دیوانے کا خواب

تحریر: سلمان شاہد

یہ ایک حقیقت ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کو حضرت قائداعظمؒ نے1947ء میں انگریز اور ہندو بنئے سے آزادی دلائی قیام پاکستا ن کے بعد اس بات کی قوی امید تھی کہ مسلمان پاکستان میں اسلامی نظام نافذکرنے میں آزاد ہوں گے اور عام شہری اسلام کے دائرہ ٔ کار میں رہتے ہوئے اپنی زندگی گذارنے کے اصول و ضوابط طے کرلیں گے لیکن68سال گذرنے کے بعد بھی ایسے لگتا ہے ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کو ایک اسلامی ،فلاحی مملکت بنانا تو دور کی بات اس کے متعلق کبھی سوچا بھی نہیں یعنی کہ
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

لیکن ایک بات ہے پھر بھی ہم نے چند شعبے ایسے ہیں جن میں آزادی حاصل کی ہے بلکہ حیرت انگیز آزادی کی چند مثالیں یہ ہیں ۔۔۔ہماری پیاری افسر شاہی جب چاہے بے چاری عوام کا کام کریں یا نہ کریں۔۔۔پولیس کو آزادی ہے وہ ملزم/مجرم کو پکڑیں یا چھوڑ دیں۔۔۔ عدالتوں کو آزادی ہے وہ مقدمات کا فوری فیصلہ کریں یا لٹکا دیں۔۔۔حکومت کو آزادی ہے وہ جب چاہے عوام پرپٹرول بم گرا دے یا پھر بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ پورا کریں یا نہ کریں ۔۔ عدالتیں چیختی رہیں حکمران بلدیاتی انتخابات کروائیں یا عوام کو افسر شاہی کے رحم و کرم پرچھوڑ دیں۔۔کوئی پوچھنے والا نہیں -

دیوانوں نے خواب دیکھا تھاعدلیہ آزاد/بحال ہو جائے گی تو عوام کو سستا اور فوری انصاف مہیا ہو گا۔۔۔ ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ ہوجائے گا لیکن لگتا ہے یہ خواب ایک دیوانے کا خواب تھا جبھی تو اس کی تعبیر کو لوگ ترستے پھررہے ہیں،عدلیہ کی آزادی یابحالی کا خواب ایک سہانا خواب تھا آج توحکمرانوں کو اتنی آزادی ہے کہ وہ چاہیں تو روز بجٹ پیش کردیں جب موڈ ہو بجلی ،گیس اورپٹرولیم کے نرخ بڑھا دیں۔۔۔ہے کوئی ان کے اختیارات کو چیلنج کرنے والا؟ ۔۔میرے نزدیک عدلیہ اور پالیمان جہاں آئین اور قانون کی بات کرتے ہیں وہاں ایک لفظ کااضافہ کرلیں وہ ہے ضمیر یعنی ہم فیصلے آئین، قانون اورضمیر کے مطابق کریں گے ویسے بھی اگر حکمران، عدلیہ یاپھر عام آدمی اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کرے تواس سے معاشرہ میں بہتری آسکتی ہے، اگر کوئی اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے یا اپنے ضمیر کے بر عکس فیصلہ کرے تو ایک نہ ایک دن اس کا ضمیر ضرور ملامت کرے گا ویسے اگر فیصلے ضمیر کے مطابق ہوں تو کوئی ٹکراؤ یا قباحت نہیں ہو گی آزمائش شرط ہے ،بشرطیکہ آدمی کا ضمیر زندہ ہو ۔۔۔آخر میں چلتے چلتے ایک اور بات۔۔پرانے زمانے میں طاقت کی دوائیں سنیاسی فٹ پاتھ پر اور پٹھان سلاجیت مجمع لگا کر اور کچھ مداری قسم کے عطائی سانڈے کا تیل بیچا کرتے تھے آج جدید دور ہے شاید اسی لئے طاقت کے نسخے اسمبلی میں بھی آگئے ہیں ایک فاضل رکن اسمبلی نے بیان دیا ہے کہ اگر حکومت اپنے آپ کو کمزور سمجھتی ہے تو وہ اس کے پاس آئے میرے پا س طاقت کے انجکشن ہیں یہ تشبیہ یا ا ستعارہ انہوں نے کیوں استعمال کیا یہ تووہی جانتے ہو گے اگر اتنا مجرب نسخہ واقعی ان کے پاس ہے تو ملک کے بیشتر لیڈر علاج کروانے کیلئے بیرون ملک کیوں جاتے ہیں؟
 

Abrar Siddiqui
About the Author: Abrar Siddiqui Read More Articles by Abrar Siddiqui: 16 Articles with 9067 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.