یہ 12 جون 2014 کی تاریخ ہے۔ تین اسرائیلی نوجوان نفتالی
فرینیکل، گلاڈ شعیر، اور ایعال یفراہ کو مغربی کنارے سے اغواءکیے جانے کی
خبریں میڈیا پر منظر عام پر آتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ خبر بھی منظر عام پر آتی
ہے کہ اس اغواء کے پیچھے حماس کا ہاتھ ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ
اس اغواء کی اطلاع خود ان تینوں لڑکوں میں سے ایک نے پولیس کو فون کر کے دی۔
حماس کے رہنما خالد مشعل اس خبر کی تردید کرتے ہیں، جبکہ اسرئیلی میڈیا اور
حکومت اس بات پر اصرار۔ تاہم خالد مشعل کے اس بیان کی تائید میں بی بی سی
کے رپورٹر جان ڈونِسن’’ Joan Donnison‘‘ نے ٹیوٹر پر یہ پیغام دیا کہ
’’اسرائیلی پولیس کے ترجمان میکی روزن فیلڈ ’’Mickey Rosenfeld‘‘ نے اس بات
کا اعتراف کیا ہے کہ یہ اغواء نہ تو حماس کی قیادت کے ایماء پر ہوا ہے اور
نہ ہی حماس کی قیادت اس سے واقف ہے۔ ‘‘ ان تینوں نوجوانوں کو تلاش کرنے کے
لیے اسرائیلی سیکورٹی فورسز کے 2500 جوان پولیس اور دوسری سپیشل فورسز کے
ساتھ مل کر آپریشن برادرز کیپر ’’Operation Brother’s Keeper‘‘ کا آغاز
کرتے ہیں۔ گیارہ دن تک جاری رہنے والے اس آپریشن میں 10 فلسطینیوں کو قتل
کردیا گیا جب کہ 600 فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان گرفتار شدگان میں
مغربی کنارے میں موجود حماس کی تمام قیادت بھی شامل تھی۔
30 جون 2014 کو اسرائیلی سیکورٹی فورسز کو ان تینوں نوجوانوں کی لاشیں
ہیبرون کے نزدیک سے ملتی ہیں، جن کے بارے میں اسرائیلی حکام یہ دعویٰ کرتے
ہیں کہ ان تینوں کو اغواء کے فوراً بعد قتل کردیا گیا تھا۔ یکم جولائی کی
دوپہر کو ان تینوں کو دفن کر دیا جاتا ہے۔ اسی روز 200 کے قریب اسرائیلی ’’
عربوں کے لیے موت ‘‘ ’’ Death to Arabs‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے یروشلم میں
جمع ہوجاتے ہیں۔ جب کہ اس سے ایک دن پہلے یعنی 30 جون کو اسی طرح کا ایک
مظاہرہ ہیبرون میں کیا گیا جس میں مقامی فلسطینی آبادی کو اسرائیلیوں کی
جانب سے ہراساں بھی کیا گیا۔ اُسی رات دو مختلف واقعات میں ہیبرون میں 19
سالہ ساجد سلطان اور 9 سالہ سنابل عطاوس کو گاڑیوں کے نیچے دے کر کچل دیا
جاتا ہے۔ جب کہ یروشلم میں ایک ٹیکسی ڈرائیور کی آنکھوں میں کالی مرچ ڈال
دی جاتی ہیں اور مغربی یروشلم میں ایک فلسطینی کو بد ترین تشدد کا نشانہ
بنایا جاتا ہے۔ مختلف اسرائیلی تنظیمیں حکومت کو انتقامی کاروائی کے لیے
مجبور کرنا شروع کرتی ہیں۔ ربیّ نوم پیریل ’’ Rabbi Noam Perel‘‘ جو کہ
دنیا میں سب سے بڑی صیہونی تنظیم بنی آکیوا ’’ Bnei Akiva‘‘ کا سربراہ ہے،
اپنے فیس بک پر یہ لکھتا ہے کہ ’’پوری قوم اور ہزاروں سال کی تاریخ انتقام
