1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار داد کے
زریعے فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا
اعلان کر دیا ۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ء میں اپنی افواج واپس بلا لیں
اور 14مئی 1948ء کو اسرائیل کی آ زاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا ۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کے ساتھ ہی فلسطین ریاست بھی قائم کر دی جاتی
لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ درحققیت اقوام متحدہ ہی اسلام کے خلاف ہے اور اپنی
طاقت کے زریعے ہمیشہ اسلام کو نقصان پہنچانے کی ناپاک کوشش کرتا ہے ۔
بحرحال آگے چلتے ہیں ۔ اس نا اصافی و غلط تقسیم کو عربوں نے نا منظور کر
دیا اور پھر ہمت کرتے ہوئے عراق ، سعودی عرب، لبنان ، شام ، اردن اور مصر
نے مشترکہ نئی اسرائیلی ریاست پر حملہ کر دیا ۔ تاہم اسے کالعدم قرار دینے
میں اور نئی اسرائیلی کو شکست دینے میں ناکام ہو گئے تھے اس لئے بھی کہ
اقوام متحدہ نے اندرونی طور پر اور دیگر یہودی ممالک نے اسرائیل کو سہارا
بھی دیا تھا ۔بلکہ اس حملے کی وجہ سے یہودی ریاست کے رقبے میں کچھ اور بھی
اضافہ ہو گیا ۔
اگر اقوام متحدہ نے اسرائیل کے ساتھ فلسطین کو بھی اپنی قرار دار کے مطابق
الگ اور آ زاد ریاست بنایا ہوتا تو آ ج فلسطین خود مختیا ر ہوتا اور موجودہ
آ گ بالکل دور ہوتا۔ یہاں اقوام متحدہ کی نظر اندازی اور نا انصافی ایک
کھلی تضاد ہے ۔ ایک متنازعہ خطہ جہاں یہودی ریاست کو آزادی مسلم ریاست کو
نظر اندازی سے واضع ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ ہی عالم اسلام کے ساتھ زیادتی
کی ذمہ دار ہے ۔
درحقیقت سامراجی پشت پناہی میں فلسطین پر صیہونی تسلط کے خلاف فلسطینی عوام
کی جدوجہد کا آ غاز 1948ء میں ہوا تھا۔ گزشتہ 66 برسوں میں یہی تنازع تین
عرب اسرائیل جنگوں کی وجہ بنا ۔ فلسطینی عوام نے مسلح جدو جہد کا طریقہ بھی
آ زما کر دیکھ لیا ہے اور لاحاصل مذاکرات کا لا متناہی سلسلہ بھی ، لیکن
وقت گزرنے کے ساتھ آ زادی کی منزل پہلے سے کہیں دور ہو گئی ہے ۔ جدید تاریخ
میں یہودیوں کے لئے ایک علیحدہ وطن بنانے کا منصوبہ 1896ء میں اسٹریا (
ہنگری سلطنت) کے ایک یہودی صحافی تھیوڈور ہر زل نے اپنے ایک پمفلٹ ’’ یہودی
ریاست ‘‘ میں پیش کیا تھا۔ ’’ سیاسی صیہونیت ‘‘ کا آ غاز بھی یہیں سے ہوا ۔
اس کا یہ خیال ہزاروں سال پرانی دیومالائی اور داستانوں پر مبنی تھا۔
فلسطین غزہ میں اسرائیل کی جانب سے جنگی جرائم پر عالمی طاقتوں کی خاموشی
ظالم کے ہاتھ مزید مضبوط کرنے کے مترادف ہے ۔ اسرائیل بہت وحشیانہ طریقے سے
دنیا کے احتجاج کے باوجود معصوم بچوں ، عورتوں اور تمام شہریوں کو جی بھر
کر قتل عام کر رہا ہے ۔ مگر اسے لگام دینے والا کوئی نہیں ہے ۔ غزہ میں
اسرائیل کی افواج کی وحشیانہ قتل و غارت اور انسانی حقوق کی پامالی پر
اقوام متحدہ کی خاموشی اور دیگر طاقتوں کی جانب سے صرف بیان بازی کی حد
رہنا قابل افسوس ہے ۔ غزہ میں انسانی حقوق کی بڑی خلاف ورزی ہے۔ ایک طرف
ہتھیاروں سے لیس افواج ہیں تو دوسری جانب بے سہارہ و بے ہتھیار نہتے بچے ،
