قوم کے مستقبل کو بچایا جائے

رمضان شریف میں وقت کی کمی اور مصروفیت کی وجہ سے قلم سے کچھ دنوں کے لئے دور ہونا پڑا تو محسوس ہوا کہ جیسے کوئی بہت ہی اہم اور قیمتی چیز مجھ سے دور ہو گئی ہے کئی موضوع ذہن میں آتے جن پر بہت کچھ لکھا جا سکتا تھا مگر عید کیا آئی ایک ایسا موضوع دے گئی جس پر واقعی ہی مجھے لگا کہ اس پر لکھنا بہت ہی ضروری ہے عید کے دنوں میں کھلونا مارکیٹ میں سب سے زیادہ بکنے والی ایک خاص کھلونا بندوق جسے بچے پسٹل یا گن کے نام سے جانتے ہیں عام اوربہت ہی زیادہ فروخت ہوئی یہ کھلونا ایک مکمل کلاشنکوف کی پلاسٹک نقل ہے جس کو بچے گن یا پسٹل کے نام سے جانتے ہیں اور اسی وجہ سے بڑی تعداد میں خریدتے بھی ہیں یہ گن ہر طرح کے سائز میں دستیاب ہے میگزین کی لوڈنگ سے لے کر فائرنگ تک اسے اصلی گن کی طرح ہے تاجروں کا کہنا تھا کہ صرف گذشتہ سال میں کھلونا بندوقوں کی تجارت 40 لاکھ روپے سے زیادہ ہوئی جو بچوں میں ایسے کھلونوں کی مقبولیت کے رجحانات کی عکاسی کرتا ہے۔اس عید پر بھی تقریبا تمام بچوں کی نظر دکانوں میں کھلونا اسلحہ پر تھی اور ان میں سے بیشتر کی تمام عیدی ان کے جیب خرچ کی طرح کھلونا بندوقوں پر خرچ ہوئی۔اور تقریبا تمام بچے پولیس بمقابلہ ڈکیت یا دہشت گرد ،دہشت گرد کا کھیل رہے تھے جس میں منہ سے ٹھا ٹھا ٹھا‘ کی خوفناک آوازیں نکال رہے تھے اور ان کے دوست زمین پر تڑپ تڑپ کر مرنے کی اداکاری کر رہے تھے۔میرے خیال میں بچوں کے اس ری ایکشن کی وجہ میڈیا پر کھلے عام تشدد کے واقعات دکھائے جانا بھی ہے جہاں دہشت گردوں کو اسلحے سے لیس منہ پر نقاب چڑھائے دکھایا جاتا ہے ان کے انٹرویو نشر کیے جاتے ہیں اس طرح اسلحے کی نمائش ہی بچوں کے اس طرح کے کھلونوں کے شوق کی بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ نائن الیون سے پہلے بچے کھلونوں میں کار یا جہاز یا اس قسم کے دوسرے کھلونے لینا پسند کرتے تھے لیکن اب تو بس بندوقیں یا پسٹل وغیرہ ہی لیتے ہیں اور اس کا اتنا اسرار کیا جاتا ہے کہ والدین بے بس ہو کر انھیں یہ کھلونا دلوا ہی دیتے ہیں جن کے کھیل میں بھی بس یہ ہی نظر آتا ہے کبھی لڑ رہے ہیں اور کبھی ایک دوسرے کو شوٹ کر رہے ہیں گو کہ یہ اسلحہ نقلی ہے مگر اس کے اثرات لازمی طور پر بچوں کے ذہنوں پر پڑیں گے اور جس طرح وہ بات بات پر ٹھا ہ ٹھاہ کرتے نظر آتے ہیں اس سے کل مستقبل میں ان بچوں پر کیا اثر پڑے گا اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ہاں اس بات کا خیال والدین کو رکھنا ہو گا کہ وہ بچوں کو کس قسم کا کھلونا دلوا رہے ہیں اور ان کو گنیں اور پسٹل وغیرہ دلوانے میں احتیاط سے کام لینا ہو گا تاکہ بچوں کو ان کے نفسیاتی اثرات سے بچایا جا سکے ان کھلونوں کے بچوں کے اوپر ہونے والے منفی اثرات حکومت کو بھی شاید محسوس ہو رہے ہیں قومی اسمبلی اور دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی ایسی قانون سازی پر غور کر رہی تھی مگر شایدیہ قانون سازی بھی کہیں فائلوں کی گرداب میں پھنس کے رہ گئی ہو گی اس قانون سازی سے کھلونا بندوقوں کے بے لاگ فروخت پر پابندی لگائی جا سکے گی۔اب تو تمام پاکستانی بچے اور خصوصا قبائلی علاقوں کے بچے انتہاپسندی پر مبنی کھیل کھیلتے ہیں بچوں سے پوچھا جائے کہ آپ ان بندوقوں سے کیوں کھیلتے ہیں تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ہم دہشت گرد ختم کر رہے ہیں ماہرین کے مطابق پاکستان کے موجودہ حالات میں شدت پسندی کا کھیل جنگی میدانوں سے اب شہروں اور گھروں میں پہنچ چکا ہے نفسیاتی ماہر ین کا کہنا ہے کہ بچوں میں احساس کی صلاحیت ابھی پوری طرح نہیں بنی ہوتی، ایسی صورت میں بچے کو باآسانی شدت پسندی کی طرف مائل کیا جا سکتا ہے اس کا ایک ثبوت سوشل میڈیا پر جہادی ویب سائٹوں کے پروپگنڈا کلپس کی بڑی تعداد ہے جہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کو جنگی تربیت لیتے ہوئے دکھایا جا تا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس پکتے ہوئے لاوے کو کنٹرول کرنے کے لئے ایسے تمام کھلونوں پر فلفور پابندی لگائے جن سے ملک کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگنے کا خدشہ ہے کیونکہ آج اگر ہمارے بچے ان کلاشنکوفوں سے کھیلیں گے جو اگرچہ نقلی ہیں جن سے کسی کو خوف بھی نہیں آتا مگر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ تھوڑی سی برین واشنگ سے ان کے معصوم ذہنوں کو شدت پسندی کی طرف مائل نہ کیا جا سکے اس لئے ابھی وقت ہے کچھ کرنے کا ایسا نہ ہو وقت گزر جائے اور ہم لکیر پیٹتے رہ جائیں حکومت کو فلفور ان جیسے تمام کھلونوں کی درآمد پر پابندی لگا دینی چاہیے تاکہ نئی نسل کو اسکا عادی ہونے سے بچایا جا سکے -

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227391 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More