ریا کے دورمیں سچ بول تو رہے ہو مگر

حقائق سے روگردانی بھی ایک بہت بڑاجرم ہے۔ہم میں ایک طبقہ اب بھی ایساموجودہے جس کاخیال ہے کہ عجم سے ایک ابن قاسم غزہ کے ساحلوں پراترے گااورصہیونی یروشلم خالی کرکے بھاگنے پرمجبورکردیئے جائیں گے۔۱۹۴۸ء سے اب تک ہم اپنی یہ نفسیاتی گرہ نہیں کھول سکے ۔۱۹۴۷ء میں جب امریکا اور برطانیہ کی سرپرستی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کوتقسیم کیاتواس وقت فلسطین کے صرف ۵․۶فیصدعلاقے پریہودی آبادتھے لیکن فلسطین کا۵۵فیصدرقبہ یہودیوں کودے دیاگیا۔عربوں نے اس فیصلے کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا،جنگ کی تیاری نہیں تھی ،صرف جذباتیت تھی ۔عربوں کی فوج میں اہم ترین عہدوں پر۵۵برطانوی افسرفائزتھے۔مصرسے جوجنگجوفلسطین روانہ ہوئے انہیں مصری حکومت نے پکڑکرجیل میں ڈال دیا۔یہ بات آج تک سمجھ نہیں آسکی کہ کیایہ محض اتفاق تھاکہ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی سے کچھ روزقبل مصرمیں حسن البنّا کوپھانسی دے دی گئی۔نتیجہ یہ نکلاکہ ۱۴مئی ۱۹۴۸ء کوجب اسرائیل کے قیام کاباقاعدہ اعلان ہواتب تک صہیونی فلسطین کے مزید ۲۳فیصدعلاقے پرقبضہ کرچکے تھے اوراب ان کے قبضے میں ۵۶فیصد نہیں بلکہ۷۹فیصدتھاگویاہم نے جنگ کرکے صہیونیوں کو۲۳فیصدعلاقہ تحفے میں دے دیا۔ڈیڑھ عشرے بعداسی مصرپرحملہ ہوگیا۔برطانیہ کونہرسویزقومیائے جانے کادکھ تھا اور فرانس نے الجزائرکے حساب چکانے تھے چنانچہ اس جنگ میں مصرکوبھاری نقصان اٹھاناپڑا۔

۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۷ء کے درمیانی عرصے میں ایک لاواپکتارہااورمئی ۱۹۶۷ء میں انہوں نے اعلان جنگ کردیا۔امریکااس جنگ میں اسرائیل کادست وبازوبن گیا۔ اس کے تین بحری بیڑے ایک منٹ کے نوٹس پراسرائیل کی مددکیلئے تیارتھے،دیاگیااسلحہ اس کے علاوہ تھا۔امریکا نے سفارت کاری سے روس سے یہ ضمانت لے لی کہ وہ اس لڑائی میں ملوث نہیں ہوگاچنانچہ جس روز مصرکے ہوائی اڈوں پرحملہ ہوااسی رات روس کے سفیرجمال عبدالناصرکویقین دہانی کروارہے تھے کہ آپ پرحملہ نہیں ہوگا۔جنگ ختم ہوئی تواسرائیل ان چھ دنوں میں مغربی کنارے کے ۵۸۷۸مربع کلومیٹر،غزہ کے ۳۶۳مربع کلومیٹر،مصرکے صحرائے سینا اورجولان کی پہاڑیوں کے ۱۱۵۰مربع کلومیٹرپرقبضہ کرچکاتھا۔

