تحریر مولانا لقمان حکیم سابق امیر جے یوآئی و خطیب جامع
مسجد عثمانیہ کشروٹ
مولانا فضل الرحمان پاکستان میں قافلہ ولی اللٰھی کے سرخیل اورانگریز
سامراج کوملک بدر کرنے والی حریت فکر کی حامل جماعت جمعیت علماء ھند اور
اہل پاکستان خصوصا جمیعت علماء اسلام پاکستان کے صحیح اور قافلہ حق کے امین
ہیں جو اپنا مدعا نہایت سلیقے سے اور عظیم حقیقتیں نہایت سادہ الفاظ میں
بیان کر جاتے ہیں انہوں نے ملک کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے جلسے اور
اجتماعات منعقد کرکے لادین عناصر اسٹیبلشمنٹ، اور امریکہ کو چیلنج کردیا ہے
کہ پاکستان کے دفاع،معیشت ،امن و امان اور پاکستان کی سیاست پر بے دین
قوتوں کی بالادستی کبھی برداشت نہیں کریں گے اور ان تمام تر باطل نظریات
اور غیر فطری نظاموں کا بڑی دلیری سے مقابلہ کریں گے کیونکہ پاکستان کی
سیاست پر عالمی قوتوں کی بالادستی اور ان ظالمانہ رویوں کو ہم اپنی غلامی
سمجھتے ہیں اور غلامی سے نجات کیلئے آزادی کی جدوجہد کو دوام دینا جمعیت
علماء اسلام کا منشور ہے ۔نیز مولانا فضل الرحمان صاحب اسلام کی عادلانہ
سیاسی اوور اقتصادی خدوخال بڑے خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں اور وہ ایک
زیرک سیاستدان ہیں ان میں غیر معتدل رویوں میں توازن پیدا کرنے کی غیر
معمولی صلاحیت پائی جاتی ہے،اہل پاکستان کی بھاری اکثریت بھی اسی احترام ہی
کے معنوں میں لیتی ہے اس لئے مولانا فضل الرحمان کی ایمان افروز قیادت میں
امت مسلمہ کی اجتماعی مفادات کے تحفظ اور پاکستان کو ایک آذاد اسلامی فلاحی
ریاست بنانے پر مبنی انقلابی پالیسی گرانقدر قومی ملی ملکی اسلامی خدمات
اور اپ کا تاریخی کردار قیامت ناقابل فراموش ہے ایضاً مولانا فضل الرحمان
صاحب اسلام کے نظریاتی سرحدات کے تحفظ اور نظام خلافت راشدہ کے قیام کیلئے
اپنی خداداد قوت اور طاقت پوری آب و تاب کے ساتھ دکھانے کی اہلیت رکھتے ہیں
علاوہ ازیں مولانا فضل الرحمان صاحب کی ولولہ انگیز قیادت پر اکابرین امت
کے اعتماد کا یہ عالم ہے کہ آج سے چند سال قبل لاہور میں مینار پاکستان میں
جمعیت علماء اسلام پاکستان کی ایک کانفرنس ہوئی تھی جس میں حافظ الحدیث
والقران جناب مولانا عبداﷲ درخواستی نے مولانا فضل الرحمان کی قیاد ت پر
اعتماد کرتے ھوے بندوق اپ کے ھاتھ میں دیکر فرمایا تھا ’کہ جاؤ اسلام کے
عادلانہ نظام کے نفا ز کیلئے بے لوث خدمت کرتے رہو اﷲ تعالیٰ تمہارا حامی و
ناصر رہے گا‘-
نیز مولانا فضل الرحمان کی مذہبی اور سیاسی قیادت پر اکابرین امت کے اعتماد
کی دوسری مثال یہ ہے کہ جب سے عالم کائنات کو وجود ملا ہے اور حضرت انسان
اس عالم ہست و بود کی زینت کا باعث بن گیا ہے رب کائنات کی طرف سے حضرت
انسان کی رشد وہدایت دو مضوط طریقوں پر قائم و دائم چلا آرہا ہے ایک ہے
کتاب اﷲ اور دوسرا ہے رجال اﷲ کی محنت و کاوش،دعوت و تبلیغ،اور جہاد و قتال
کے طریقوں پر ۔اور یہ سلسلۃ الذہب کبھی کسی مقام پر ٹوٹا نہیں اور آنحضرت ﷺ
نے اس خدائی اور مشن نبوی کو جس کا زکر خودخدائے پاک نے
ہوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق
کے الفاظ سے بیان فرمایا اپنی حیات مبارکہ تک محدود نہیں بلکہ اس خدائی
