گلگت بلتستان میں ملکی تاریخ کے پہلے انتخابات

گلگت بلتستان کے مظلوم عوام بھی جمہوری اورقومی سیاسی دھارے میں شامل
کیا گلگت بلتستان میں مخلوط حکومت تشکیل پائے گی.....؟

گلگت بلتستان میں پہلی قانون ساز اسمبلی کے لئے ہونے والے تاریخ کے پہلے انتخابات اپنی تمامتر گہما گہمی کے بعد اختتام پذیر ہوگئے ہیں اور اَب اِن انتخابات کے بعد اِن میں حصہ لینے والی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اپنی بھرپوُر کامیابی جیسے اچھے نتائج آنے کی امیدیں بھی بن چکی ہیں اور انہیں یہ بھی پورا یقین ہو چلا ہے کہ اِن نتائج کے بعد آئندہ چند دنوں میں گلگت بلتستان میں اِن کی جماعت ہی اپنی حکومت تشکیل دے گی مگر میرے نزدیک ایسا نہیں ہے کہ کوئی بھی جماعت گلگت بلتستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں اکیلے ہی اپنی حکومت بنا سکے گی۔ یقیناً اِن انتخابات کے نتیجے میں کوئی بھی حکومت واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی اور کسی بھی جماعت کو اپنی حکومت کی تشکیل کے لئے ہارس ٹریڈنگ کرنی پڑے گی اِس طرح گلگت بلتستان میں ہارس ٹریڈنگ بھلے وہ کسی بھی شکل میں ہو ہارس ٹریڈنگ کی شکل میں جو سیاسی بازار سجے گا وہ بھی ملکی سیاست میں ایک منفی تاثر قائم کر کے ایک نیا سیاسی بھونچال پیدا کر دے گا اور اس کے ساتھ ہی ہارنے والی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اندھالی..... اندھالی کا جو سیاسی بیان بازیوں کا سلسلہ جاری ہو کر آگے چل کر سیاسی دنگل بدل جائے گا۔ اُس سے بھی ملک کے طول ارض میں ایک اور سیاسی بحران جنم لے گا۔ جو روکے بھی نہ رک سکے گا۔

اگرچہ یہاں یہ بات تو ہے کہ اب تک اِس موجودہ حکومت نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہو یا ناںدیا ہو مگر اِس حقیقت کو حکومتی حامیوں سمیت حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں اور اِس پر کھلم کھلا تنقید کرنے والوں کو بھی اب یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اِس حکومت کا یہ ایک بڑا کام ہے کہ اِس نے گلگت بلتستان جو 6اضلاع گلگت، اسکردو، دیامر، گھانچھے، غذر اور استوپر مشتمل ہے اِسے ایک خود مختار علاقہ قرار دے کر نہ صرف ملکی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا ہے بلکہ اِس حکومت نے اِس علاقے میں مکمل طور پر پُر امن انتخابات کروا کر یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ یہ علاقہ اور اس علاقے کے عوام جہاں 9زبانیں بولی جاتی ہیں اور جس کا زیادہ تر حصہ دیہات پر مشتمل ہے اِس کا بھی ملک میں جاری جمہوری اور سیاسی عمل میں اتنا ہی حصہ ہے کہ جتنا ملک کے اور دیگر علاقوں اور وہاں کے عوام کا ہے۔ اِس کے علاوہ یہ علاقہ جس کی آبادی سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 11لاکھ 4ہزار 190 نفوس پر مشتمل ہے۔ اِس علاقے میں گزشتہ دنوں پہلی قانون ساز اسمبلی کے لئے انتہائی پر امن ماحول میں انتخابات ہوئے جس سے اِس علاقے کی مظلوم عوام بھی ملکی جمہوری اور قومی سیاسی دھارے میں شامل ہوگئے ہیں۔ یہاں ہم اپنے قارئین کے لئے یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ گلگت بلتستان کی 23 نشتوں کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے قیام کے لئے ہونے والے ملکی تاریخ کے پہلے انتحابات میں مختلف سیاسی جماعتوں کے مجموعی طور 265امیدواروں نے حصہ لیا تھا اور یہ انتخابات 258 امیدواروں کے درمیان ہوئے تھے اور اِس کے ساتھ ہی جن کے بارے میں یہ بھی خیال کیا جاتا رہا کہ اِن میں 99 کا تعلق مکمل طور پر ملک کی مختلف سیاسی یا مذہبی جماعتوں سے تھا جبکہ اِن انتخابات میں 165 وہ آزاد امیدوار تھے جن کا تعلق کسی بھی سیاسی اور مذہبی جماعت سے نہیں تھا اور اُنہوں نے اپنی آزاد حیثیت سے اِس میں حصہ لے کر خود کو ملک میں جاری ایک مکمل جمہوری اور سیاسی عمل کا حصہ بنایا۔

