عید ،خوشیوں بھرا تہوار ، ہر سمت مسرت کی فراوانی ، عید
کا دوسرا دن عید انجوائے کے لیے تفریحی مقامات پر لوگوں کا ہجوم ، بھیڑ رش
کراچی کا ساحل سمندر موجیں بے تاب زندگی مست ، چند ہی گھنٹوں میں ، منظر
بدل گیا موجیں بے رحم ، زندگی دم آخر سسکتی رہی ، 36 لاشیں ، چھتیس
خاندانوں میں تقسیم ہوتی موت ، 36 گھروں کے چشم و چراغ ، چھتیس ماؤں کا
نوحہ روتی بلکتی مائیں ، بہنیں ، بیٹیاں ، بیویاں ، دانتوں میں انگلیاں
دییے ، آنکھوں میں قبرستاں کی ویرانی سمیٹے 36 گھروں کے بچ جانے والے مرد ،
کیسے یہ سب کچھ ہو گیا ؟ کیا اس ملک ، شہر کا کوئی والی وارث نہیں ؟ کیا
دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی تفریحی مقامات پر حادثات تحفے میں دیے جاتے ہیں
؟ موت کی سوغات تقسیم کی جاتی ہے ؟ دنیا بھر کے سمندر اور ساحل موج مستی
کرنے والوں کے ساتھ کیا ایسی ہی بے رحمی کا سلوک کرتے ہیں ؟
یہ سانحہ نیا نہیں ، ماضی کے اخبار اٹھا لیں کراچی کے ساحل سمنرر کی عید
باسی عید پر ایسے ہی حادثات کا تسلسل دکھائی دے گا ۔
ساحل سمندر پر سیکورٹی دینا کس کی ذمہ داری ہے ؟
صوبائی حکامت ؟ وفاقی حکومت ؟ بلدیاتی ادارے ؟ ڈی ایچ اے کے زیر انتظام
ہونے کے سبب دیگر اداروں کی ذمہ داری ؟
روزانہ چارجڈ پارکنگ کی مد میں لاکھوں روپے اپنی جیبوں میں ڈالنے والے کون
ہیں ؟
سوال ہی سوال ، جواب کسی کے پاس نہیں ، جواب کوئی نہیں ، مرنے والے عوام
ہیں ، گالی گولی سے نہ سہی اپنی نادانی ، اپنی خوشی کو سمندر کی لہروں میں
بہا دینے والے ، ان جانے والے جانے انجانے رستوں میں ماوں کے جوان بیٹے بھی
گئے ، بہنوں کے چہتے بھائی بھی گئے /بستی پہ اداسی چھانے لگی میلوں کی
بہاریں ختم ہوئیں / دھول اڑنے لگی گھروں میں چہروں کی مسکانیں ختم ہوئیں -
کتنے اور ایسے بے شمار خانداں ہیں جو آج شام کے سائے پھیلنے تک ساحل پہ
کھڑے اپنے پیاروں کی لاشوں کے منتظر ہیں ، ٖغوطہ خوروں کی ایک فوج ہے جو
زندگی کے تحفظ کے لیے تو ساحل پہ نہ تھی مگر بے جان لاشوں کو با حفاظت
تابوت کی زینت بنانے کے لیے ہمہ تن مصروف ہے -
وہی ظلمت ہے فضاوں پہ ابھی تک طاری
جانے کب ختم ہو انساں کے لہو کی تقطیر |