پیغام کی عالمگیریت اور افادیت اور ثمرات کو رہتی دنیا تک پہنچانے کیلئے
صحابہ کرام کے بعد حضرات علماء کرام کو اپنا فکری جانشین اور علمی وارث
قرار دیکر بھاری زمہ داری ان پر عائد فرمائی چنانچہ ارشاد فرمایا
العلماء و رثۃ النبیاء(علماء انبیاکے وارث ہیں)
اور انبیاء علیھم السلام وراثت میں دینار و دراہم نہیں چھوڈجاتے ہیں بلکہ
حضرات انبیاء کرام کی وراثت علم ہے چنانچہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق
حضرات علماء کرام اپنا دینی فریضہ انجام دے رہے ہیں جو انہیں حضرت رسول
اکرم ﷺ سے وراثت میں ملا ہے انبیاء کے علمی وارثوں میں جن حضرات علماء کی
قسمت میں جو خوش نصبی آئی ہے اور جن کے علمی سفر کا پہلا سرہ علوم نبوت کے
آستانہ تک پہنچتا ہے اور جمہور و عامۃ الناس جنہیں واقعتاً حضرات انبیاء کا
وارث سمجھتے ہیں اور ایک دنیا ان کے اس وراثت کے صحیح حقدار ہونے کے معترف
ہے وہ حضرات علماء دیوبند ہے جو اہلسنت کی صحیح تعبیر ہے اور جن کا مسلک و
مشرب حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب رحمہ اﷲ کے الفاظ میں یہ ہے کہ
دارالعلوم دنیائے مسلم و فرقہ اہلسنت والجماعت مذہباً حنفی،کلاماً
اشعری،سلوکاً جامع سلاسل،فکراً اولی اﷲیٰ اور نسبتاً دیوبندی ہے‘
ان علماء دیوبند نے مختلف ادوار میں جمھں کون کون سے کارہائے نمایاں انجام
دئے ان کارناموں کا تذکرہ کرنے ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کرنے نئی نسل
کو تاریخ علماء دیوبند سے روشناس کرانے چہار دانگ عالم میں پھیلے لاکھوں
وابستگان دیوبند کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کرنے اور دنیا بھر کے مسلمانوں
کو دکھ درد بانٹنے کیلئے جراء ت مندوں کے شہر پشاور سے 12کلومیٹر دور مشرق
کی طرف ’تاروجبہ‘واپڈا ہاؤس سکیم کے مقام پر تین روزہ کانفرنس بعنوان ڈیڑھ
سوسالہ خدمات دارالعلوم دیوبند عالمی کانفرنس بتاریخ 9اپریل 2001میں منعقد
کی گئی اس انٹرنیشنل کانفرنس کو منعقد کرانے کی سعادت مملکت خدادات پاکستان
کی سب سے بڑی دینی،سیاسی جماعت اور علماء دیوبند کے سیاسی و نظریاتی افکار
کی وارث جمعیت علماء اسلام صوبہ سرحد کے حصہ میں آئی اس تاریخ ساز فقید
المثال اور یادگار کانفرنس میں 20لاکھ سے زیادہ افراد نے شرکت کی بلامبالغہ
پاکستان کی تاریخ میں علماء حق و صداقت کا سب سے بڑا اجتماع تھا ۔سعودی
عرب،متحدہ عرب
امارات،قطر،عراق،لیبیا،کویت،افغانستان،ہندوستان،ایران،برطانیہ،امریکہ اور
بنگلہ دیش سمیت بیرونی ممالک سے بہت بڑی تعداد میں علماء کرام اور درد و دل
رکھنے والے والے مسلمان شریک ہوئے اندرون ملک سے بھی ہزاروں کی تعداد میں
جید علماء کرام،ہزاروں دینی مدارس،اور جامعات کے مہتممین،سینکڑوں سیاسی
محترم شخصیات اور فضلاء دارالعلوم دیوبند نے شرکت کی اس یادگار کانفرنس سے
خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے مختصر مگر پر جوش انداز میں خطاب
کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ’محمود نامی جس اکلوتے طالب علم کو چھتہ والی مسجد
میں بٹھاکر دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی گئی اس محمود نے آگے بڑھ کر شیخ
