مذمت لفظ جو کہ اپنے معنی کھو چکا ہے ابھی نہ اس کاکوئی
اثر باقی ہے نہ ہی کوئی رنگ بلکہ اس کاوجود ہی مٹنا چاہئے کیونکہ بات اس سے
آگے کی ہے بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ نیوٹن بابا کا ایک قانون لاء آف موشن
ہے جس کے مطابق ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے اور سمت میں مخالف لیکن بحر
لہو غزہ میں یہ قانون بھی اپنا سر پیٹ پیٹ کر نوحہ کناں ہے کہ ناجائز
صیہونی اقدامات نسل کشی ظلم و ستم بر بریت، سفاکیت سر چڑھ کر بول رہی ہے
اور ساری دنیا خصوصاً اسلامی دنیا سے اسی حساب کا کوئی رد عمل نہیں آ رہا
ہے صیہونی حکومت کایہ اقدام انسانی تاریخ کا ایک ایسا عظیم المیہ ہے جس کی
نظیر نہیں ملتی۔ ہونا تویہچاہئے کہ اس کے مجرمین اور حامیوں پر ایک اعلیٰ
عالمی انسانی عدالت میں مقدمہ چلا کر کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
فلسطینی عوام جو اپنے برحق ہونے پر استقامت اور شجاعت کا سر فخر سے بلند کر
رہے ہیں اور بحر لہو میں اتر اتر کر اپنی عزت ، ناموس، خود مختاری اور مادر
وطن کا دفاع کر رہے ہیں۔
ادھر صہیونی حکومتوں کی جارحیت جاری ہے دن ہو یا رات جارحیت کے خوف تلے
قیامت کے دن رات گزر رہے ہیں غاصب صہیونی طیارے موت کا سامان لے کر کسی نا
گہانی آفت کی طرح بے گناہ انسانوں کو لہو میں نہلاتے ہیں اور چپے چپے پر
قہر ڈھا کر چلے جاتے ہیں ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی بے گناہ انسان بے گھر
ہو رہے ہیں ہزاروں کی تعداد میں زخمی اور شہداء کی تعداد 16سو سے تجاوز کر
چکی جبکہ عالمی ادارے ناجائز اسرائیل کے حق میں لب کشائی کر رہے ہیں دوسری
طرف ساری دنیا میں با ضمیر انسان ان بے گناہوں کے حق میں آواز بلند کر رہے
ہیں۔
اب بات کرتے ہیں اسلامی دنیا کی جہاں پر چند حکرانوں نے اس قیامت کے ڈھائے
جانے پر صہیونیت کا خوب ساتھ دیا جن میں قطر عرب امارات ترکی سر فہرست ہیں
چند اسلامی ممالک بشمول پاکستان کے سر براہوں نے چند مذمتی بیانات دے کر
اپنا فرض ادا سمجھا اور چند ہزار لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر اپنا فرض ادا
سمجھا ایسا کیوں ہے۔ ہمیشہ ایسا کیوں ہو تا ہے۔ چند مذمتی بیانات دے کر
اپنا فرض ادا کیوں سمجھا جاتا ہے کیا اس سے فرض ادا ہو تا ہے؟ نہیں ہوتا
بالکل بھی نہیں ہو تا، کیا واقعی میں ہم بے ضمیر اور بے حس ہو چکے ہیں ساری
دنیا میں اسلام اور مسلمان بد نام ہو رہے ہیں اور کیوں نہ ہوں ہم آپس کے
گروہوں میں بٹ کر لڑ رہے ہیں ہمارے علماء بک گئے ہیں ہمارے حکمران حکمرانی
کے نشے میں بد مست ہاتھی کی طرح مست ہو چکے ہیں چور بازاری گرم ہے اور اپنے
صہیونی آقاؤں کے ہاتھوں خود کو بیچ کر ان کی لونڈیوں اور باندھیوں کا کردار
ادا کر رہے ہیں اپنے ضمیروں کا سودا کر کے خالی جسموں کے قبرستانوں میں خود
کو دفن کر چکے ہیں کیا ہم مسلمان ہیں، کیا ہم انسان ہیں ہمیں کوئی فرق کیوں
نہیں پڑتا ہم اتنے بے حس بے ضمیر کیوں ہو گئے ہیں فلسطین عراق شام
پاکستان،افغانستان بحر لہو میں غرق ہو رہے ہیں ہمیں شرم کیوں نہیں آتی ہے،
ہماری غیرت کہاں چلی گئی، کیا ہمیں معصوم بچوں اور خواتین کی لاشیں نظر
نہیں آتی ہماری آنکھوں پہ کونسے پردے آ چکے ہیں، حوا کی ایک بیٹی نے پکارا
تو محمد بن قاسم کہاں سے کہاں چلا آیا اور غزہ کی معصوم بیٹیاں پکار رہی
ہیں ان کی پکار ہمیں سنائی کیوں نہیں دیتی ، صہیونی لشکر نے غزہ میں ایک ہی
دن سینکڑوں ہوا کی بیٹیوں کی عصمت دری کی اور وہ ہمیں پکارتی رہ گئیں ہم
کھلے آنکھوں سے دیکھا کھلے کانوں سے سنا اور کھلے دل سے قبول کر کے اپنی
غیرت کا جنازہ نکال کر بے غیرتی کے بحر ظلمات میں بہا کر بے شرمی سے لوٹے
اور خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔
قطر عرب امارات اور چند مسلمان ممالک وحشی صہیونی حکومتوں سے رابطے بڑھا کر
ان سے ہر سطح پر تعاون کر رہے ہیں۔ غزہ پر صہیونی حکومتوں کی جارحیت کے
موقع پر قطر اور صہیونی حکومت سکیورٹی اطلاعات کے تبادلے کے شعبے میں تعاون
کر رہے ہیں اس تناظر میں اسرائیل کے فوجی افیسر قطر کے آفیسرز کو تربیت
دینگے پچھلے دنوں ایک صہیونی نیوز چینل جو کہ ٹو کے نام سے مشہور ہے نے
انکشاف کیا ہے کہ حکومت امارات غزہ پر حملوں کے حوالے سے پہلے سے آگاہ
تھیں، اور امارات کے حکمران حامی تھے اور مکمل حمایت کی تھی صہیونی حکومت
اور متحدہ عرب امارات نے غزہ پر حملے کی سازش تیار کی تھی ایجنڈے کے مطابق
حماس کے وجود کو مکمل طور پر نابود کرنے کے بارے میں صلح مشورہ اور ملاقات
کی تصدیق کی ہے کیونکہ حماس اخوان المسلمین سے قریبی تعلقات رکھی تھی لہٰذا
امارات اس کی نا بودی کی خواہاں تھی۔ قدس ٹی وی کے مطابق صہیونی وزیر خارجہ
نے اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداﷲ ابن زید النہیان سے پیرس
میں ملاقات کی تھی اس ملاقات میں ان دونوں شیطانوں نے تحریک حماس کو مکمل
طور پر نابود کرنے کی سازش رچی تھی جس کے بعد فلسطین غزہ میں قیامت کے
نظارے ہیں ہر لمحہ ہر گھڑی موت کا رقص جاری ہے مشرق وسطیٰ کیلئے اقوام
متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے نمائندے ہیثم ابو لصعید نے ایک بیان میں یہ
بھی انکشاف کیا ہے کہ صہیونی حکومت کیمیاوی ہتھیاروں سے حملے کر رہی ہے اور
شیطان بزرگ امریکہ نے ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی اپنی ناجائز اولاد اسرائیل
کی مدد کیلئے اسلحہ اور فنڈز دینے کا اعلان کیا ہے ادھر سامع شکری چیخ چیخ
کر یہ کہہ رہے ہیں کہ قطر اور ترکی نے غزہ میں جنگ بندی کے لئے ہونے والے
کوششوں کو سبوتاژ کیا ہے۔ یہ ہے مسلمان ممالک کا کردار۔
صہیونی حکومتوں کا وجود ظلم و ستم بر بریت غارتگری پر ہمیشہ سے استوار رہا
ہے اور اکثر برائے نام اسلامی ممالک بھی ان کے ساتھ قدم قدم سازشیں رچا رہے
ہیں اور یہ ظالم لوگ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے مسلمانوں کو آپس میں
لڑا کر طرح طرح کے فتنے بر پا کر رہے ہیں آج ساری دنیا میں مسلمان ابتری کا
شکار ہیں پاکستان عراق،شام،بحرین، افغانستان میں اسلام کے نام پر مسلمانوں
اور اقلیتوں کا قتل عام ہے جن کا مقابلہ کرنے کیلئے حقیقی اسلامی ممالک کو
سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے اور اپنی تمام تر توانائیاں صلاحیتیں اور
بصیرت سے سامراجی قوتوں کو پہچان کر اتحاد کے ذریعے فتنوں کو نا کام بنانے
کی ضرورت ہے۔ |