نومبر۱۹۴۸ء میں اسرائیل کارقبہ ۷۹۹۳مربع میل تھالیکن یہ جنگ ختم ہوئی تواسرائیل مزید۲۷ہزارمربع میل پرقابض ہوچکاتھا۔ہمارے دوست اگرسلطان معظم کے گھوڑے کی ہنہناہٹ کے طلسم سے نکلیں توانہیں معلوم ہوکہ آج کامومن بے تیغ شعرتولکھ سکتاہے لڑنہیں سکتا۔آج مسلم دنیاپہلے سے زیادہ کمزورہے۔طاقت کاتوازن امریکااوراسرائیل کے حق میں ہے۔ایسے میں جنگ کامطلب یہ ہوگاکہ اسرائیل مزیدعلاقوں پرقبضہ کرلے گا،اس لئے ہوش کی ضرورت ہے تاوقتیکہ توازن بدل جائے۔ہماری حالت یہ ہے کہ ڈھنگ کاایک تعلیمی ادارہ مسلم دنیامیں نہیں ہے۔ڈھنگ کی ایک ایجادنہیں کی،اس لئے اگرہم میں غیرت ہے تواس کوبروئے کارلاتے ہوئے علم وتحقیق کی دنیامیں مفیدمطلب کرداراداکرکے طاقت کاتوازن بدلناہوگا۔اگریہ ہوگیا توکوئی مائی کالال ہمارے بچوں کوگاجرمولی کی طرح کاٹ نہیں سکے گا۔ہمیں اس وقت جنگ نہیں بلکہ امن کاوقفہ چاہئے جس میں ہم اپنے سماج کی تعمیرکرسکیں۔اس وقت توحالت یہ ہے کہ یروشلم اورتل ابیب میں یہودیوں نے غزہ میں صہیونی بہیمت کے خلاف مظاہرے کئے ہیں لیکن بہت سے عرب ممالک میں مسلمانوں کی ہمت نہیں ہوئی کہ مظاہرے کرسکیں۔

رائل کمیشن کی رپورٹ میں جب فلسطین کی تقسیم کی تجویزپیش کی گئی تولاہورکے موچی گیٹ میں علامہ اقبال نے ایک احتجا جی جلسہ منعقدکروایااورکہا:دوسراسبق یادرکھنے کے قابل یہ ہے کہ عربوں کوچاہئے کہ اپنے قومی مسائل پرغوروفکرکرتے وقت عرب ممالک کے بادشاہوں کے مشوروں پراعتمادنہ کریں۔ان بادشاہوں کی حیثیت ہرگزاس قابل نہیں کہ وہ محض اپنے ضمیروایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کوئی صحیح فیصلہ کرسکیں۔(عرب دنیامیں اقبال کی نثرپرپابندی کی وجہ اب سمجھ میں آجانی چاہئے)
ہم لڑنہیں سکتے اورہمیں امن کاوقفہ چاہئے لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ ہم حماس ہی پرچڑھ دوڑیں کہ ساراقصوراس کاہے۔جب حماس نہیں تھی تب کیااسرائیل نے عربوں کیلئے دودھ اورشہدکی نہریں کھودرکھی تھیں۔ہرچیزکواس کے سیاق وسباق میں دیکھاجاتاہے مگرملامتی صحافت کااصرارہے کہ ہروقت مسلمانوں کولعن طعن کیاجاتارہے ۔ظالم توہے ہی ظالم اسے کیاکہنے کی ضرورت ہے۔اے مظلوم!تم ہی معقول طرزِ عمل اپنالو۔یہ کیسااسلوب ہے اس پربھی توغورکیجئے۔جب حماس راکٹ نہیں چلاتی ،تب غزہ میں زندگی کیسے گزرتی ہے؟ایک جیل خانہ جس کابیرونی دنیاسے کوئی رابطہ نہیں۔

امن کاوقفہ، اپنی تعمیر،اورجب قوت ہاتھ میں آجائے توایک معرکہ،اس کے سواکوئی حل نہیں اس مسئلے کا؟مگرہماراالمیہ توہے ہی کچھ اور!ہم امن کے وقفے میں تعمیرکی بجائے دنیاکو ’’سافٹ امیج ‘‘دکھانے کے عارضے میں مبتلاہوجاتے ہیں۔ہم نے اسکرینیں ڈوموں اورڈومنیوں کے حوالے کررکھی ہیں اوردنیاکوبتارہے ہیں کہ ہماراشرم وحیاسے کوئی تعلق نہیں، ہم توبڑاسافٹ امیج رکھتے ہیں۔روزکسی چینل پرکوئی ڈوم یاڈومنی ہماری اخلاقیات کامذاق اڑاکربلکہ جنازہ نکال کراپناسافٹ امیج دنیاکے سامنے رکھ رہی ہوتی ہے۔المیہ پستی کی اتھاہ گہرائیوں تک پہنچ چکا؟اندازہ کیجئے رمضان کے مقدس مہینے کی نشریات بھی الّاماشاء اﷲ اسی طبقے کودے دی گئی۔کئی بارذہن میں سوال اٹھتاہے کہ امریکااوراسرائیل اپنے سافٹ امیج کے ذریعے سے دنیا میں طاقتورہوئے ہیں؟تسلیم کرلیجئے کہ تعلیم وتحقیق اصل طاقت ہے جس سے قومیں سرخرو اور سربلند ہوتی ہیں۔کوئی قوم اس بناء پرسرخرونہیں ہوتی کہ اس کے پاس ۵۰ڈوم ،۱۰۰ڈومنیاں،۲۰۰نیم برہنہ رقاصائیں اور۵۰۰نائٹ کلب ہیں، جوصبح وشام سافٹ امیج ے اظہارمیں کوشاں ہیں۔ہمارے ’’اہل ذرائع ابلاغ‘‘اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت بہت کم گوارہ کرتے ہیں۔ملازم ہوں یامالک، جس کی جتنی ذمہ داری ہے اسے نبھانے کی بہرحال کچھ نہ کچھ فکرتوہونی چاہئے۔

