دنیا کا مظلوم ترین شخص

”السلام علیکم…! میرا نام…خیر چھوڑیے، نام میں کیا رکھا ہے، مظلوم کو جس نام سے بھی پکارو، مظلوم ہی رہے گا۔ فی الحال اپنی آسانی کے لیے آپ میرا نام ”شکر گڑیہ“ سمجھ لیں۔ کوئی پندرہ برس قبل جب اس ہیچمدان نے کاروبار کرنے کا ارادہ کیا تو یار دوستوں نے مشورہ دیا کہ کوئی چھوٹی موٹی شوگر مل لگا لو، چار بندوں کو روزگار مل جائے گا اور کاشت کاروں کا بھی بھلا ہو جائے گا۔ رہی منافع کی بات تو پیسہ ہمیشہ ہی سے تمہارے ہاتھ کی میل رہا ہے، لہٰذا اس میل کو صاف کرنے کے لیے گاہے بگاہے صدقہ خیرات کر کے ہاتھ دھوتے رہنا۔ بات بندے کے دل کو لگی، چناں چہ فوراً ایک سرمایہ کاری کے ماہر کو بلوا کر شوگر مل کا تخمینہ لگوایا۔ آج کل کا مہنگا دور ہوتا تو شاید بات دو اڑھائی ارب روپے سے تجاوز کر جاتی، مگر پندرہ سال پہلے مہنگائی کا جن ابھی بوتل سے باہر نہیں نکلا تھا، اس لیے کچھ بچت ہوگئی۔ اس مرد عاقل نے ایک مشورہ یہ بھی دیا کہ حکومت نے مجھ جیسے درد مند دل رکھنے والے لوگوں کے لیے بے شمار بینک کھول رکھے ہیں، جو شوگر مل لگانے کے لیے نہایت آسان شرائط پر قرضے فراہم کرتے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ اعلیٰ حکومتی عہدے داروں، با اثر سیاست دانوں اور بینک کے مالکان کے ساتھ خوش گوار تعلقات استوار کیے جائیں اور ان کے دکھ درد اور خوشی غمی میں شریک ہوا جائے۔ یہاں اس نے یہ لطیف نکتہ بھی سمجھایا کہ بالفرض اگر 100روپے کی سرمایہ کاری مقصود ہو تو بینک سے 70 روپے لیے جاتے ہیں اور باقی کے 30 روپوں کے لیے صرف ”ثابت“ کرنا پڑتا ہے کہ وہ آپ نے ”پلّے“ سے لگائے ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ میں نے اوکھا سوکھا ہو کے اپنی آبائی زرعی زمین بینک کے پاس گروی رکھوائی، جس پر بینک نے وعدہ کیا کہ شوگر مل کی پلانٹ اور مشینری کے 100میں سے 70روپے وہ دے گا اور باقی کے 30 روپے مجھے دینے ہوں گے۔ زمین دینے کے بعد مجھ غریب کے پاس کیا بچنا تھا …؟ میں باقی کے 30پرسنٹ کہاں سے لاتا؟ یہ سوچ سوچ کے دماغ پولا ہو گیا اور پھر ایک دن میری طبیعت اتنی خراب ہوئی کہ مجھے چکر آگئے اور میں بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ اللہ بھلا کرے میری گھر والی کا، اس نے فوراً لندن کے دو ٹکٹ کٹوائے اور مجھے لے کر ٹھنڈے علاقے میں آگئی۔ سیانے سچ کہتے ہیں، جان ہے تو جہان ہے، ولایت میں ایک مہینہ گزارنے کے بعد طبیعت کچھ سنبھلی، تو مجھے واپسی کا ہوش آیا۔

واپس پہنچتے ہی میں دوبارہ اسی سرمایہ کاری کے ماہر بندے سے ملا اور اپنی پریشانی بیان کی۔ اس نے ساری بات سن کر ایسے قہقہہ لگایا، جیسے آج کل کے رئیلیٹی شوز کے جج صاحبان پھیکے لطیفے سن کر قہقہہ لگاتے ہیں۔ قہقہے سے فارغ ہو کر اس نے مجھے تسلی دی اور بولا کہ 30 پرسنٹ بھی بینک ہی دے گا اور پھر اس کا طریقہ سمجھاتے ہوئے کہنے لگا کہ اس تیکنیک کو ہم ”over evaluation“ کہتے ہیں۔ اس شخص کی لچھے دار باتوں میں آ کر میں نے بینک افسران کو لاکھوں روپے کھلا دیے، شوگر مل تو لگ گئی، مگر میری کمر ٹوٹ کر رہ گئی۔ کمر سیدھی کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر لندن جانا پڑا یعنی غریب کے لیے مزید خرچہ!