خواتین و مرد حضرات شہر ی ہیں ۔ جن پر فضائی حملے بھی ہو رہے ہیں زمینی وار
بھی جاری ہے ۔
اسرائی نے ایک بار چار گھنٹے کی جنگ بندی کی پھرمکر گیا اور پھر تین دن کی
جنگ بندی جو تین گھنٹے بھی برقرار نہ رہ سکی ۔ابتک28دن میں 1800 سے زائد
فلسطینیوں کو شہید کیا گیا ہے جس میں خواتین و معصوم بچوں کی تعداد اکثریت
میں ہے ۔ آزادانہ بم باری اور بارودوں سے نصف فلسطین کی زمیں بوس کر دی گئی
ہے ۔ فلسطینی مائیں عیدجیسے بزرگ دن کے موقع پر بھی لاشیں اٹھاتہ رہیں عید
کے دن حملے میں 30 جس میں 11 بچے اور 10 خواتین بھی شہید ہوئیں۔
لیکن اقوام متحدہ ، امریکہ ، برطانیہ سمیت اسلامی ممالک کی صرف بیا ن بازی
سے لگتا ہے کہ پوری دنیا اسرائیل سے ڈرتا ہے اور اسرائیلی غلامی قبول کر
رہی ہے ۔یہ لوگ صرف احتجاج ہی کیوں کر رہے ہیں؟ احتجاج سے کچھ نہی ہوتا سرخ
آنکھ کو سرخ آ نکھ کی مٹا سکتی ہے ۔غیر گلہ اقوام متحدہ سے نہیں ہے کیونکہ
یہ ادارہ حقیقت میں یہودی پرست ہے اور یہودیوں نے یرغمال بنایا ہے ۔ امریکہ
سے نہیں ہے امریکہ خود دہشت گرد۔ گلہ تو اپنے ہم دین ممالک سے جو آ ج خاموش
تما شائی کی کرداد ادا کر رہے ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جو ایٹمی پاور
رکھتا ہے ۔ خدا کی قسم ایک میزائل کا رخ صرف اسرائیل کی طرف کیا جائے تو
اسرائیل کی پیشاب ہی بند ہو جائے گا لیکن نہیں ایسی ہمت آ ج حکمرانوں کو ہر
گز نہیں ہے ۔ یہ لوگ ما سوائے ایک روزہ سوگ افسوس کے کچھ نہیں کرسکتے ہیں ۔
آ خر کون اسرائیل کومدد کر رہا ہے اسکا جواب ہے موجودہ تمام خود مختا ر
اسلامی ممالک جو آ زادی کے باوجود اسرائیل کے سامنے جرت نہیں رکھتے ہیں
۔عرب ممالک بھی خاموش اور لا چار محسوس ہو رہے ہیں ۔ یہ وہ عرب خطہ جہاں
پہلے بھی سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے حکمران تھے نے فتح کیا تھا ۔ا ب کے
حکمران صرف نام کے حکمرا ن ہیں ۔
انسانی حقوق کی پاسداری کے دعوے دار کہاں ہیں ؟ امریکہ جو امن چاہتاہے اب
کہاں ہے ؟ مسلم ممالک کہاں ہیں ؟
ملالہ یوسف زئی جیسی ناپاک لڑکی کو اویوارڈ دینے والے اندھے بن چکے ہیں
۔غزہ میں ہزاروں ملالہ نظر نہیں کیوں نہیں آ رہے ہیں ؟
اے میرے ہم دین شرمندہ ہوں میں
نہیں کرسکتا چاہا کر بھی تیر ی مدد میں
میرے حاکم بھی غلام تو غلام میں بھی ہوں
بے اختیار و بے ہتھیا او ر لاچار ہوں میں
سعودی شاہ عبداﷲ نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو جنگی جرم قرار دیا ہے اور
کہا ہے کہ نہتے فلسطینیوں پر حملہ قتل عام ہے غزہ پر حملے کے بعد عالمی رد
عمل سے بہت مایوس ہیں۔مسلمان رہنماء اور عالمی برادری ریاستی دہشت گردی کے
خلاف یکجا ہو جائیں ۔ مسلمان قائدین اور علماء اسلام کو دہشت گردی کے
ہاتھوں مغوی ہونے سے بچائیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے
25جولائی کو یوم ِ سوگ منانے کا صرف اعلان کیا ہے ۔ اعلانات و مذمت سے کچھ
نہیں ہوگا اس سے بڑھ کر کچھ کرنے کی اشد ضرور ت ہیں ۔ اسرائیل پر حملے کی
تیاریاں عالم اسلام کے لئے اب ناگزیر بن ہے ۔ یہودی مسلم کو للکار رہا ہے
اور مسلم دنیا سو رہی ہے یہ قابل افسوس ہے ۔ |