پاکستانی وزراﺀ کی من مانیاں

پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک المناک باب تو یہ ہے کہ حکمران طبقات نے قومی وسائل کو بے رحمی سے لوٹا۔ یہاں سیاست دانوں کی فہرست میں دو فیصد سیاسی مہاراج ایسے ہونگے جن کے دامن پر کرپشن، لوٹ مار اور بنکوں کی رقم ہضم نہ کرنے کی تاریکیوں کے دھبے نہیں ہوتے۔ سیاسی گرگوں اراکین پارلیمنٹ اور وزیروں کی اکثریت نے آمریت سے آمریت تک اور سیاسی سے جمہوری تک کے دور حکمرانی میں قومی خزانے سے جی بھر کر اربوں اینٹھے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ یہاں سیاست تجارت کا روپ دھار چکی ہے۔ ہمارے سیاسی رھبر انتخابات میں کروڑوں روپے انتخابی مہم کے جہنم میں جھونکتے ہیں اور پھر دور اقتدار میں اپنی خرچ کردہ رقم کو سو فیصد سے ضرب دیکر حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ناسور کی شکل اختیار کرجانیوالے گھمبیر مسائل غربت بےروزگاری اور مفلوک الحالی کا راز سیاست دانوں اور صاحبان اقتدار کی ان ڈکیتیوں میں مضمر ہے جن میں عوامی فلاح و بہبود خوشحالی و ہریالی کے لئے مختص کی جانیوالی رقم کے ستر فیصد حصے پر ہاتھ پھیرا جاتا ہے۔ ہمارے وزیروں اراکین پارلیمنٹ اور لمبے بیوروکریٹس غیرملکی دوروں پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں مگر ملک و قوم کو ان دوروں سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان کے محافظین کا نعرہ لگا کر اقتدار کی راہداریوں میں پہنچنے والے سیاسی نمائندے اکثر اوقات اخلاقی گراوٹ و ذہنی جہالت کے ایسے مظاہر پیش کرتے ہیں کہ پاکستان کی عالمی دنیا میں جگ ہنسائی ہوتی ہے۔

محمد شاہ رنگیلے کی پیروی کرنے والے ماشاء اللہ تمام سیاسی جماعتوں میں وافر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ خلائی مخلوق سے تعلق رکھنے والی سیاسی و حکومتی شخصیات اٍقتدار کا ہما پہن کر گھمنڈی بن جاتے ہیں کہ دیانت دار افسران و فرض شناس سرکاری ملازمین پر اپنے غیر قانونی احکامات پر کورنش نہ بجانے کے جرم میں لاتوں گھونسوں کی برسات کرکے انسانیت کی تذلیل کرنے کو اپنی خاندانی میراث سمجھتے ہیں۔ میڈیا میں ہر روز سیاسی و حکومتی شخصیات کی شرمناک داستانیں جلی حروف میں لکھی ہوتی ہیں مگر ساتھ ہی ایک اور تردیدی خبر دیکھی جاسکتی ہے جس میں جرم کرنے والے سیاسی ولی عہد کی طرف سے ان واقعات سے لاتعلقی کا بیان قلم بند ہوتا ہے۔ میڈیا میں آجکل نواز شریف کے ہمنوا وزراء اور پنجاب حکومت کے کل پرزوں کے سیکنڈلز پے درپے سامنے آ رہے ہیں۔ ان سیکنڈلز میں کتنی صداقت ہے اسکا جواب تو نواز لیگ کے ترجمان دے سکتے ہیں مگر جو فن و کمالات اخبارات میں شائع ہوئے پر طائرانہ نظر دوڑانے سے دال میں کچھ کچھ کالا بھی نظر آتا ہے۔ شہباز شریف نے اپنے صوبائی وزیر جیل خانہ جات کو اس لئے غیر فعال کردیا کیونکہ چوہدری عبدالغفور نے بارہ مئی کو لاہور ائیر پورٹ پر کسٹم افسران کے ساتھ بدتمیزی کی اور اپنے امریکی مہمانوں کے سامان کی تلاشی کے مسئلہ پر وہ بگڑ گئے اور مہمانوں و سامان کو بغیر تلاشی ائیرپورٹ سے باہر لانے میں کامیاب ہوئے۔ جھگڑا گرین چینل سے گزرنے کی وجہ سے وقوع پزیر ہوا۔ صوبائی وزیر کا مؤقف ہے کہ گرین سگنل سے گزرنا لازمی نہیں۔ ائیرپورٹس پر گرین چینل سے گزرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسافر کے پاس کوئی قابل اعتراض چیز ہے جبکہ ریڈ چینل سے گزرنے والا مسافر یہ تسلیم کرتا ہے کہ اسکے سامان کی تلاشی ہوسکتی ہے۔

