیسر حافظ بنارس خان،پروفیسر ملک ساجد محمود خان،پروفیسر بشارت حسین وقار ،پروفیسر محمد شبیر، ساجد نظامی،جمیل حیات ،مائل شبلی،احسان بن مجید ،حسین امجد ،پروفیسر نثار احمد اور پروفیسر محمد توقیر کے نام قابل ذکر ہیں ۔ان کی تحریریں کارِ جہاں کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرتے ہوئے نقدِ حیات کی جانب متوجہ کرتی ہیں ۔ مواد اور ہئیت کے اعتبار سے یہ ادب پارے اس مجلے کی ثقاہت میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ پاکستان کی نئی نسل ان سے استفادہ کر کے فہم و ادراک ،ذہن وذکاوت ،جذبات و احساسات ،تخیل کی جو لانیوں ،تکنیک کے تنوع اور تخلیق ادب کے لا شعوری محرکات کے بارے میں مثبت شعور و آگہی سے فیض یاب ہو سکتی ہے۔شاہین بچوں کو تخلیقِ فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اترنے کی صلاحیت سے متمتع کرنے میں یہ ادب پارے بے حد مفید ہیں ۔ان کے مطالعہ سے فکر و نظر کی بدلتی ہوئی کیفیات اور تخلیق فن کی نئی جہات کی تفہیم میں مدد ملتی ہے۔وطن اوراہل وطن کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کے جذبات سے لبریز ان تحریروں کا ایک ایک لفظ گنجینہ ء معانی کا طلسم ہے۔

شاہین بچے قوم کے لیے اُمیدِ فردا کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس مجلے میں پاکستان کے شاہین بچوں کی تحریریں پڑھ کردل کی کلی کِھل اُٹھی۔ان کی تحریر کا ایک ایک لفظ قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے۔ہماری مثال چراغِ آخر شب کی ہے اورہمارے بعد روشنی کا سفر جاری رکھنے کی ذمہ داری ان شاہین بچوں کے سر ہے ۔یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے بعد یہی شاہین بچے سفاک ظلمتوں کو کافور کردیں گے اوران کے افکار کی ضیا پاشیوں سے اکنافِ عالم کو گوشہ گوشہ بقعہء نور ہو جائے گا۔ یہاں مناسب ہو گا کہ ان نوجوانوں کی نثری تحریروں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے ۔ان تحریروں میں جو بے ساختگی اور خلوص کی فراوانی ہے وہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔

فوا داحمد (سال اول):گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے ‘‘ ،سید مہر علی شاہ (سال دوم):انمول موتی ،نہیں چلتی،سچے اور کھرے پختہ ارادے، دوستی مت کرنا، دور بھاگ ،ظاہر مت کر ،مت چلا،سات باتیں باعث ذلت و خواری ہیں ،آصف نسیم(سال دوم):وطن کی مٹی سے پیار،عمران پاریلہ (سال چہارم):شکار اور شکاری،ابراراحمد (سال چہارم):ایک دل ِ چسپ سفر ،انجام ، حضرت آدمؑ،محمد رمضان (سال دوم):ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق،عمران(سال چہارم):فخر چھچھ،خضر حیات (سال دوم )اپنی یادداشت بہتر بنائیں ،بلال اسلم (سال اول )تن درستی،سید علی رضا شاہ(سال سوم ):دور ِ حاضر میں در گزر کی ضرورت،دو حکایات ،نعمان علی (سال اول ):بے روزگاری اور بد امنی،ابراراحمد عمران(سال چہارم)گم شدہ بو ڑھا ،لطائف،لطیف الرحمٰن (سال اول)اقوال زریں، چند اہم معلومات ۔مشقِ سخن میں جن طلبا نے اپنی شاعری سے رنگ جمایا ہے اُن میں حصہ غزل میں تنویر احمد (سالِ چہارم)،سعد حسام(سال دوم)،عمرحیات (سال اول)،ذی شان( سال دوم )اس کے بعد حصہ نظم میں سلیمان احمد (سال دوم)،مراد علی شاہ (سال دوم) کی نظمیں قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور تخلیق کاروں کی محنت کا کرشمہ دامنِ دل کھینچتا ہے۔حصہ انگریزی میں صرف نو تحریرں شامل ہیں۔اس حصے میں بھی ذہین تخلیق کاروں نے اپنی تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا ہے ۔شفیق آر خان کا مضمون ’’Water the foundation of life ‘‘،سید علی رضا شاہ (سال سوم )کی نظم ’’Change‘‘اور Cool Facts‘‘نعمان (سال چہارم )کی تحریر ’’Canteen in the views of the students‘‘، عاقب نعمان(سال چہارم) کے منتخب اقوا ل زریں Golden words by great people‘‘محمد ادریس (سال دوم کا مضمون ’’ A wise answer‘‘ابرار احمد (سال دوم )Words denoting Collection،محمد نعمان خان (سال چہارم) کے منتخب اقوال زریں ’’Proverbs &Maxims‘‘محمد ثاقب کا مضمون ’’Why I love Shakespeare ,the great‘‘بہت عمدہ تحریرں ہیں۔