کا مطالبہ کر رہی ہے ‘‘ ’’ The whole nation and thousands of years of
history demands revenge‘‘۔ فیس بک پر اسرائیلی عوام کی جانب سے انتقام کے
نعرے گونجتے دیکھائی دینے لگے۔ ایک 17 سالہ اسرائیلی نے ’’ The people of
Israel demand revenge‘‘ ’’ اسرائیلی عوام انتقام چاہتے ہیں ‘‘ کے نام سے
فیس بک پر پیج بنایا جس کو ایک گھنٹے میں 35000 لائک ملے، جسے بعد میں
اسرائیلی حکومت نے بند کردیا۔ یکم جولائی کو جینین میں واقع مہاجرین کے
کیمپ میں ایک فلسطینی نوجوان کو اسرائیلی سیکورٹی فورسز گولی مار کر ہلاک
کر دیتے ہیں۔ بعد میں سوشل میڈیا پر اس قتل کو ’’انتقام‘‘ کے نام سے منایا
جاتا ہے۔ یکم جولائی کی ہی شام کو 10 سالہ موسیٰ زلوم کو اغواء کرنے کی
کوشش ناکام ہو جاتی ہے، جس کے بعد 2 جولائی کی رات کو مشرقی یروشلم سے 16
سالہ محمد ابو خدیر کو اغواء کر لیا جاتا ہے، جس کی جلی ہوئی لاش کچھ
گھنٹوں بعد یروشلم کے جنگل ’’ گیوت شاؤل‘‘ ’’ Givat Shaul‘‘ سے ملتی ہے۔
29 جون 2014 کو اسرائیلی ایرفورس حماس کی ٹھکانے پر حملہ کرتی ہے، جس کے
بعد اگلے دن حماس اس کا جواب 16 راکٹ فائر کر کے دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے ایک
گھر کو معمولی نقصان پہنچتا ہے۔ 2012ء کے بعد سے حماس کے جانب سے پہلی دفعہ
یہ راکٹ استعمال کیے گئے تھے۔ اس دوران 5 جولائی تک اسرائیلی ایرفورس کی
جانب سے 80 دفعہ غزہ پر حملہ کیا گیا۔ 6 جولائی کو اسرائیلی حملہ کے نتیجہ
میں حماس کے 7 کارکن شہید ہو گئے، جس کے بعد حماس کی جانب سے 7 جولائی کو
100 راکٹ فائر کیے گئے۔ تاہم ان سے بھی اسرائیل میں کوئی جانی یا مالی
نقصان نہیں ہوا۔ اسی دوران اسرائیلی فوج کے ترجمان بریگیڈیر جنرل موتی
الموز نے بیان دیا کہ ’’ ہمیں سیاسی قیادت کی جانب سے حماس کے خلاف سخت
کاروائی کا حکم ہے‘‘۔ دوسرے جانب حماس کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ اس
صورت حال میں اسرائیلیوں پر حملہ کرنا جائز ہے۔ تاہم حماس نے زور دیا کہ
اسرائیل غزہ پر حملے بند کرے، اور ان تمام افراد کو رہا کیا جائے جن کو
آپریشن برادرز کیپر کے دوران مغربی کنارے سے حراست میں لیا گیا ہے، غزہ کا
محاصرہ ختم کیا جائے اور 2012ء کے جنگ بندی معاہدے کے تحت جنگ بندی کی
جائے۔ تاہم 8 جولائی کو اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں آپریشن پراٹیکٹیو
ایج ’’ Operation Protective Edge‘‘ کا آغاز کر دیا گیا۔
اس آپریشن کے بعد سے اب تک اسرائیل میں 67 ہلاکتیں ہوئی ہیں جن میں 64
اسرائیلی فوجی جبکہ تین سویلین ہیں۔ جبکہ دوسری جانب غزہ میں 1938 افراد کو
شہید کر دیا گیا، جن میں 460 بچے اور 246 خواتین بھی شامل ہیں۔ زخمی ہونے
والوں کی تعداد 10000 سے زائد ہے۔ 11000 سے زائد گھر ، 24 ہسپتال اور