اگرہم خوداحتسابی کی اہمیت وضرورت کااحساس کرلیں تومسئلے کی اصل سمجھ میں آسکتی ہے۔اگرکوئی آپ سے یہ کہے کہ امریکافلسطینیوں کامحافظ ہے توآپ کواعتبارنہیں آئے گالیکن حقیقت یہی ہے کہ دنیامیں فلسطینیوں کاحامی ایک ہی ملک ،ایک ہی طاقت ہے اوروہ ہے امریکا جس نے اسرائیل کوپابندکررکھاہے کہ ایک بارمیں یعنی ایک ہی حملے میں دوہزارسے زائدفلسطینی نہیں مارنے اوراسرائیل امریکی ہدایات کاپابندہے۔اس نے آج کسی بھی یلغارمیں دوہزارسے زائدفلسطینی نہیں مارے ۔جونہی دوہزارکی گنتی پوری ہونے لگتی ہے وہ یلغارختم کردیتاہے۔غزہ میں گذشتہ ساڑھے ترین ہفتوں سے جاری لڑائی میں اب تک ۱۴۰۰فلسطینی اور ۵۵سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والے زیادہ تر فلسطینی عام شہری ہیں اور زیادہ تر اسرائیلیوں کا تعلق فوج سے ہے۔ابھی تھوڑی دیرقبل امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اسرائیل اور فلسطینی گروہ حماس کے درمیان غزہ میں ۷۲گھنٹے کی غیر مشروط جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان کیا ہے۔

ثابت ہواامریکاواحدطاقت ہے جوفلسطینیوں کو ختم ہونے سے اسی طرح بچائے ہوئے ہے جس طرح جنگلوں کے گیم وارڈن جوہرسال جانوروں کے شکارکاکوٹہ مقررکرتے ہیں کہ اس سال شکاریوں کواتنے شیر،اتنے ہرن،اتنے ہاتھی،اتنے گینڈے،اتنے مورچکورمارنے کی اجازت ہوگی،اس سے زیادہ کی نہیں۔وہ پھرزیادتی ہوجائے گی۔امریکاوہ اکلوتاگیم وارڈن ہے جوفلسطینیوں کاواحد’’محافظ‘‘ہے۔اس کے علاوہ کون ساملک ہوسکتاہے،کیامصر؟جس کایہودی نژادصدرالسیسی فلسطینیوں کوانسان ہی نہیں سمجھتا،بعض مبصرین توبرملاکہتے ہیں کہ لگتاہے مصرمیں اسرائیلی حکمران ہیں۔کیاسعودی عرب کوحامی سمجھاجائے جوفلسطینیوں کانام تک سنناگوارہ نہیں کرتا،کیااردن کوحامی سمجھ لیاجائے جس کے مرحوم بادشاہ حسین نے ایک ہی سال میں اتنے فلسطینی ماردیئے تھے جتنے ساٹھ سالوں میں اسرائیل نے نہیں مارسکا۔کیاروس اورایران کوخاص سمجھا جائے جنہوں نے جعلی میزائل (چھوٹے راکٹ)دیکرفلسطینیوں کی پشت میں خنجرگھونپ دیااورجنہوں نے حالیہ بحران میں ایک روبل یاریال تک فلسطینیوں کیلئے نہیں دیا ، کیا پاکستان کوحامی سمجھاجائے ؟جس کاالیکٹرانک میڈیاجوکسی جلی خفی دباؤ کے تحت فلسطین پرہونے والی یکطرفہ بمباری کی نیوزریلیں دکھانے کی ’’ہمت‘‘سے کلیتاً محروم یا معذور ہو چکا ہے ۔(انااﷲ وانا الیہ راجعون)
ریاکے دورمیں سچ بول تو رہے ہومگر
یہ وصف ہی نہ کہیں احتساب میں آئے
سناتوہوگاتونے ایک انسانوں کی بستی ہے
جہاں جیتی ہوئی ہرچیزجینے کوترستی ہے

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 391062 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.