الہند کی حیثیت سے جمعیت علماء ہند کی بنیاد ڈالی اور جمعیت علماء اسلام
اسی جمعیت علماء ہند کا تسلسل ہے لہٰذا اسی بناء پر ہم کہتے ہیں کہ
دارالعلوم دیوبند جمعیت علماء کے بغیر ادھوراہے اور جمعیت بغیر دارالعلوم
کے نامکمل ہے،
اور اسی عالمی کانفرنس میں جب حضرت امیر المومنین امارت اسلامی افغانستان
ملاعمر مجاہد مد ظلہ کی تقریر ٹیپ کے زریعے سنائی گئی تع مجمع سے ’دو ملکوں
کے دو طوفان ملا عمر اور فضل الرحمان ‘جیسے فلک شگاف نعروں سے پورا علاقہ
ایک بار پھر گونج اٹھا تھا۔نیز اس عظیم الشان کانفرنس میں صوبہ سرحد کے
معروف خطیب مولانا محمد امیر بجلی گھر نے اپنے خطاب میں کہا کہ
1986میں بھارت کے دارالحکومت دہلی میں حضرت شیخ الہند سیمینار منعقد ہوا جس
میں بھارت کے کئی پارلیمنٹیرین شریک تھے اور ہم بھی وہاں مدعو تھے دوران
وقفہ ایک معروف ہندو لیڈر سے میں نے پوچھا آپ حضرات کا شیخ الہند سے کیا
تعلق اور واسطہ جو یہاں حاضر ہوئے ہو؟ اس ہندو لیڈر نے کہا کہ ہم جو آج
آزاد قوم ہیں نا یہ شیخ الہندؒ کی برکت سے ہیں اور تمہارا پاکستان بھی شیخ
الہند کی برکت سے ہے‘
واضح رہے کہ کانفرنس کے بالکل آخری مراحل میں مرکزی ناظم مالیات جناب خواجہ
محمد زاہد شہید کی تجویز پر مولانا فضل الرحمان کی عملی،علمی،فکری،تبلیغی
،جہادی اور سیاسی خدمات کے حوالے سے اس عظیم الشان عالمی اجتماع کے اہم
مندوبین میں مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے اکابرین مولانا مرغوب
الرحمان،مہتمم دارالعلوم دیوبند،مولانا قاری عثمان صاحب نائب مہتمم
دارالعلوم دیوبند،جمعیت علماء ہند کے امیر و جانشین حضرت مدنی مولانا سید
اسعد مدنی و اساتذہ دارالعلوم دیوبند وغیرہ اور دیگر مشائخ و جید علماء
کرام نے حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کی اعزازی دستارفضیلت باندھی اور جب
قائد جمعیت کی دستاربندی اور اکابرین امت کا ان پر برملا اعتماد کرنے کا
اعلان کی جارہا تھا تو سارا مجمع ایک بار پھر قائد کے فرمان پر جان بھی
قربان ہے کے فلک شگاف نعرے لگاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور جب قائد جمعیت کے سر
پر دستارباندھی گئی تو عجیب سماں بندھ گیا تھا علاوہ ازیں پاکستان اسلام کا
قلعہ ہے اور کراچی پاکستان کا وہ عظیم الشان اور عروس البلدان شہر ہے جسے
یقیناً زندہ دلان اسلام کا قلعہ قرار دیا جاسکتا ہے جمعیت علماء اسلام نے
کراچی میں باغ قائد کے مقام پر اسلام زندہ باد کانفرنس کے عنوان سے ایک
عظیم الشان عوامی اجتماع منعقد کرکے جہاں مغرب زدہ طبقے اور اسلام و
پاکستان دشمن عناصر کو حیران و پریشان کردیا ہے وہاں ناقدین کے بھی منہ بند
کردئے جو جے یوآئی کی مقبولیت کا گراف گرنے کی خودساختہ تاویلات پیش کررہے
تھے اس کانفرنس میں شرکاء کی تعداد 14لاکھ تھی جس کا آغاز تلاوت کلام پاک
سے ہوا اور اختتام دعا سے اور کل 28مقررین حضرات نے خطاب کیا چار شعراء نے
اپنا کلام پشتو،ہند کو،سندھی زبانوں میں پیش کیا اور کل 14قراردادیں پاس کی
گئیں -
جمیعت علماء اسلام کے تحت۷۲جنوری2012کو ہونے والی تاریخ اسلام زندہ باد
کانفرنس نے کراچی میں سیاسی اور مذہبی جلسوں کی نئی تاریخ رقم کردی ہے اور
