اسلام آباد کو حکومت نے بلا آخر
فوج کے حوالے کردیا اور یہ اقدام اپنے ہی شہریوں کی اسلام آباد آمد کے پیش
نظر کیا گیاہے خود کو جمہوریت کے چیمپین کہنے والے حکمرانوں نے یہ فیصلہ
تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے ڈر سے کیا ہے دوسری جانب ڈاکٹر طاہرالقادری کے
انقلاب کے اعلان نے حکمرانوں کے دن کا چین اور رات کی نیند اڑا دی ہے ،اب
تو مسلم لیگ ن کی قیادت جو خودکو دنیا کی اعلی ترین مخلوق اور کارکنان کو
اپنے زرخرید غلام سمجھتے تھے اب تو انکے وارے بھی نیارے ہو گئے ہیں کہ حمزہ
شہباز شریف یہ فرمانے پر مجبوراٰ پکار اٹھے کہ مسلم لیگی کارکنان کو اعلی
عہدوں پر تعینات کیا جائے گا دوسر ی طرف ریلوے کے وفاقی وزیرخواجہ سعد رفیق
نے بھی عوام کی توجہ لانگ مارچ سے ہٹانے اور طاہر القادری کے انقلاب کے ڈر
سے پورا مہینے میں جشن آزادی کی تقریبات مناناشروع کر دی ہیں۔
اسے بیوقوف بنالو اور یہ فائدہ حاصل کرلوپتہ نہیں ہم مسلمان کو کیا ہو
گیاہے ایک دوسرے سے سبقت لیجانے میں اس قدر مصروف ہیں کہ نہ ہمیں دین کی
خبر رہی نہ آخرت کی ،فکرکلمہ کے نام پر حاصل کیے جانیوالے اس پاکستان میں
ہر طرف انارکی اور افراتفری کا ماحول ہے ، حکمران اپنے اقتدار کوپکا کرنے
میں مصروف ہیں جبکہ اقتدار سے محروم سیاستدان اقتدار کے حصول میں دن رات کو
شاں ہیں مسلم لیگ ن نے عام انتخابات میں بہت سے نعرے اور بہانے لگا کر ووٹ
مانگے اور پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کی طور پراقتدار حاصل کیا ، میاں
نواز شریف وزیراعظم پاکستان بنے جبکہ انکے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف
وزیراعلی پنجاب بلکہ خادم اعلی بن کر عوامی خدمت میں مصروف ہیں وہ بھرپور
عوامی تقریروں ، جوش ولولہ،اور عوامی نبض پر ہاتھ رکھنے میں ماہر ہیں ملک
میں آنیوالی ہر آفت کامقابلہ کرنے اور عوام کا مورال بلندکرنے میں اپنا
ثانی نہیں رکھتے پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے دوران لوڈشیڈنگ کیخلاف بھرپور
تحریک چلا کر اس حکومت کی مت مارنے والے خادم اعلی پنجاب نے جوش خطابت میں
کئی ایک اعلانات فرمائے کہ لوڈشیڈنگ اتنے دنوں میں ختم نہ کی تو میرانام
بدل دینا یہ نا کیا تو وہ کر دینا مگر بقول دیگر جماعتیں اس الیکشن میں بد
ترین دھاندلی کی ہے اور کہنے والے تو کہتے ہیں کہ سابق چیف جسٹس افتخار
محمد چوہدری نے میاں محمد نواز شریف کا الیکشن میں ساتھ دیکر قرض اتارا ہے
اقتدارکی خواہش ایسی ہے کہ انسان اسے بچانے کیلئے آخری حد تک جاتا ہے اسلام
آبادمیں محض اقتدار کیلئے فوج کی طلبی نے عام شہریوں کے زہنوں میں بھی کئی
سوالات پیداکردئیے ہیں -
آخر حکومت اس قدر خوف کا شکا ر کیوں ہے کیا ڈاکٹر طاہر القادری اتنا
طاقتوار ہو گیاہے کہ اس کی آمد پر بدترین ظلم و بربریت کی انتہا ء کی گئی
انقلاب کے نام پر انکے درودیوار کیوں لرزنے لگتے ہیں عمران خان کے کہنے پر
چار حلقوں کے ووٹ کس ڈر سے چیک نہیں کیے جاتے کیس عدالتوں میں کیوں پڑے ہیں
ان پر فیصلے کس ڈر کی وجہ سے نہیں ہو رہے عوام کے حقوق کی بات کرنیکا حق
محض مسلم لیگ ن کے پاس ہی ہے کیا یہاں فساد اور انارکی ڈاکٹر طاہر القادری
اور عمران خان ہی پھیلا رہے ہیں اور شیخ رشید ، چوہدری پرویز الہی ، شجاعت
حسین ودیگر کو اپنی بات کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں وہ پاکستان کے شہری نہیں
ہیں اور اگر وہ پاکستانی ہیں تو انہیں بھی حق حاصل ہے کہ وہ لوڈشیڈنگ کے
نام پر عوام کو گھروں سے باہر نکالیں جلسے جلوس نکال کر اپنی سیاست
چمکائیں، مینار پاکستان پر ٹینٹ لگاکر اجلاس کریں اور ہاتھ والے پنکھے
ہلاکر آپکو آپکے وہ وعدے یاد دلائیں تاکہ آپکو بھی احساس ہو کہ جب جس کا
مینڈٹ ہو اسے موقع دینا چاہیے ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچنی چاہیں محض
اقتدار کیلئے گالیاں دینا اور ڈرامے بازیاں نہیں کرنی بلکہ احتجاج توہرشخص
کا حق ہے اور جھوٹ منافقت چھوڑ کرمسلم لیگ ن کی حکومت کو شہریوں سے معافی
مانگ لینی چاہیے اور خدمت کرکے عوام کو اگر ڈلیور کر دیا جائے تو پھر کوئی
ڈر خوف نہیں ہوتا مگر جب اقتدار کو لوٹ مار اور منافقت ، جھوٹ کا مرکز بنا
لیا جائے تو پھر انقلاب آتے ہیں حکومتیں جاتی ہیں اور عوام کو اس سے کوئی
غرض نہیں ہوتی کہ انقلاب اور عوام کی بات کرنیوالا ڈاکٹر طاہر القادری ہے
یا عمران خان چالاکیاں اور عیاریوں سے دنیا کو تو بیوقوف بنایا جاسکتا ہے
مگرآخرت میں مرنے کے بعد وہاں اپنے اعمال کا خود حساب دینا ہے وہاں اقتدار
صرف خدا کا ہے اور وہاں کوئی جھوٹ نہیں بولتا نہ غلط وعدے کیے جاتے ہیں - |