کلینک، 167 سکول، 6 یونیورسٹیز، 8 واٹر پمپنگ سٹیشن، 118 مساجد،52 ماہی
گیروں کی کشتیاں، 15 بینک، ڈاکخانے اور منی ایکسچینج مکمل یا جزوی طور پر
تباہ کیے جا چکے ہیں۔ جبکہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد 520,000 سے زائد ہے۔
میں جانتا ہوں کہ یہ کہانی اور اعداد و شمار آپ نے بالکل ایسے پڑھے ہوں گے
جیسے کوئی دو کا پہاڑا پڑھتا ہے۔ انسانیت کا جنازہ تو بہت پہلے نکل چکا جو
باقی بچا ہے وہ تو مٹی کا ایک بے حس پتلا ہے۔ جس پر نہ تو آہوں کا کوئی اثر
ہوتا ہے اور نہ ہی سسکیوں کا۔ اور اثر ہو بھی تو کیوں ہو؟ نہ تو بچے میرے
ہیں اور نہ ماں میری، تو آنسو نکلیں تو کیونکر؟ دل میں درد اٹھے تو کس کے
لیے؟ پاؤں کپکپائیں تو کس کی خاطر؟۔ گرتی ہوئی لاشیں ایسی محسوس ہوتی ہیں
جیسے درختوں سے گرتے پتے، جن کو پاؤں سے مسل کر آگے گزر جانے کا احساس بھی
نہیں ہوتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری رگوں میں خون قطب شمالی کی برف کی
طرح منجمد ہو چکا ہے۔لیکن یہ بے حس پُتلا اتنا بھی بے حس نہیں، اس کے آنسو
نکلتے ہیں، مگر ٹیلی ویژن سکرین پر چلتے ڈرامہ میں روتے کرداروں کو دیکھ
کر، اس کے دل میں درد بھی اٹھتا ہے مگر سینما سکرین پر چلتی فلم میں ہیرو
کو گولی لگتی دیکھ کر۔ اگر کوئی انسانیت کا سبق دے تو چند لمحوں کے لیے اس
کے خون میں روانی ضرور پیدا ہوتی ہے، پر یا تو چند پُر جوش نعرے لگا کر ،
یا مقرر کی تقریر پر داد دے کر یا ٹیلی ویژن کا چینل تبدیل کر کے یہ روانی
دوبارہ ختم ہو جاتی ہے۔ اور ایک دفعہ پھر ایک بے حس پُتلا زمین پر چلنے
پھرنے لگتا ہے۔
آج اس جارحیت کو شروع ہوئے 30 دن ہو چکے ہیں، لیکن مقام حیرت ہے کہ من حیث
القوم کوئی بھی ان مظلوم فلسطینیوں کی مدد کو تیار نہیں۔ موم بتیاں جلاتے
اور ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے کچھ لوگ سڑکوں پر نظر ضرور آتے ہیں، پر کیا
یہ اس مسئلے کا حل ہے؟ باعث حیرت تو یہ ہے کہ وہ مُلا جو خود کو اسلام اور
مسلمان کا ٹھیکیدار سمجھتا ہے وہ بھی اس معاملے پر خاموش ہے۔ وہ جو بات بات
پر لوگوں پر کُفر کے فتویٰ لگاتا ہے اس موقع پر جہاد کا فتویٰ نہیں دیتا۔
کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو باہر نکلنا بھی گوارا نہیں کرتے، وہ خود بھی اور
لوگوں کو بھی ان فلسطینیوں کے لیے صرف دعا کا مشورہ دیتے ہیں کہ ’’ اے اللہ
غزہ کے لوگوں کی مدد فرما‘‘۔ قومیت اور وطنیت کے بتوں کے پجاریوں سے صرف
اتنے کی ہی امید تھی۔ خود کو وطنیت کے سراب میں دھکیلنے کا انجام بھی یہی
ہے۔ جب تلواریں اور نیزے اپنوں ہی کے خون میں رنگنے کے لیے تیز کئے جاتے
ہوں تو پھر غزہ کے مظلوموں کے لیے دعا ہی آخری آسرا ہے۔ جب مسئلے کا حل