گورنمنٹ ڈگری کالج حضرو ،اٹک کے پر نسپل ،اساتذہ کرام ،سنگم کی مجلس ادارت ذہین طلبا اور قلمی معاونین دلی مبارک باد کے مستحق ہیں جن کی محنت کے اعجاز سے یہ علمی و ادبی مجلہ افق ادب پر مثلِ آفتاب ضو فشاں ہے ۔میری دعا ہے کہ یہ مجلہ اسی طرح اپنی کامرانیوں کے نئے باب رقم کرتا رہے اور نوجوان نسل کو حب الوطنی ، قومی کلچر اور قومی تشخص کے بارے میں مثبت شعور و آگہی سے متمتع کرتا رہے۔ انسانیت ،وطن اوراہل وطن کے ساتھ قلبی وابستگی اوروالہانہ محبت اس مجلے کا امتیازی وصف ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ایسے مجلات کی اشاعت ایک نیک شگون ہے ۔ آج کے دور میں سمے کے سم کے ثمر نے پورا سماں ہی بد ل دیا ہے ،مسلسل شکستِ دل کے باعث بے حسی کی فضا پید ہو گئی ہے۔ادبی مجلات کارواں کے دل میں احساسِ زیاں پیدا کرنے میں موثر کردارادا کرسکتے ہیں۔ افکارِ تازہ کی آئینہ دار تحریروں سے لبریز یہ مجلہ ہر اعتبار سے اہم ہے اوراسے حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کے جھونکے کی حیثیت حاصل ہے ۔سنگم میں شامل تحریروں کے معجزنما اثر سے یقین کی برکات پراعتماد میں اضافہ ہو گا اور شاہین بچے سعیء پیہم کو شعا ربنائیں گے۔ایسے مجلات کی اشاعت سے ادب کی ثروت میں اضافہ ہو گا اور نئی نسل کو لفظ کی حرمت کا احساس ہو گا۔ شاہین بچے اپنی انا ،قناعت ،استغنا اور خودداری کا بھرم قائم رکھتے ہوئے اِس عالمِ آب و گِل میں انسانیت کے وقاراور سر بلندی کو اپنا مطمحِ نظر بنا کر عظمتِ انساں کا علم بلند کرکے خزاں کے سیکڑوں مناظر دیکھ کر بھی یاس و ہراس کا شکار نہیں ہو ں گے بل کہ ہوائے جورو ستم میں وفا کی مشعل کو فروزاں رکھیں گے اور طلوع صبحِ بہاراں کو یقینی بنانے کے لیے جد و جہد کو شعار بنائیں گے۔تخلیقِ ادب کے وسیلے سے معاشرے میں امن ،راحت اور دل کشی پیدا کرنے کے سلسلے میں نوجوان نسل اہم کردار ادا کر سکتی ہے ۔سنگم کی صورت میں ایک ادبی مجلے کی اشاعت سے یہ نوید ملتی ہے کہ بے لوث محبت ،بے باک صداقت اور حریتِ فکر کا زم زم رواں دوا ں رہے گا اور تشنگانِ علم اس سے سدا سیراب ہوتے رہیں گے۔ قلم ،قرطاس ،تخلیق کاروں اور قارئین ِ ادب کا یہ سنگم ید بیضا کا معجزہ دکھا رہا ہے ۔دلوں کو مرکز مہر ووفا کرنے کا یہ سلسلہ لائق صدرشک و تحسین ہے۔
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 680032 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.