اعلان کردیا کہ جمیعت ملک میں خلافت راشدہ کا نظام نافظ کرکے پاکستان کو
ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتی حیں۔جمیعت علماء اسلامیں حضرت مجدد الف
ثانی کی تعلیمات کی پرچار حضرت شاہ ولی اللّٰہ کے افکار کی امین اور شیخ
الہند کے نظریہ کی علمبردار ہے جس کی قیادت شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد
علی لاہوری،حافظ القرآن والحدیث حضرت مولانا عبداﷲ درخواستی ،مفکر اسلام
مولانا مفتی محمود،بطل حریت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی،عارف باﷲ حضرت
مولانا عبدالکریم قریشی،ضیغم القرآن حضرت مولانا شاہ محمد امروٹی،اور شیخ
الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے پروردہ حضرت مولانا سید حامد
میاں جیسے رجال کار اور نفوس قدسیہ کرتے رہے ہیں،اس لئے ان سلاسل کے
متعلقین و متوسلین جے یو آئی کے کاروان میں شامل ہیں اور غلبہ اسلام کی
جدوجہد کیلئے شب و روز کی تمیز بالائے طاق رکھتے ہوئے غلطان و سرگردان ہیں
جمعیت علماء اسلام کی خوش نصیبی ہے کہ اسے پاکستان کے سیاسی رہنماؤں میں
زیرک ترین اور مدبر رہنماء حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کی شکل میں قائد و
رہبر میسر آیا ہے اور جمعیت علماء اسلام کے سیاسی اورتنظیمی دائرے کے علاوہ
ملک میں اسلامی فکر اور دینی سوچ رکھنے والے عقل سلیم اور صحیح الفکر اصحاب
فی الوقت جمعیت کی ضرورت و اہمیت کے قائل اور اس کے پروگرام سے اتفاق کرتے
ہیں نیز یہ مخفی نہ رہے کہ قبل ازیں بھی جے یو آئی نے کئی ایک کانفرنسیں
منعقد کی تھیں (جن میں آئین شریعت کانفرنس،تحفظ دینی مدارس کانفرنس،شیخ
الہند کانفرنس،مفتی محمود کانفرنس)لیکن اب کی دفعہ اسلام زندہ باد کانفرنس
کی شان و شوکت کچھ اور ہی تھی جس میں پاکستان کے ہزاروں دینی مدارس کے
18لاکھ طلباء و طالبات کے اساتذہ اور کراچی کے بڑے جامعات کے مدیران علمی و
عملی اخلاقی دنیا کی قدآور شخصیات اور وفاق المدارس العربیہ سے منسلک
اکابرین و شیوخ نے شرکت کرکے کانفرنس کی سرپرستی فرماکر قوم پر واضح کیا کہ
میدان سیاست میں جمعیت علماء اسلام ان کی نمائندہ جماعت ہے جو کہ قائد
جمعیت علماء اسلام حضرت مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں سرگرم عمل ہے اوار
بے دینی کے مقابلے میں سد سکندری بنی ہوئی ہے اور تمام اکابرین و علماء
کرام نے ہر قسم کے تعاون کا بھی یقین دلایا یہ سب کچھ بفضل ایزدی مولانا
فضل الرحمان کی مدبرانہ دینی فکر اور سیاسی و مذہبی تاریخی کردار و نظریات
کا نتیجہ ہے -
نیز جب دنیا کی نام نہاد سپر پاور امریکہ افغانستان میں طالبان کی نوزائیدہ
اسلامی مملکت اور عالم اسلام کی ہیرو اور مجاہد اسامہ بن لادن پر ایک
بھرپور اور زور دار حملہ کیلئے پوری طرح تیار تھی اور اس مقصد کیلئے اس نے
بغل بچوں اسرائیل،بھارت،احمد شاہ مسعود کی مکمل امداد حاصل کررکھی تھی جبکہ
روس اورایران بھی اس خوفناک سازش میں برابر کے شریک تھے اس مذموم منصوبہ کے
مطابق جولائی اور اگست کے درمیان کسی بھی وقت احمد شاہ مسعود کے زریعہ
طالبان پر بہت بڑے حملہ کا آغاز ہونا تھا ایسے کٹھن اور مشکل وقت میں جبکہ
