افغانستان کی کینہ پروری

حضرت علیؓ کا قول ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو،ان کی بات پتھر پر لکیر کی طرح سچ ہے،مگر اس بات کے اصل حقائق کیا ہیں یہ ہمارے علم سے باہر ہے ،اسی بات کو بہت سے شاعروں نے اپنے اشعار میں بھی بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے ،کسی نے کیا خوب کہا کہ جن پتھروں کو ہم نے بخشی دھڑکنیں ۔۔جب ان کو زبان ملی تو ہم پر برس پڑے۔آپ نے یہ تو سنا ہوگا کہ فلاں انسان بڑا حسان فراموش ہے،فلاں آدمی بڑا بے وفا ہے، بے وفا تو آپ کو بہت یاد ہوگا،بے مروت ہے،بڑا بے دید ہے، اس طرح کے بہت سے الفاظ ایسے شخص کے لئے بولے جاتے ہیں جو سفید خون رکھتا ہو،جو لالچی ہو، جو اپنے مفاد کی خاطر تعلق رکھتا ہو، ایسے آدمی کے لئے بے عزتی کے جتنے الفاظ بولے جائیں کم ہیں۔یہ تو ایک آدمی کی بات تھی مگر آپ نے ایسے ملک نہیں دیکھیں ہونگے جن میں یہ تمام باتیں پائی جائیں،یعنی کہ وہ احسان فراموش بھی ہو، بے مروت بھی،مطلب پرست بھی،میں آپ کو بتاتا ہوں، ایسا بے دید ملک،روس نے جب اپنی طاقت کے نشے میں افغانستان کو کمزرو سمجھ کر اس پر چڑائی کی تھی تو وہاں سے لاکھوں افغانی بھاگ کر پاکستان اور کشمیر میں آئے تھے،پاکستان، اور کشمیر نے ان کو انسانی ہمدردی ۔بھائی چارے،اور برادر ملک ہونے کے ناطے اس کے لوگوں کو دل کھول کر نہ صرف پناہ دی تھی بلکہ ان کو اپنے اپنے گھروں میں بھی جگہ دی تھی،مجھے آج بھی یاد ہے کہ ایک درجن افغانی ہمارے گھر ٹھہرے تھے جو آج تک یہاں ہیں بلکہ اب تو مقامی بھی بن گئے،یہاں ان کے بڑے بڑے کاروبار چل رہے ہیں،یہی نہیں بلکہ پاکستانی عوام نے اپنی جانیں تک اس کے لئے قربان کی،ہر طرح کی اخلاقی، انسانی اور جو ممکن ہو سکتی تھی اس کی مدد کی اور ایک وقت ایسا آیا کہ روس کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے،یہ کوئی ایک افغانستان کا کمال نہیں تھا بلکہ اس میں پاکستان برابر کا شریک تھا ،یہ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے افغانیوں کے لئے کیا کیا نہیں کیا،وہ دن اور آج کا دن کسی افغانی کے پاس کوئی ویزہ ،کوئی قانونی کاغذات یا کوئی ثبوت نہیں ہوتا وہ پاکستان ایسے آتا جاتا ہے جیسے کوئی اپنے گھر جاتا ہے،بلکہ پاکستان کے راستے ان کی قانونی اور غیر قانونی تجارت بھی جاری ہے، اور یہ بھی سب جانتے ہیں اور دنیا کو پتہ ہے کہ افغانستان میں جانے کے لئے بھی کسی نے کوئی پاسپورٹ نہیں بنوایا اور نہ ویزہ لگوایا،ہاں بس ایسے ہی کاروائی پوری کی،یہ تو اس کی بدقسمتی ہے کہ وہاں آج تک امن قائم نہیں ہو سکا اور نہ کبھی ہوگا، روس کے بعد بھی ان کی خانہ جنگی جاری رہی ،اور اس بہتی گنگا میں امریکہ نے بھی اپنے اسلحے کے نئے تجربات کئے، امریکہ نے بھی اس میں منہ مار کے دیکھ لیا اسے بھی کچھ حاصل نہ ہوا اور اب وہ بھی دانت کھٹے کر کے کسی نہ کسی بہانے جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ہاں تو بات ہو رہی تھی اس کے ا حسان فراموشی کی، حال ہی میں پاکستان کے قبائلی علاقے سے ایک ٹی وی چینل کا صحافی جس کا آدھا خاندان افغانستان میں رہتا ہے ،فیض اﷲ جو کے افغانستان کی سرحد کراس کر گیا یا وہ اپنی رپورٹنگ کر رہا تھا اس کو افغان انٹیلی جنس نے اغواہ کر لیا،جب اس کا شور مچا تو یہ الزام لگایا گیا کہ یہ جاسوسی کر رہا تھا اور پکڑا گیا،کچھ دن بند رہنے کے بعد جب سفارتی سطح پر کوشش کی گئی تو پتہ چلا کہ افغانستان کی حکومت نے اس کو جاسوسی کے جرم میں چار سال کی قید سزا دے دی۔