پاکستان میں کئی سالوں سے بنکاک سے آنے والے مسافر سمگلنگ کر رہے ہیں۔ یوں عالمی قوانین کے مطابق عملہ بنکاک سے آنے والے کسی سامان یا مسافر کو چیک کرسکتا ہے۔ کسٹم حکام کو خدشہ تھا کہ وزیر موصوف کے بنکاک سے آنے والے مہمانوں کے پاس غیر قانونی سامان ہے۔ اسی لئے انہوں نے تلاشی کرنا چاہی تو چوہدری صاحب طیش میں آکر کسٹم حکام پر برس پڑے۔ انہیں گالیاں دیں اور نوکری سے گو شمالی کا قصیدہ گایا۔ ائیرپورٹ کے کیمروں نے چوہدری صاحب کی توتکار و دھکم پیل ثبوت کے لئے محفوظ کرلی۔ اسی وزیر کے خلاف لاہور کے تھانوں میں عملے کو گالیاں و دھمکیاں دینے پر رپٹ درج ہے۔ تھانہ نولکھا کے انسپکٹر نوید گجر نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیر نے ایک ملزم انتظار شاہ کو فوری رہا نہ کرنے کی پاداش میں تھانے کے عملے کو ننگی گالیاں اور نوکری سے برخواست کروانے کی دھمکیاں دیں۔ لچھے دار زبان استعمال کرنے پر پولیس کے اعلیٰ آفیسرز نے وزیر کے خلاف رپٹ درج کرنے کا حکم دیا۔ جیلوں کا عملہ بھی وزیر صاحب اور ان کے ہرکاروں سے زچ آچکا ہے۔ میڈیا کو نام نہ شائع کرنے پر ایک آفیسر نے بتایا کہ چوہدری اور انکے بھائی جرائم پیشہ افراد کی سفارشیں کرتے ہیں اور انکار کی صورت میں جیل کے عملے کو غلیظ گالیاں و سفاکانہ دھمکیاں سننی پڑتی ہیں۔

حسب سابق چوہدری عبدالغفور نے بائیس مئی کو پریس کانفرنس میں تمام الزامات کی تردید کی۔ وہ اپنے آپکو پاکباز ثابت کرنے کے لئے کہتے رہے کہ انکے مہمانوں کے پاس شراب نہیں تھی۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق وزیر صاحب نے کسٹم والوں پر الزام عائد کر دیا کہ کسٹم والوں نے انکی اور مہمانوں کے ساتھ بدتمیزی کی۔ پانچ تھانوں میں اپنے خلاف رپٹ درج ہونے کے سوال کے جوابی وار میں چوہدری عبدالغفور نے یہ دلیل دی کہ وہ کھلی کچہریاں منعقد کرتے رہے ہیں۔ جہاں مظلوموں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی تلافی کے لئے خود تھانے جایا کرتے جہاں وہ ملازمین کی ڈانٹ ڈپٹ کیا کرتے تھے۔ یوں انکے خلاف رپٹ درج کی گئی۔

چوہدری عبدالغفور کی فنکاریوں کی انکوائری کے لئے مسلم لیگ نے ایم حمزہ، غلام دستگیر خان اور سابق آئی جی شوکت جاوید پر مشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل دی۔ چوہدری نے کمیٹی کے روبرو اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔ یہاں بھی انہوں نے کسٹم حکام کی بدتمیزی کو اچھالنے کی کوشش کرتے رہے۔ انہیں اپنے کارنامے کی وڈیو ٹیپ بھی دکھائی گئی مگر پھر بھی وہ سارا نزلہ سرکاری عملے پر ڈالتے رہے۔ بائیس مئی کو انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں جو دلائل دئیے تھے وہ انکوائری کمیٹی کے دلائل سے متضاد تھے۔ اٍس سے قبل نواز شریف نے اپنی جماعت کے ایم این اے پرویز خان کو محض اس وجہ سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا کہ امتحانی پرچوں میں پرویز خان کی بجائے اسکا بھائی قابلیت جھاڑ رہا تھا۔ علاوہ ازیں آجکل میڈیا میں تواتر کے ساتھ شائع ہونے والے کلثوم بلوچ اور فضل عباس کیس میں ضلع جھنگ کے ایم پی اے افتخار بلوچ کا نام گونج رہا ہے۔ آن لائن نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق کلثوم بلوچ نامی لڑکی نے سرگودھا کے کھوکھر خاندان کے نوجوان فضل عباس کے ساتھ خاندانی روایات کے برعکس شادی کی۔ شادی کرنے والی کلثوم بلوچ نے بتایا کہ میرے کزن ایم پی اے افتخار بلوچ نے میرے سسرالیوں کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ ایم پی اے نے فضل عباس اور واسکے فیملی ممبرز پر جھوٹے مقدمات درج کروا دئیے۔ اسی طرح شہباز شریف کے معاون خصوصی منور گل کے خلاف طاہرہ پروین نے نصیر آباد تھانے میں ایف آئی آر درج کروائی۔ مدعی طاہرہ پروین نے بتایا کہ پسرور میں ہماری جائیداد کا کیس چل رہا ہے، منور گل ہمارے مخالف گروپ کی ناجائز امداد کر رہا ہے۔

صاحبان اقتدار چاہے نواز لیگ کے ہوں یا پی پی کے وہ ایم کیو ایم کے پجاری ہوں یا ق کے فرزانے اپنے آپکو عقل سمجھ کر قانون کی دھجیاں آڑاتے ہیں۔ افسروں و تھانیداروں کو فحش گالیاں دیتے ہیں۔ یہ ٹولہ قانون و آئین کو گھر کی باندی اور سرکاری ملازمین کو اپنا نوکر چاکر سمجھتے ہیں۔ قومی وسائل کو باپ دادا کی میراث سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی افراد چاہے جتنی لوٹ مار کریں اور چاہے قانون کے پرخچے اڑاتے رہیں اٍنہیں نہ تو کوئی روکنے والا ہے یا ٹوکنے والا۔ نواز شریف نے پرویز خان کو مستعفی اور شہباز شریف نے چوہدری عبدالغفور کو غیر فعال کر کے اچھی روایت قائم کی ہے۔ سپریم کورٹ کو اپنی نگرانی میں ایک ایسا احتساب بیورو قائم کرنا چاہیے جو سیاسی و حکومتی لیڈروں کو بھی قانون کے شکنجے میں لائے۔ یاد رہے ٹیگور نے درست ہی کہا تھا کہ جس سماج میں قانون کا کوڑا صرف کمزوروں پر برستا ہو وہاں کبھی جمہوریت نہیں پنپ سکتی۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 90599 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.