ہر طرف امریکہ کا خوف و دہشت اور مردنی چھائی ہوئی تھی پاکستان کے بڑے بڑے
مجاہد اول و آخر چپ سادھے بیٹھے تھے اور قریب تھا کہ اپنے مذموم منصوبہ پر
عمل کرتے ہوئے طالبان کے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجاکر وہاں سے
جہاد،مجاہدین اور اسلامی حکومت کا نام و نشان مٹادیتا کہ اچانک عالمی میڈیا
سے بلند ہونے والی ایک جرائت مندانہ صدا نے پوری دنیا میں ہلچل مچادی
کہ’اگر امریکہ نے اسامہ یا افغانستان پر حملہ کیا تو نہ صرف پاکستان میں
کسی بھی امریکی کو زندہ نھیں چھوڑیں گے بلکہ پوری دنیا میں امریکیوں سے
انتقام لیا جائے گا،،۔
عالم کفر کے ایوانوں میں گونجتی ہوئی یہ صدا پاکستان میں قافلۂ ولیاﷲی کے
سر خیل اور انگریز سامراج کو ملک بدر کرنے والی حریت فکر کی حامل جماعت
جمیعت علماء ھند کی وارث حضرت مولانا فضل ا لرحمان امیر جمیعت علماء اسلام
پاکستان کی تھی ۔پھر کیا تھا کہ کلینٹن کے ایک اشارہ آبرو پر دم ہلانے والے
حکمران اور ایک امریکہ کے خوف سے کانپنیے والے دانشور پسینے میں بھیگ
گئے۔امریکہ کے ٹکڑوں پر پلنے والے حکمرانوں کے دیش میں درویش صفت مرد مجاہد
کی اتنی ہمت اور جراء ت کہ وہ ددنیا کے واحد سپر پاور اور ہمارے آقا و داتا
کو اس کے لہجے میں جواب دیتا ہے مولانا کے اس ایک جراء ت مند اعلان کے بعد
سپر پاور صفر پاور بن گئی اور اسی لئے فوراً پاکستان ایران اور احمد شاہ
مسعود کے علاقوں میں موجود اپنے کمانڈوز کو زیر زمین جانے کا حکم دیدیا اس
کے بعد مولانا سے ملاقات کا وقت لینے کی منت سماجت شروع کردی مسلسل اور
شدید اصرار کے بعد مولانا نے ملاقات کا وقت دیدیا تو امریکی سفارتکار خاتون
اپنی روایتی غرور اور تکبر کااظہار کرتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں مولانا
سے گفتگو کا آغاز کردیا جس کے جواب میں مولانا نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر
صاف صاف ببانگ دہل جواب دیا کہ ’اگر مزاکرات کی بات کروگے تو ہم مزاکرات
کیلئے تیار ہیں اگر تم سفارتکاری کیلئے تیار ہو تو ہم سفارتکاری کیلئے تیار
ہیں لیکن اگر تم گولی کی زبان میں بات کروگے تو جواب بھی گولی سے دیا جائے
گا،اگر ہم اپنی سرزمین پر محفوظ نہیں تو میں تمہیں امریکی شہروں کے تحفظ کی
کوئی ضمانت نہیں دے سکتا ‘
درویش خدامست کے اس صاف اور کھرے کھرے جواب نے جہاں دنیا کے صیہونی اور
سلیبی سامراجوں اور ان کے ایجنٹوں پر بجلی بن کر گرا اور انہیں ہلا کررکھ
دیا وہاں دنیا بھر میں سامراجیوں سے نبرد آزما مجاہدین اور تحریک آزادی کے
متوالوں اور سامراجیوں کے پنجہ استبداد میں جھگڑے ہوئے مظلوم و مجبور اور
محکوم و مکحور مسلمانوں کو ایک نیا جذبہ،تازہ ولولہ عطا کرنے کا زریعہ بن
گیا۔مولانا کا یہ نعرہ مستانہ افغانستان پر حملہ کیلئے تیاری کیلئے کی گئی
امریکی سپر پاور کی تیسری بڑی سازش کی ناکامی کا سبب بن گیا چنانچہ امریکہ
نے اپنے کمانڈوز اور انکی رہنمائی کیلئے جانے والی ٹیموں کو واپس بلالیا
اور اپنی بحری بیڑوں کو واپس نکل جانے کا حکم دیدیا-
یہ تھی مولانا فضل الرحمان کی صدائے حق جو جب عالم کفر کے ایوانوں میں
گونجتی ہے تو صیہونی و سلیبی سامراجیوں اور ان کے ایجنٹوں پر لرزہ طاری
ہوجاتا ہے- |