خیال رہے آزادی مارچ کہیں کوئیک مارچ یا قید مارچ
میں نہ تبدیل ہوجائے...؟؟؟؟
آج گرماگرم مُلکی سیاست میں لکھنے کو تو بہت کچھ ہے مگر کیا کروں ..؟طبیعت
ہی کچھ سُرمیں نہیں ہے،بس عادتاََ لکھنے کو بیٹھ گیاہوں،کوشش کروں گاکہ کچھ
مختصرلکھوں ،اور کم وقت میں اُس نُوراکُشتی کا احاطہ کروں ،آج جو میرے مُلک
میں کھیلی جارہی ہے،جیساکہ میں اپنے کالموں میں پہلے بھی کہہ چکاہوں کہ ایک
عرصے سے میرے مُلک کے سیاستدانوں میں اقتدارکے لئے نوراکُشتی کا عنصرغالب
ہے،اوراَب موجودہ حالات میں تو اِس کا مشاہدہ باآسانی کیا جاسکتاہے ،یعنی
یہ کہ آج جو برسرِاقتدارہے ،اِس نے بھی ماضی میں ایسی ہی نوراکُشتی کا
ڈھونگ رچایاتھاآج جس کا اِسے سامناہے اور آج جو حزبِ اختلاف میں بیٹھاہے
اُسے بھی کبھی ایسی ہی نوراکُشتی سے واسطہ پڑاتھا ،اِن حالات میں جس کے
سہارے یہ اپنا سیاسی قداُونچاکرنے پر لگاہواہے الغرض یہ کہ آج ہماری سیاست
کے میدان اور اقتدارکی دوڑمیں نُوراکُشتی کا عنصرایساہی لازم وملزوم
ہوگیاہے جیساکہ کسی جسم کے لئے خون اور اِنسانوں کے سانس لینے اوراِنہیں
زندہ رہنے کے لئے آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے یکدم اِسی طرح ہماری سیاست اور
اقتدار کی جنگ کے لئے نُوراکُشتی کی حیثیت ہوگئی ہے۔ بقولِ شاعر:۔
ارضِ وطن سے کوئی بھی مخلص نہیں ہے
آج ہر دردمنددل میں یہی اِضطراب ہے
وہ حزبِ اختلاف ہوکہ حزبِ اقتدار
سچ پوچھیئے تو دونوں کی نیت خراب ہے
اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ حالات میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کا
کھیلا جانے والا نوراکشتی کا کھیل اُس عروج پر پہنچاہوادکھائی دے رہاہے
جہاں سے کوئی بھی خودنیچے گرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں رہاہے، مگر حقیقت یہ
ہے کہ اِس کش مکش میں کسی نہ کسی کو توضرورہی نیچے گرناہوگا،کیوں کہ اَب
اِس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں رہ گیاہے، درحقیقت اِس کے کہ جن مقاصدکے لئے
یہ نوراکشتی کی جارہی ہے ،اِس سے بھی سب ہی واقف ہیں مگر کوئی بھی کھل کر
اپنے عزائم کو آشکارکرنے کو تیاریوں نہیں ہے کہ اِن کے عزائم کے عیاں ہوتے
ہی نوراکشتی کا مقصدخاک میں مل جائے گااور سارے گیم کی بچھائی گئی بساط
اُلٹ پلٹ ہوجائے گی،ایسالگتاہے کہ جیسے آزادی و لانگ مارچ اور انقلاب کا
نعرہ بلندکرنے والوں کے پیچھے خودحکومت کا ہی ہاتھ ہے، کیوں کہ حکومت
سواسال میں یہ طرح سے سمجھ چکی ہے کہ اَب حکومت کرنااِس کے بس میں نہیں
رہاہے، اور اِس نے عوام سے جو وعدے کئے تھے یہ اِنہیں بھی پوراکرنے میں
بُری طرح سے ناکام ہوگئی ہے اَب ایسے میں حکومت کی بس ایک یہی کوشش ہے کہ
خداکرے کہ ایساکوئی سیاسی عمل شروع ہوجائے کہ جو حکومت مخالف ہواور آج اﷲ
کا شکرہے کہ حکومت کی یہ دُعاقبول ہوئی اور اِن حالات میں کہ جب حکومت
خوداقتدارچھوڑنے کے لئے آمادہ دکھائی دیتی ہے اِس کی مخالفت کے لئے عمران
خان المعروف سونامی آزادی و لانگ مارچ اور دھرنے اور دوسری طرف علامہ
طاہرالقادری انقلاب کا جھنڈااُٹھائے حکومت کے خاتمے کے لئے 14اگست کو اسلام
آبادکی جانب روانہ ہونے کے لئے تیاریوں میں مصروف ہیں،آج ایسابھی لگتاہے کہ
جیسے سب اپنے دیکھے اور اَن دیکھے مقاصداور انجام کے چکرمیں پڑے ہوئے ہیں
اِن کی اِن ہی کیفیات پر شاعرکاکہناہے کہ:۔
نفرت کا بول بالا کہیں انتشارہے
اِس غم میں آج قلب ونظرسوگوارہے
میرے بہشتِ ارض میں فتنوں کا ہے نزول
میرے وطن میں کشمکشِ اقتدارہے
یقیناآج آزادی اور لانگ مارچوں اور انقلابیوں کے انقلاب کی بازگشت نے
حکمرانوں اور اِن کے ظاہروباطن حامیوں کی نیندیں غائب کردیں ہیں تووہیں قوی
