ہم نے اپنے پچھلے کالم بعنوان آخری راستہ میں وزیراعظم
نواز شریف صاحب کو ایک صائب مشورہ دیا تھا کہ اگر آپ اپنی حکومتی مدت کو
پورا کرنے کے خواہش مند ہیں اور چاہتے ہیں کہ سیاسی میدان میں تندو تیز
انقلابی اور سونامی کی لہروں کو شکست دے سکیں تو اس ملک کی غریب عوام پر جو
ظلم و جبر کی چکی میں پسی نامحرومیوں کا شکارہے جو اب اس قدر زخموں سے چور
ہوچکی ہے کہ ڈر ہے کہیں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے یہ رحلت نہ فرماجائے
خدارا اس کے زخموں پر حقیقی جمہوریت کا مرہم لگا کراسے بچالیں عوام کے حقوق
عوام کو لٹادیں فلفور مشرف کا بلدیاتی نظام لے آئیں اور عوام کے حقوق عوام
کو واپس کریں جو آپ نے غصب کررکھیں ہیں۔لیکن پتا نہیں ہماری یہ دردناک چیخ
رایؤنڈ کے محلوں میں گونجی بھی کہ نہیں۔ خیراس پر ہم بس اتنا ہی کہ سکتے
ہیں میاں صاحب کبھی ہمارے جیسوں کی بھی سن لیا کریں فائدے میں رہیں گے۔
لیکن میاں صاحب ہماری کیا کسی کی بھی نہیں سنتے کوئی کچھ بھی بولتا رہے
لیکن میاں صاحب وہی کریں گے جو وہ کرنے آئے ہیں اور کرتے رہے ہیں مطلب اپنے
پیرو پر خود آرٹیکل 245 مارنے والی بات بنا اس کی پرواہ کئے کے اس کے نتائج
کیا ہونگے حالانکہ ایسا نہیں کے جانتے نہیں سب پتا ہے بھگتے بیٹھے ہیں لیکن
وہی بات کہ عادت ایسی پڑی کہ ظالم چھٹتی نہیں۔ کوئی ان سے پوچھے فوج کس کی
محافظ ہے آپ کی۔۔؟ جمہوریت کی ۔۔؟یا پھر اس ملک کے عوام کی ۔آرٹیکل 245 کیا
کہتا ہے سب پتا ہے ،پھرکس کی چلے گی سب پتا ہے، پھر کوئی ایک نہیں سنے گا
سب پتا ہے، ویسے کبھی تمھاری سنی ہے جو آرٹیکل 245 کے بعدآپ کی سنیں گے
حکومت کو یہ بات نہیں بھولنا چاہئیے کہ سارے شریف شریف نہیں ہوتے۔قارئین
یہاں ہم یہ بات ضرور کرنا چاہیں گے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سے لاکھ اختلاف
لیکن ہم زرداری صاحب کی سیاسی فکر اور سیاسی بازیگری سے بڑے متاثر ہیں۔
پیپلز پارٹی کے دورِ حکمرانی میں کیا کیا نشیب وفراز نہیں آئے لیکن زرداری
صاحب نے کس عمدگی سے سیاست کی بساط پر اپنے مخالفین کو چِت کیا یہ بات
واقعی قابلِ تعریف ہے۔ اور آج بھی وہ سیاست کے میدان میں ایک ماہر سیاستدان
کی طرح حالات و واقعات کا جائزہ لے رہے ہیں زرداری صاحب کی حکومت آج کی
حکومت سے قدرِ بہتر تھی یہ بات ان کے مخالفین نے بھی تسلیم کی ہے جیسا کہ
خان صاحب اپنے جلسوں میں اس ذکر کرتے آئے ہیں۔خیر میاں صاحب وقت گزر گیا اب
تو چودہ اگست کا انتظار ہے دیکھنا ہے 245 کس کے کام آتاہے ۔ عمران خان کی
موجودہ سیاست سے تو ایسا لگتا ہے کہ خاں صاحب واپسی کی تمام کشتیاں جلا کر
میدانِ عمل میں اتر آئے ہیں دوسری طرف علامہ طاہرالقادری اپنا ساراانقلابی
اندھن آزادی مارچ کو بطور عطیہ دینے کو تیار بیٹھے ہیں ادھر عوام موجودہ
جمہوریت سے تپی بیٹھی ہے مزید یہ کہ مہنگائی ،بے روزگاری ، لوڈشیڈنگ، پانی
کا بحران جیسے حکومتی تحفے عوام کو منہ چڑا رہے ہیں ایسے ماحول میں اس
دکھیاری عوام کو کوئی جھوٹے سے بھی بول دے کے حکومت کا ڈھڑن تختہ ہوگیا تو
پاؤ آدھ پاؤ میٹھائی تو وہ ویسے ہی بنا تصدیق کئے بانٹ دے ۔قارئین اب خود
سوچیں جب ملک اس نہج پر پہنچ جائے تو پھر انقلابی طور پرہی اس ملک کی تقدیر
بدلی جاسکتی ہے۔بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ چودہ اگست کو انقلاب کے نام پر
جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی سازش کی جارہی ہے لیکن قارئین کیا یہ سچ نہیں کہ
موجودہ جمہوریت دھوکا ہے جمہوریت کے نام پر ایک بد نما داغ ہے جس نے عوام
کے حقوق کو غصب کررکھا ہے صرف اس وجہ سے کہ ان کے حقوق سے حکمرانوں کی
سلطنت نہ بہہ جائیں ان کی بادشاہتیں نہ ختم ہوجاہیں۔قارئین اب وقت آگیا ہے
کہ ان خود ساختہ بادشاہوں کو گورنمنٹ نہ کرنے دی جائے جمہوریت کے نام پر نہ
آمریت کے نام پر، جب جب یہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھیں انہیں اسی طرح ڈی ریل
کردیا جائیں اور تب تک ڈی ریل کرتے رہیں کہ حقیقی جمہوریت کا قیام عمل میں
نہ آجائے اور یہ بادشاہ گرو کا ٹولہ اپنے انجام کو پہنچ کر خود سیاست سے
کنارہ کشی اختیار نہ کرلیں خود کو عوام کے آگے سرینڈر نہ کردیں جب تک یہ
عوام کو حکمرانی سے دور رکھیں عوام ان کو اقتدارسے دور رکھیں جب جب یہ
اربوں روپے خرچ کر کے حکومت کی کرسی پر براجمان ہوں عوام کو چاہیے فوراً ان
کی حاکمیت کو ڈی ریل کردیں یہی اصل انقلاب ہوگااور اصل جمہوریت کی جانب
پہلا قدم ۔ |