جشنِ آزادی

جشن آزادی کے مقاصد سے کیا کوئی آگاہ ہے؟ وہ تو حضرت مجید نظامی تھے جو ہمہ وقت مقاصد آزادی کا پرچار کرتے رہے اور اس مقصد عظیم کے لیئے نظریہ پاکستان کے نام سے ادارہ قائم کیا۔ 27 ویں رمضان المبارک کی شب جسے شبِ قدر کا اعزاز بھی حاصل ہے، سلامتی ہے طلوع شمس تک۔ اسی شھر رمضان میں مومن کے لیئے جنت کے آٹھوں دروازے کھلے ہیں ، شیاطین مقید ہیں، رحمت ، مغفرت اور آگ سے آزادی تو مومنوں کے لیئے اور مومن اس ماہ مبارک میں انتقال کریں تو قبر کے امتحانات اور عذاب سے آزادی،اب رہا قیامت کا روز تو ہرکسی کو اپنی کمائی کی اجرت ملے گی۔ مجید نظامی آئیں گے نظریہ پاکستان اسلام کا پرچم اٹھائے، یہی دن ہوگا جشن ِ آزادی کا۔ مقام محمود سے اﷲ کے محبوب ﷺ کی انگلی کے اشارے ہونگے اور امتی اپنے پیارے نبی ﷺ کی شفاعت سے بہرہ مند ہوتے جائیں گے۔ پل صراط پارکرتے ہی جشن آزادی کی تقریبات اپنے عروج کو پہنچیں گی۔ جن لوگوں نے دین مصطفےٰ سے بغاوت کی اور نظریہ پاکستان اسلام سے انحراف کرتے ہوئے پاکستان کی کشتی کو کنارے نہ لگنے دیا۔ان کا حشر کیا ہوگا؟ اس بارے تو قرآن حکیم سے پوچھیں کیونکہ شافی جواب تو اسی کے پاس ہے۔ میرا عرض کرنے کا مدعا یہی ہے کہ ستائیسویں شب مبارک رمضان المبارک چودہ اگست کو پاکستان ملا۔ مسلمانوں کو صدیوں پرانی حسرتیں پوری کرنے کا سنہری موقع ملا۔ لیکن برطانیہ کے دیئے ہوئے جمہوری نظام نے قیام پاکستان کے مقاصد پورے نہ ہونے دیئے۔ انگریز کے انداز حکمرانی کو یہاں کے فرنگی وفاداروں نے آج تک قائم رکھا ہواہے۔ ظلم ، ناانصافی، عوام کے استحصال کانظام نافذ ہے۔ قیام پاکستان کے مقاصدکی تکمیل اور اسکے مخالف لابیوں نے کام شروع کردیا۔ ظالمانہ استحصالی نظام کی بقا کے لیئے کام کرنے والوں کو سرمایہ کی کمی نہ تھی لیکن اسکے مقابلے میں اسلامی نظام کی بات کرنے والوں کے وسائل انتہائی محدود بھی تھے اور بہت کم لوگوں نے انکی مالی اعانت کی۔ نشرواشاعت اور خبروں کی عوام تک ترسیل کے لیئے اخبارات کا اجرا ہوا تو زمیندار اور نوائے وقت نے قیام پاکستان کے مقاصد کو اجاگر کرنے کا ذمہ لے لیا۔ مخالفین نے نظریہ پاکستان کو مسخ کرنے کی بھرپور جدوجہدکی لیکن انکے مقابلے میں اب تنہانوائے وقت خم ٹھوک کر جم گیا اور برقرار ہے۔ جن لوگوں کو روز قیامت اور اپنے رب کے حضور حاضر ہونے پر یقین کامل ہے وہ اسکی رضا کے لیئے بڑے نڈر اور بیباک ہوتے ہیں۔ تندیء بادمخالف ہو یا ہوشربا طوفان ہوں یہ لوگ بقول قائداعظم رحمۃ اﷲ علیہ کہ مسلمان مشکلات میں گھبرایا نہیں کرتا ،کی تصویر بنے رہے۔ ایک وقت تھا کہ چودہ اگست کو اخبارات کے خصوصی ایڈیشنز میں تحریک پاکستان اورتقسیم ہند میں ہندوؤں اور سکھوں یا انگریزوں کے مظالم پر مشتمل مضامین اور تصاویر شائع ہوتی تھیں۔ لیکن مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کی ہندو دوستیوں کے نتیجہ میں مسلمانوں کے قتل عام اور ہندو،سکھ و فرنگی کے مظالم کی داستانیں رفتہ رفتہ شائع ہونی بند ہوگئیں۔ اسکے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کی درست کتب سے بھی ہندؤں ،سکھوں اور فرنگیوں کے مظالم کی داستانیں،روح فرسا مضامین اور تصاویر کو سلیبس سے خارج کردیا گیا تاکہ نئی نسل اپنے ازلی دشمنوں کو دوست شمار کرسکے۔ ۱۴ اگست کے مبارک موقع پر ہوتا یہ ہے کہ پاکستانی پرچموں، جھنڈیوں اور بیجوں کا کاروبار تو عروج پر ہوتا ہے اور خیر سے اس کا وافر ثواب اہل لاہور ہی حاصل کرتے ہیں۔ کسی پرچم بردار، جھنڈیاں سجائے اور بیج لگائے شخص سے کوئی پوچھے کہ یہ سب کچھ کیوں کیا ہے تو وہ کہے گا پاکستان بننے کی خوشی منارہاہوں۔ وزیر اور سیاسی لیڈر جھنڈے لہرانے کی تقریبات میں رونق افروز ہیں کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو جواب یہی ہوگا کہ آج کے دن پاکستا ن بنابالفاظ دیگر ہمیں اپنے ہم مذہب اور ہموطنوں پر انگریزی راج کا موقع مل گیا اور ہم اسی طرح لوٹ مارکررہے ہیں جس طرح فرنگی نے دولت ہند سمیٹ کر برطانیہ میں جمع کی۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ پاکستان تو بن گیالیکن جن مقاصد کے لیئے بنایا گیا تھا کیا ان کی تکمیل تم لوگوں نے کرلی؟ ان لوگوں کو کچھ پتا نہیں۔ انہیں اس کا احساس بھی نہیں ۔

یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہماری عیاشیوں، من مانیوں، قتل و غارتگری، لوٹ مار ، غیر اسلامی نظریات کو فروغ دینے اوریہاں کے عوام کا استحصال کرنے کے لیئے پاکستان بنا۔ اگر پاکستان کے مقاصد یعنی نظریہ پاکستان کا نفاذ نہیں کرتے تو یہ جھنڈے لہرانااور منافقانہ تقریبات کا انعقادمحض پاکستان کے عوام اور پوری دنیا کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ جناب جنرل ضیاء الحق صاحب نے طلباء کو عسکری تربیت دینے کا نظام کیا تو ساتھ ہی ۱۴ اگست آزادی کے حوالے سے سکاوٹس کیمپ بھی لگوائے۔ اس تحریک کی ابتداء 1980 میں ہوئی ناظم تعلیمات اور ڈویژنل سکاؤٹس آرگنائزر،ضلعی اور ڈویژنل انتظامیہ کو فرائض سونپے گئے ۔ ابتداء میں سکاؤٹس ریلی پرانے کرکٹ گراؤنڈ میں ہوئی پھر اسے وسعت دی گئی اور ہفتہ بھر سکاؤٹس کیمپ ریس گراؤنڈ راولپنڈی میں لگنے لگا۔ نہائت عمدہ پرگرام تشکیل دیئے گئے۔ صدر پاکستان خود تشریف لاتے بچوں اور اساتذہ سے ملتے ۔ 23 مارچ کی طرز پر یہ اجتماع بچوں میں فرض شناسی اور احساس ذمہ داری پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ قومی تشخص ابھارنے میں معاون ثابت ہورہاتھا کہ عسکری جذبات سے عاری کاروباری لوگوں نے ایوانہائے اقتدار پر قبضہ کرلیا تو سبھی کچھ مٹ گیا۔ کاروباری لوگ ملک کو لوٹ کر مال لے گئے لیکن عوام کے نظریات کو کوئی لوٹ نہیں سکا۔ قوم جانتی ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار آج جو جشن آزادی اور قومی پرچم کشائیاں کررہے ہیں اسکے پیچھے کارفرمامحرکات کیا ہیں؟اگر حضرت علامہ طاہرالقادری اور امیر تحریک انصاف جناب محمد عمران خان آج انقلاب و آزادی مارچ منسوخ یا ملتوی کردیں تو ارباب اقتدار بھی سب چھوڑ چھاڑ ذہنی بوجھ اتار کر سکون کا سانس لیں گے۔ جھنڈوں جھنڈیوں سے جان چھوٹے گی۔ کئی اہم وزراء شاہ کی خوشنودی کے لیئے راتوں کی نیند قربان کرکے حضرت علامہ اور امیر انصاف پر کاری ضربیں لگانے کے لیئے تیزترین الفاظ کا جو ذخیر ہ جمع کرتے ہیں وہ بھی حسب سابق خواب خروش کے مزے لیں گے۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہمارے قبلہ افکار کو درست کرنے کے لیئے ہی تو فرمایا کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اگر ہمارے حکمران جشن آزادی منانے میں مخلص ہیں تو فرنگی کے نظام کو رخصت کریں۔ چودہ اگست کو قرآن وسنت کا نظام نافذ کریں،اسلامی نظام عدل قائم کریں۔ جناب علامہ طاہرالقادری صاحب کے دس نکات کے نفاذ سے عام آدمی کو انصاف ملے گا۔ معاشی ناہمواری دور ہوگی۔ موجودہ حکمران ہی اگر نظام کو درست کردیں تو انکے اقتدار کو مزید دوام ملے گا۔ جب نظام بدلے گا تو عوام اسمبلیوں کے لیئے امیدوار تلاش کریں گے اور کوئی آگے آنے کو تیار نہ ہوگا۔ مخلص اور بے لوث خدا ترس قیادت میسر ہوجائے گی۔اب خدا کے فضل سے یہ ہوکر رہے گا۔ آمین
 
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140642 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More