امکان ہے کہ اِن سب کے اوسان بھی خطاہوگئے ہوں گے مگرپھر بھی دنیا دکھاوے
کے لئے ہی صحیح گرماگرم سیاسی ماحول کو معمول پر لانے اور حالات کا کچھ نہ
کچھ مقابلہ کرنے کے خاطرحکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے
والے ہمارے وزیراعظم میاں محمدنوازشریف اور اِن کی کچن کابینہ کے لوگ مُلک
کی دیگرجماعتوں کے سربراہان سے رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنی اِس کوشش
میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی بھی طرح سے لانگ اور آزادی مارچ اور انقلاب کا
نعرہ لگانے والوں سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنی کمرمضبوط کی جائے۔
آج اگر موجودہ حکومت کی سواسالہ کارکردگی کا جائزہ لیاجائے تو اِس میں کوئی
شک نہیں کہ ہمیں کوئی ایک سوراخ بھی ایسانظرآئے جس سے قوم کی بہتر اور
اچھائی کی نویدکی کوئی ایک ننھی سی بھی کرن دکھائی دے آج شایدایسے ہی
حکمرانوں اور اِن کے حامی چیلے سیاست دانوں سے متعلق شاعرنے کیا خوب کہاہے
وہ کہتاہے کہ:۔
وہ جن کی سیاست نے کیا مُلک کو غارت
اے قوم آج اُن کے عزائم پہ نظربھی
وہ جن کی حماقت نے کیا خونِ اخوت
کچھ ایسے عناصر کے جرائم پہ نظر بھی
آج مُلک میں جیسے جیسے 68ویں یوم ِ آزادی کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے
تودوسری طرف لانگ مارچ اور آزادی مارچ سمیت انقلاب کی آوازبلندکرنے والوں
کے عزائم سے نمٹنے کے لئے برسرِاقتدارجماعت کی پریشانیاں اور اِس کا
بلڈپریشربھی بڑھتاہی جارہاہے، تووہیں وزیراعظم نوازشریف نے بھی کمرکس لی ہے
اوراِنہوں نے آنے والے وقت میں اپنی حکومت کے لئے پیداہونے والی مشکلات اور
پریشانیوں سے نمٹنے کے لئے سیاسی قائدین سے زوراورشورسے مشاورتیں کرنی بھی
شروع کردیں ہیں جہاں وزیراعظم اور اِن کے وزراء اپنی اپنی پیشانیوں پرآئے
پسینوں کے ساتھ سیاسی قائدین سے رابطوں پہ رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں تو
وہیں فرینڈلی اپوزیشن کا رول اداکرنے والی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے
چئیرمین اور سابق صدرآصف علی زرداری نے بھی انتہائی محتاط اندازے لانگ مارچ
و آزادی مارچ کرنے والی جماعت تحریک انصاف پاکستان کے چئیرمین عمران خان کو
فون اور سراج الحق سے بھی رابطے کئے ہیں اور اخبار ی خبروں کے مطابق اِس
دوران اُنہوں نے شفاف انتخابات کے لئے تحریک انصاف کی جدوجہدکی حمایت کا
اعلان کیااور خدشہ ظاہر کیاہے کہ ٹکراؤ کی صورتحال میں جمہوریت کونقصان
پہنچ سکتاہے‘‘یعنی موجودہ حالات میں کچھ ایسے بھی ہیں جو صاف چھپ بھی نہیں
رہے ہیں اور سامنے بھی نہیں آرہے ہیں ‘‘ ایسے لوگوں سے حکمران جماعت اور
مارچیوں اور انقلابیوں کو بھی ہوشیاررہناچاہئے ایسے لوگ کسی کے لئے بھی کچھ
بھی ثابت ہوسکتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں کے لئے شاعریہ کہتاہے کہ:۔
جس سے وقار وطن کا بُلند ہو
میرے وطن میں ایسی سیاست کاقحط ہے
بے داغ کہہ سکیں جِسے بے لوث کہہ سکیں
میرے وطن میں ایسی قیادت کا قحط ہے
اَب آخرمیں چلتے چلتے میں یہ عرض کرناچاہوں گاکہ حکومت مخالف اور حکومت کے
حامی عناصر کو موجودہ حالات میں حاضردماغی اور ہوش مندی سے کام لیناہوگاکسی
کی ذراسی بھی غلطی کوئی بڑاسیاسی حادثہ رونماکراسکتی ہے جس کا خمیازہ ساری
قوم کو مدتوں بھگتناپڑسکتاہے اور ساتھ ہی یہ بھی خیال رہے کہ آزادی مارچ
کہیں کوئیک مارچ یا قید مارچ میں نہ تبدیل ہوجائے اور شاعرکے اِس شعرکے
ساتھ ہی اجازت چاہوں گاکہ:۔
لڑتے ہیں آج منصب وکُرسی کے واسطے
مِٹتے تھے کل جوجادہِٗ عشقِ جہادمیں
قوم و وطن کا آج کسی کو نہیں خیال
ڈوبی ہوئی ہے قوم سِیاسی مفادمیں |