’’میں نے آج صبح بہت دکھ اور افسوس کے ساتھ
وزیراعظم کو لکھا ہے اور انھیں اپنا استعفیٰ پیش کر دیا ہے۔ میں حکومت کی
غزہ پر پالسیی کی مزید حمایت نہیں کر سکتی ‘‘ٖٖٖبرطانوی دفترِ خارجہ کی
وزیر سعیدہ وارثی نے وہ کام کیا ہے جو عرب نہیں کرسکے،ایک ناتواں عورت نے
وہ کام کر دکھا یا ہے جس کیلئے عرب کے کروڑوں مردوں میں ہمت نہیں تھی،عرب
عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مردوں کو چوڑیا ں پہنا دیں،کچھ چوڑیاں اور
بالیاں داعش کے خلیفہ کو بھی بھیجی جائیں جو زندوں سے تولڑ نہیں سکتا
مزاروں پر ہی اپنے پاگل پن کا مظاہرہ کرتا ہے،کھجوریں کھا کر غفلت کی نیند
سونے والے عرب خود ہی برقعے پہن لیں یا چلو بھر پانی میں ڈوب کر مر جائیں
تو بہتر ہو گا۔
سعیدہ وارثی نے اپنے استعفے میں لکھا ہے کہ حکومت کی غزہ کے حوالے سے
پالیسی اخلاقی لحاظ سے قابلِ دفاع نہیں ہے اور برطانیہ کے قومی مفاد میں
نہیں اور اس کے ملک کی عالمی اور اندرونی ساکھ پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
سعیدہ وارثی ان دنوں وزیر برائے مذہب اور سماجی امور کے عہدے پر خدمات
سرانجام دے رہی تھیں اور اس سے قبل 12 مئی 2010 سے چار ستمبر 2012 تک
برطانوی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کی سربراہ کے عہدے پر کام کر چکی
ہیں،گذشتہ دنوں ان کے عہدے میں تنزلی کر کے انھیں ایک درمیانے درجے کا وزیر
مقرر کیا گیا جس کے ساتھ انھیں موجودہ عہدہ بھی دیا گیا،سعیدہ وارثی
برطانوی کابینہ میں شامل ہونے والی پہلی خاتون مسلمان رکن ہیں۔
سعیدہ وارثی کے ساتھ ساتھ انجلینا جولی اور ہر وہ شخص قابل فخر ہے جو اس
ظلم کیخلاف بولا۔۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے حماس سے غزہ میں مار کھانے کے بعد تمام فوجیوں
کے انخلا اور انھیں غزہ کی پٹی سے باہر دفاعی مقامات پر تعینات کرنے کا
اعلان کیا ہے،اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹینٹ کرنل پیٹر لرنر نے صحافیوں سے
بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ان دفاعی مقامات پر کنٹرول قائم رکھے گا۔
بین الاقوامی برادری کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کیا گیا ہے
اور اب عالمی برادری کی نظریں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں فریقین کے
درمیان ہونے والے مذاکرات پر ہیں۔ ان مذاکرات میں طویل مدت کے سمجھوتے پر
بات چیت کی جائے گی۔
غزہ میں چار ہفتے جاری رہنے والی اس کشیدگی میں 1800 سے زائد عام فلسطینی
بچے،عورتیں اور بوڑھے افراد شہید ہوئے اور 67 اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں،جن
میں 63 اسرائیلی فوجی شامل ہیں،اس چار ہفتوں کی بمباری میں صرف تین القسام
کے مجا ہد شہید ہوئے ہیں۔
جنگ بندی کو چال کے طور پر استعمال کرکے اسرائیلی فوج نے اقوام متحدہ کے
کیمپوں کو بھی بار بار نشانہ بنایا،جس کا اعتراف اقوام متحدہ کے سکریٹری
جنرل بان کی مون اور امریکی صدر باراک اوبامہ بھی کیا،سوال یہ ہے کہ بار
بار انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنیوالے اسرائیل پر پابندیاں کیوں نہیں لگا
دی جاتیں؟
بلا شبہ اسرائیل نے فلسطین کا جانی و مالی نقصان کیا ہے لیکن جو عالمی سطح
پر اس کی رسوائی ہوئی ہے یہ اس کی شکست ہے،نہتے حماس مجاہدین سے ما رکھانا
بہت بڑی ہار ہے جو اسے تسلیم کرلینی چاہیے، وینزویلا،برازیل،سکاٹ لینڈ،ترکی
کے حکمرانوں کے اسرائیل کیخلاف اقدامات مسلم حکمرانوں کیلئے قابل تقلید
ہیں،فلسطینی ہار کر بھی جیت گئے ہیں،یہ جیت عربوں کو مبارک ہو۔ |