یہ بات کسی لطیفے سے کم نہیں،سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی سرحد ہے ہی کہاں کہ اس کو عبور کیا گیا، دن کو ہزاروں لوگ یہاں سے آتے جاتے ہیں، دوسری بات کہ وہاں پرجاسوسی کے لئے کیا تھا،وہاں جو کچھ ہو رہا ہے سب کو پتہ ہے طالبان دن کو دس بار آتے جاتے ہیں،یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہزاروں افغانی غیر قانونی طور پر پاکستان میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ یہاں انہوں نے اپنے گھر بنا رکھے ہیں ،کام کر رہے ہیں،پاکستان نے ان کو تو نہیں بند کیا ،اور نہ جاسوسی کا الزام لگایا،فیض اﷲ جو کہ ادھا افغانی تھا اس کو پاکستانی ہونے کی سزا دی گی ،اسی لئے کہتے ہیں کہ میری بلی مجھے میاوں،افغانستان اگر ساری زندگی غلامی تو وہ امریکہ کی کرتا ہے نوکری پاکستان کی کرتا رہے تو یہ ا حسان نہیں اتار سکتا،اس نے اپنی اصلیت دیکھائی، اس کے دل میں جو کینا تھا وہ سامنے آیا،پاکستانی میڈیا نے اس بات کو قانونی طور پر تسلیم کیا کہ اس نے غلطی سے سرحد پار کی وہ اپنا کام یعنی رپورٹنگ کر رہا تھا،پاکستانی میڈیا سفارتی سطح پر اپنے نمائندے کو آزاد کروانے کی کوشش کر رہی ہے،مگر افغانستان کی طرف سے عجیب عجیب بیانات آتے ہیں کہ اس نے یہ کر دیا وہ کر دیا۔یہ قانون، سرحد، جاسوسی،خلاف ورزی،یا اس طرح کے تمام وہ الفاظ جو کسی مہذب ملک کی سرحدی خلاف ورزی پر استعمال ہوتے ہیں اس کی لاج رکھنے کے لئے یا کوئی بحث کرنے کے لئے بولے جاسکتے ہیں مگر زمینی حقائق کیا ہیں یہ افغانسان بھی جانتا ہے اور پاکستان بھی، اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ تمام سنگین خلاف ورزیاں ہوئی ہیں جس کے طور پر فیض اﷲ کو اغواہ کیا گیا تو کیا پاکستان کو اس بات سے اگاہ نہیں کیا جا سکتا تھا؟ کیا کوئی وارنگ نہیں دی جا سکتی تھی، یہ کونساامریکہ ، اسرائیل یا انڈیا کی سرحد تھی کہ دشمنی کے طور پر ایسا کیا گیا ،پاکستان تو افغانستان کا دوسرا گھر ہے۔کہتے ہیں کہ اگر دنیا سے بے وقوف ختم ہو جائیں تو بازاروں سے بے کار مال کون خریدے، اسی طرح اگر سارے ہی نیکی یاد رکھنے والے ہوں تو پھر بُرا کوئی کس کو کہئے،پھر احسان فراموش کا لفظ کس کے لئے استعمال ہو۔کہتے ہیں ٹوٹا ہوا برتن گھر کے برتن ہی توڑتا ہے۔ چلے اسی بہانے اس کی ایجنسیاں بھی خوش ہو جائیں کہ ہم نے بڑا تیر مارا،اور پاکستان کی سفارت کاری کا بھی پول کھل کے سامنے آگیاآپ افغانستان جیسے ملک سے اپنا بندہ نہیں چھوڑا سکتے،تو کروڑو عوام یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ امیریکہ سے داکٹر عافیہ کو چھوڑیا جائے،یا سینکڑوبے گناہ پاکستانی جو گونتا نوموبے میں قید ہیں ،یا انڈیا میں جوبے گناہ بند ہیں ان کی رہائی کی آس لگائے ہوئے ہیں۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75042 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.