جبکہ اِسی سرکاری اعدادوشمار میں یہ بھی واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ اِس علاقے میں 12نومبر 2009 کو پہلی قانون ساز اسمبلی کے قیام کے لئے23نشتوں کے لئے ہونے والے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 23، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 18، پاکستان مسلم لیگ (ن)کے 15،پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 14،اے این پی کے 4،جے یو آئی (ف)کے 3، تحریک انصاف پاکستان کے2، جماعت اسلامی پاکستان کے 1،اور اِس کے علاوہ قوم پرستوں کے اتحاد گلگت بلتستان ڈیمو کریٹک الائینس کے 6امیدوار اپنی پوری قوت کے ساتھ اِس امید پر اپنی سیاسی قوت استعمال کررہے تھے کہ جیسے یہ ہی سب کے سب کامیاب ہوجائیں گے اور اِس کے ساتھ ہی یہ ایک انتہائی حوصلہ افزا امر یہ بھی رہا کہ گلگت بلتستان میں قانون ساز اسمبلی کے قیام کے لئے پہلے ہونے والے انتخابات میں 3 خواتین نے بھی جنرل نشتوں کے لئے انتخابات میں حصہ لیا تھا جن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر ایل اے 23 گھانچھے 2 میں آمنہ بی بی اور دیگر دو خواتین نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے اِن انتخابات میں حصہ لے کر خود کو جمہوری عمل کا حصہ بنانے میں اپنا ایک اہم رول ادا کیا۔ جبکہ اِسی سرکاری اعدادوشمار میں یہ بھی واضح طور پر بتایا گیا کہ یہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 7لاکھ 17ہزار286 تھی جن میں مرد ووٹروں کی تعداد3لاکھ 84ہزار 909 تھی اور اِسی طرح خواتین ووٹروں کی تعداد 3 لاکھ 32 ہزار377 تھی۔

گلگت بلتستان میں ہونے والے ملکی تاریخ کے پہلے انتخابات کے لئے ایک ہزار 22 پولنگ اسٹیشنز قائم کئے گئے تھے جن میں سے 119 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا تھا اور اِن انتخابات کو ضلعی انتظامیہ نے سیکورٹی کے فول پروف انتطامات کے ساتھ صاف وشفاف بنایا تھا اور آخری اطلاعات آنے تک یہ انتخابات اپنے اپنے حلقوں میں مجموعی طور پر انتہائی پرسکون ماحول میں منعقد ہوئے تھے۔ جس کا سارا کریڈیٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتھک محنت کے ساتھ ساتھ اُن سیاسی جماعتوں کو بھی جاتا ہے جنہوں نے اِن انتخابات کو پر امن بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کر کے خود کو امر کیا۔

اگرچہ اِن انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران ایک ایسا افسوس ناک واقعہ یہ بھی پیش آیا تھا کہ جب حلقہ ایل ایف 19ضلع غذر میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے ایک امیدوار شیر بہادر ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال کرگئے تھے اِن کے انتقال کی وجہ سے 12نومبر کو ہونے والے انتخابات اِس حلقے میں نہیں ہوسکے اور اِب سرکاری اعلان یہ ہے کہ اِس حلقے کے انتخابات کو دو ماہ کے لئے ملتوی کردیا گیا ہے اور اب یہاں (اِس حلقے میں)انتخابات دو ماہ بعد اِسی پرامن طریقے سے منعقد ہوں گے جیسے گزشتہ دنوں اِن کا انعقاد کیا گیا تھا۔

یہاں راقم الحرف کے خیال سے اِس میں کوئی شک نہیں کہ گلگت بلتستان کے انتخابات کے نتائج کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے اتنے حوصلہ افزا نہیں ہوں گے کہ کوئی بھی جماعت اکیلے ہی یہاں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی جس کی اِن انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتیں امید لگائے بیٹھی ہیں مگر اتنا ضرور ہوگا کہ گلگت بلتستان میں ہونے والے تاریخ کے پہلے انتخابات کے نتیجے میں پہلی قانون ساز اسمبلی کے قیام کے لئے جو اسمبلی تشکیل پائے گی اِس سے گلگت بلستان میں مخلوط حکومت وجود میں آئے گی ۔

اور یہاں یہ بھی واضح رہے کہ گلگت بلتستان کے عوام بھی اِن انتخابات سے پر امید ہیں کہ اِن انتخابات کے بعد جو بھی حکومت تشکیل پائے گی وہ یہاں کے عوام کے لئے مسیحا ثابت ہوگی اور اِس کے علاوہ یہاں کی عوام کی قسمت کا فیصلہ بھی ترجیحی بنیادوں پر کر کے یہاں کے عوامی مسائل پر توجہ دے گی اور عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے میںمعاون اور مددگار ثابت ہوگی۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 900233 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.