اقوام متحدہ کی قراردادوں میں ڈھونڈا جائے گا تو پھر موم بتیاں ہی ان
مظلوموں کی پناہ گاہوں میں آخری چنگاری کا کام کریں گی۔ مسئلہ تب بھی حل
نہیں ہو گا، کیوں کہ یہ جنگ غزہ اور اسرائیل کے درمیان نہیں ہے۔ یہ جنگ
اسلام اور صیہونیت کے درمیان ہے۔ صیہونیت کی یہ جنگ ایک ایسی قوم کے خلاف
ہے جس کے اسلاف کی داستانیں مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ایک ایسی قوم
جو اگر بغداد میں موجود ہو اور سندھ سے اس کی بیٹی پکارے تو فوراً فوجوں کو
سندھ روانہ کر دیا جائے، ایک ایسی قوم کہ جب اسپین سے ایک بیٹی کے چیخنے کی
آواز بغداد پہنچتی ہے تو حاکم وقت پیدل اسپین کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ ایک
ایسی قوم جس کی داستان مکہ سے شروع ہوتی ہے اور اس کے گھوڑوں کی ٹاپیں پورے
عالم میں سنی جاتی ہیں۔ لیکن یہ سب صرف اس وقت تھا جب یہ قوم صرف مسلمان
قوم تھی، یہ نہ بغدادی تھی، نہ عثمانی ، نہ پاکستانی، نہ افغانی، نہ مصری،
نہ سعودی۔ جب یہ قوم مراکش میں مرنے والے مسلمان کو مراکشی نہیں بلکہ صرف
مسلمان سمجھتی تھی۔ آج جب یہ قوم الجزائر، لیبیا، مصر، شام، عراق،
افغانستان، ازبکستان، ترکمانستان، یمن اور پاکستان میں بہنے والے خون پر
سراپا احتجاج نہیں ہوتی تو میں اس قوم سے یہی توقع رکھتا ہوں کہ یہ فلسطینی
دہشت گردوں کی موت پر بھی خاموش ہی رہے اور صرف دعا کا ہی تقاضا کرتی رہے۔
پر دعا کرنے والوں سے گذارش ہے کہ دعا ضرور کریں، مگر یہ تو جان لیں کہ دعا
کیا کرنی ہے اور کب کرنی ہے۔ کیا رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر اس دنیا میں کوئی
تھا؟ اگر وہ دعا کرتے تو زمین اور آسمان ہل جاتے۔ پر آپ ﷺ نے دعا سے پہلے
عمل کر کے دکھایا۔ آپ ﷺ نے پہلے بدر میں 313 جانثاران کو جمع کیا۔ پھر دعا
کے لیے ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ اے رب ہماری مدد فرما اگر آج یہ نہ رہے تو
زمین پر تیرا نام لیوا کوئی نہ ہو گا۔ تو آپ سے بھی یہی گذارش ہے کہ دعا سے
پہلے دوا کیجئے۔ فلسطین کے مسئلے کا حل دعا میں نہیں بلکہ جہاد میں ہے۔ پر
جہاد نہ تو میں نے کرنا ہے نہ آپ نے۔ بلکہ جہاد اس 50 لاکھ فوج نے کرنا ہے
جو اُمت کے ٹیکسوں پر پل رہی ہے۔ کیوں کہ جہاد فوج کا ہی کام ہوتا ہے۔ لہذا
ضروری شے یہ ہے کہ آپ سڑک پر نکلیں تو اس فوج کو مجبور کریں کہ وہ اسرائیل
کو جواب دے۔ یہ احتجاج ایک ایسا بامقصد احتجاج ہو امت کو متحد کرے۔ جو امت
کو اس امر کا احساس دلائے کہ ہم ایک امت ہیں، ہمارا رب بھی ایک ہے اور
ہمارا قرآن بھی ایک۔ ہمارے جسم کے اگر ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو ہمارا
پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ |