الیکشن اور لانگ مارچ کی سیاست

ملک میں الیکشن کا اعلان ہوتے ہی ہمارے سیاستدانوں اپنے محل نما گھروں سے نکل آتے ہیں اور پھر جنازوں شادیوں اور تقریبات میں چاہے کوئی بلائے نہ بلائے وہ شامل ہونا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔

ہم ملک کو عظیم سے عظیم تربنائیں گے ہم ملک کو ایشیا ء کا ٹائیگر بنائیں گے ، ہم تبدیلی لائیں گے ہم غربت دور کریں گے یہ وہ دلفریب نعرے ہیں جو ہماری عوام ہر الیکشن میں سنتی ہے اور پھر بہت جوش و خروش سے ووٹ ڈالتی ہے۔الیکشن کی رات رزلٹ آنے تک امیدوار اپنے ووٹرزر پر وارے وارے جاتے ہیں۔ کھانوں اور انتخابی دفتر کی رونقیں دیکھنے کے لا ئق ہوتی ہیں۔جوامیدوار جتنا پیسہ خرچ کرتا ہے اس کی اتنی واہ واہ ہوتی ہے۔مجھے ایک ایسا امیدوار بھی یاد ہے جس نے الیکشن کے دن کے لیے جو ٹرانسپورٹ اور ایجنٹ بننے کے لیے جو لوگ معاوضہ پر حاصل کیے تھے وہ ہارنے کے بعد ان لوگوں کو معاوضہ دینے سے انکاری ہو گیا تھا۔ایک نے تو حد ہی کردی تھی الیکشن مہم میں جو آٹے کے تھیلے اس نے غریب لوگوں میں ووٹ کے لیے تقسیم کیے تھے جب وہ ہارا تو اس کا کارندوں نے وہ تھیلے لوگوں کے گھروں سے واپس اٹھوا لیے تھے۔

ادھر قوم کے ٹیکس کے پیسے سے اربوں روپے الیکشن پر خرچ ہوتے ہیں۔پھر ایک سیاسی جماعت کو برتری حاصل ہوتی ہے ۔ اور کچھ جماعتیں اپنے تمام تر دلفریب نعروں کے باوجود اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہیں ۔ جس کو وجوہات میں دھاندلی ۔امیدوار کا ذاتی قول وفعل ،ذات برادری ۔ پارٹی ۔ اور کس نے کتنے پیسے خرچ کیے۔یہ سب شامل ہوتی ہیں۔پھر ایک حکومت بنتی ہے اور ایک اپوزیشن جیتنے والے خوشیا ں مناتے ہیں اور ہارنے والے اگلے الیکشن پر نظر رکھ لیتے ہیں۔لیکن سیاستدان ہو اور اس کو چین آجائے یہ ممکن نہیں۔

پھر ایک دم کچھ عرصہ بعد ہی عوام کو ایک نیا نعرہ دیاجاتا ہے کہ یہ حکومت کرپٹ ہے اس لیے اس کو اب چلتا کرنا ہے یہ حکومت جائے گی تو اس کے بعد ہم آکر اس ملک میں دودھ کی نہریں بہا دیں گے ۔

پھر جلسے جلوس دھرنوں اور احتجاج کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ کوئی اس کو دھرنے کا نام دیتا ہے کوئی اس کو لانگ مارچ کا نام دیتا ہے اور کوئی ملین مارچ کا نا م دیتا ہے۔

مجھے ایک دفعہ ایک ٹیکسی والے کی بات بہت پسند آئی کہ جنا ب مجھے 20سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے ٹیکسی چلاتے ہوئے اور میر ی گاڑی میں شاید ہی کوئی ایسا بندہ بیٹھا ہو جو موجودہ حکومت سے خوش ہو۔

ہم مارشل لاء میں اور فوجی دور حکومت میں جمہوریت کو سب سے بہترین کہتے ہیں اور جمہوری حکومت میں مارشل لاء لانے کے لیے وہ تمام کام کر جاتے ہیں جس کا یہ ملک کبھی متحمل ہو ہی نہیں سکتا ۔

مجھے اپنے سیاستدانوں پہ حیرت ہوتی ہے کہ الیکشن کے دنوں میں کچھ مشہور سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ کے لیے پہلی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور جب کسی وجہ سے پارٹی کا ٹکٹ نہیں ملتا تو دوڑ کا دوسری پارٹی میں شامل ہونے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے بلکہ جس پارٹی کے ٹکٹ کے حصول میں وہ پہلی صف میں کھڑے ہوتے ہیں جب اس پارٹی کا ٹکٹ نہیں ملتا تو وہ اس پارٹی کو ملک کے لیے زہر قاتل سمجھتے ہیں ۔

کبھی اس ملک میں جمہوریت آئی اور کبھی مارشل لاء۔ جمہوریت اور مارشل لاء کی آنکھ مچولی قیام پاکستان سے لے کر ابھی تک جاری ہے ۔

1992میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پہلا لانگ مارچ ہوا جو اپنے مقاصد تو حاصل نہ کر سکا مگر اسی جدوجہد کے نتیجے میں کچھ عرصہ بعد ہی میاں نوازشریف کی حکومت کو گھر کی راہ دیکھنی پڑی۔اسی لانگ مارچ میں بڑ ی بڑی قد آور سیاسی شخصیات شامل تھیں۔جن میں مرحوم نوابزادہ نصراﷲ خان ، مرحوم قاضی حسین احمد ،غلام مصطفے جتوئی شامل تھے۔

اسی ملک میں مر حوم قاضی حسین احمد کی قیادت میں جماعت اسلامی کی طرف سے اسلام آباد کی طرف ایک بڑا دھرنا دیا گیا ۔دھرنوں ، لانگ مارچ ، احتجاج اور مارو اور مر جاؤ کا یہ سلسہ جار ی رہا اور جار ی اور ساری ہے۔ایک لانگ مارچ میاں محمد نواز شریف نے اور وکلاء نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لیے بھی کیا تھا ۔

11مئی 2013کو پھر ایک دفعہ عوام کو سنہر ے خواب دکھا کر ہمارے سیاستدان میدان میں اترے اور ہر پارٹی اپنے اپنے حصہ کی سیٹیں لے کر اقتدار کی مسند پر براجمان ہوگئی۔ابھی اس حکومت کو بنے مشکل سے ایک سال کا ہی عرصہ ہوا ہے اور ہمارے بے چین سیاستدانوں نے ایک دفعہ پھر عوام کو لانگ مارچ جس کا نیا نام آزادی مارچ ہے اس کے لیے تیار کرنا شروع کر دیاہے ۔

قطعاً نظر اس کے کس سیا سی پارٹی کو موجودہ حکومت سے کتنی شکایت ہے۔ میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ 63سالوں میں ہونے والے احتجاج سے غریب عوام کو کیا ملا صرف لاٹھیاں گولیاں خالی نعرے اور پھر اس کے بعد وہی غربت وہی ذلت عوام کا مقدر ہے۔

کیا ہماری عوام صرف ڈنڈے کھانے اور مہریں لگانے کے لیے رہ گئی ہے۔

میں اپنے انتہائی محترم سیاستدانوں سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ آئیں خدا کے لیے ایک لانگ مارچ عدالتی نظام کی بہتری کے لیے کریں ۔ایک لانگ مارچ کرپٹ سسٹم سے نجات اور تھانہ کلچر کی بہتری کے لیے کریں ۔کاش ہمارے سیاستدان ایک لانگ مارچ تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے بھی کریں۔ ایک لانگ مارچ اس ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور لاقا نونیت کے خلاف بھی ہونا چاہیے ۔ دہشت گردی اور کرپشن نے اس ملک کو تباہ کر دیا ہے ایک لانگ مارچ اس کے لے بھی ہونا چاہیے ایک لانگ مارچ اس ملک میں غریب کی بہتری کے لیے بھی ہونا چاہیے۔لوڈ شیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے کیا کسی نے کرپٹ واپڈا کے خلا ف کبھی احتجاج کیا۔

ہر دفعہ ہمارے سیاستدان اپنی اقتدارکی حوس کے لیے ہی لانگ مارچ کیوں کرتے ہیں۔ کیا اس ملک کے عوام کے مقدر میں صرف نعرے لگانا اور لاٹھیا ں کھانا ہی رہ گیا ہے۔کیا ہم نے نہیں سیکھا مصر اور لیبا سے وہاں بڑے بڑے احتجاج ہوئے ۔ اور حکومتیں چلتی بنیں مگر آج وہاں دیکھ لیں جو حالات ہیں وہاں معاشی حا لت پہلے سے بھی بدتر ہے اور لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔

Zaheer Babar
About the Author: Zaheer Babar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.