میرا خدا جانتا ہے کہ شوگر مل لگانے کا مقصد دنیاوی منفعت ہرگز نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے پہلے ہی سال سے اعلان کر دیا تھا کہ شوگر مل سے حاصل ہونے والا منافع میں اپنے پاس نہیں رکھوں گا، بلکہ تمام شیئر ہولڈرز میں تقسیم کر دوں گا۔ دیگر مل مالکان نے میرے اس فیصلے پر ناقابل یقین حیرت کا اظہار کیا اور مجھے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا مشورہ دیا، مگر میرے دل میں خوفِ خدا تھا، اس لیے میں ثابت قدم رہا۔ تاہم یہ اور بات ہے کہ شوگر مل ہر سال اس قدر گھاٹے میں چلی جاتی کہ منافع تقسیم کرنے کی نوبت ہی نہ آتی۔ میری نیت تو منافع بانٹنے کی تھی، مگر شاید خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا، بے شک وہی دلوں کا حال جانتا ہے۔ اس ساری کارروائی کے دوران بعض مفسدین نے میرے خلاف یہ پروپیگنڈا پھیلانا شروع کر دیا کہ چوں کہ مل میں میرے بیوی، بچے، داماد اور سالے ،سالیاں ملا کر کل چودہ ڈائریکٹر ہیں، جن کی مجموعی تنخواہیں تقریباً چودہ کروڑ سالانہ بنتی ہیں، اس لیے سارا منافع ہمارے خاندان کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ اب میں لوگوں کی زبان تو نہیں پکڑ سکتا، خدا ہی انہیں ہدایت دے اور وہ میری طرح اللہ سے لَو لگائیں۔ میں نے اس تنقید کے جواب میں چپ سادھ لی کہ میرے خدا کا حکم ہے کہ لوگوں کے عیبوں پر پردہ ڈالو، ورنہ میں انہیں بتاتا کہ ایک شوگر مل کو چلانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ بینک والوں کا قصہ تو میں بیان کر ہی چکا ہوں، لیکن ایک بینک پر ہی کیا موقوف…انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، واپڈا، سوشل سیکورٹی، فوڈ ڈیپارٹمنٹ…کس کس کا منہ بند کریں کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اندھیر نگری چوپٹ راج کی مثال ہے۔ یہ ملک جہاں مجھ جیسے شریف آدمی کے لیے کاروبار کرنا محال ہے۔ ایک سرکاری افسر نے ایک دفعہ میری شوگر مل کے بارے میں کہا کہ ”جناب! اگر آپ کی مل پچھلے پندرہ سال سے مسلسل گھاٹے میں جا رہی ہے، تو آپ اسے بند کیوں نہیں کر دیتے؟ کیا یہ کسی قسم کا کوئی خیراتی ادارہ ہے، جو آپ چلا رہے ہیں؟“اس افسر کی بات سن کر میری آنکھوں میں پانی بھر آیا، جس ملک کے افسران کی یہ سوچ ہو، وہ ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے؟ میں اس وقت تو کچھ نہ بولا، البتہ دفتر واپس جا کر اپنے اکاؤنٹنٹ کے ہاتھوں اس افسر کو چند سکے بھجوا دیے کہ اس کے بات کرنے کا یہی منشا تھا۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ یہ قوم ہی بد قسمت ہے، جسے کھرے اور کھوٹے کی پہچان نہیں۔ میری تمام تر قربانیوں کی یہ صلہ دیا جا رہا ہے کہ مجھے بھی دوسرے مل مالکان کی طرح منافع خور اور ذخیرہ اندوز کے القابات سے پکارا جاتا ہے، حالاں کہ مہنگائی نے ہماری بھی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ مرسیڈیز کار کی قیمت اب ساٹھ لاکھ سے شروع ہوتی ہے، بنکاک کی جو ٹکٹ پہلے تیس ہزار میں آتی تھی، اب پچاس ہزار کی ہو گئی ہے اور رولیکس کی گھڑی پہننا تو اب خواب ہی لگتا ہے۔ مجھے تو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ اس سال میرے بچے کہاں عید کریں گے؟ پہلے وہ ہر سال یورپ یا امریکا چلے جایا کرتے تھے، لیکن اس دفعہ میرے سب سے چھوٹے بچے نے میری پریشانی کو بھانپتے ہوئے میرے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا کہ ”پاپا! آپ پریشان نہ ہوں، اگر ہم یورپ نہ جا سکے تو ملائیشیا میں عید کر لیں گے، لیکن پلیز آپ ٹینشن نہ لیں۔“ اس کا یہ کہنا تھا کہ میری آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور میں نے اسی وقت مصلّی بچھا کر دو رکعت نماز ادا کی اور خدا کے حضور دعا کی کہ یا پروردگار میری مشکل آسان کر دے ۔ابھی میں مصلّے کا کونا الٹ کر اٹھنے ہی والا تھا کہ اچانک میرے موبائل پر بیل بجی۔ دوسری طرف میرا وہ شوگر ڈیلر تھا، جس نے پچھلے دنوں میری مل سے چینی اٹھا کر 62روپے فی کلو کے حساب سے بیچی تھی اور مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میری پیمنٹ ایک ہفتے میں کلیئر کردے گا۔ فون پر جب اس نے بتایا کہ میری پیمنٹ تیار ہے تو فرطِ جذبات سے ایک مرتبہ پھر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں نے اسی وقت اپنے ایک ملازم کو جو پچھلے دنوں مل میں کام کرتے ہوئے شدید زخمی ہو گیا تھا، دو سو روپے اپنے چھوٹے بیٹے کے صدقے کے طور پر وار کر دے دیے…آخر وہ بھی میری طرح کا ہی ایک مظلوم شخص تھا!

(This article is permitted by the author to publish here)

Yasir Pirzada
About the Author: Yasir Pirzada Read More Articles by Yasir Pirzada: 30 Articles with 63358 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.