ہمارا جہاد اور امریکہ کی دہشتگردی

 ”دشمن کے مقابلے اور مدافعت میں اپنی پوری قوت و طاقت صرف کرنا جہاد کہلاتا ہے“۔ جہاد دین اسلام کا اہم رکن ہے۔ اسلام کے جن سیاسی اصولوں کے بارے میں غلط فہمیاں ہیں اور تنقید کا نشانہ بنایا جانے میں سر فہرست اسلام کا تصور جہاد ہے۔ دور حاضر کی ترقی پسندی اور تہذیب و تمدن کی رو سے قتال، جزیہ، خراج، غنیمت اور فدیہ کے تصورات کو ناانصافی اور ظلم جبکہ انہی چیزوں کو نئے ناموں سے اپنے ہاں درست خیال کیا جاتا ہے۔ جہاد کی تعبیر و تفسیر میں مسلمانوں کو جنگ جو اور خونخوار قوم کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ جہاد کے خلاف نہ صرف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے بلکہ عملی طور پر کشمیر، افغانستان، عراق اور فلسطین یا جہاں کہیں بھی مسلمان استحصالی قوتوں کے ظلم کا شکار ہیں اور اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں انہیں پوری قوت سے دبایا جا رہا ہے۔ دنیا میں جہاں زندگی کے تمام میدانوں میں ترقی ہوئی وہاں ظلم و تشدد، جبرو تسلط اور استعمار کی نئی اور بھیانک صورتیں بھی سامنے آئیں۔ ماضی قریب میں انسانی حقوق، عالمی امن اور انسانیت کے نام پر کشت و خون کے بازار گرم کیے گئے۔ ان قوتوں کے خلاف جہاد کی اصطلاح کو غلط رنگ دیا گیا۔ اس کی غرض و غایت اور حقیقت جانے بغیر کہیں اسے دہشت گردی اور کہیں انتہا پسندی کا نام دیا گیا۔ عالمی دہشتگردی کے نام پر لڑی جانے والی نام نہاد جنگ کا مقصد دہشتگردی کو ختم کرنا تھا۔ مگر نتائج اس کے برعکس سامنے آئے ہیں۔ دنیا میں خاص طور پر مسلم خطوں میں دہشتگردی کم ہونے کی بجائے خطرناک حد تک بڑی ہے۔

امریکی پالیسی کے مطابق جنرل ضیاء الحق نے اپنے سنہری اسلامی دور میں طالبانائزیشن کی بنیاد رکھی۔ فارغ التحصیل ہونے والوں کے دل و دماغ میں روسی کمیونزم کے خلاف سخت نفرت پیدا کی گئی۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ جب ’سی آئی اے‘ کے فنڈ سے جہاد کے حق میں لکھی گئی کتابیں جگہ جگہ تقسیم کی جاتی تھیں۔ بین الاقوامی میڈیا روس کے خلاف سرگرم عمل جہادیوں کی عظمت کے گیت گاتا تھا۔ اس وقت تک سب ٹھیک تھا مگرافغانستان میں روس کی پسپائی کے بعد ساری ترجیحات بدل گئیں۔ اسامہ بن لادن جیسا مجاہد جب ان کے کسی کام کا نہ رہا تو ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں مشہور زمانہ دہشتگردی کا واقعہ رونما کیا گیا۔ امریکہ نے افغانستان میں اپنی حکومت بنانے کا خواب دیکھنے والے کل کے مجاہدوں اور آج کے دہشت گردوں کو کچلنے اور جنوبی ایشیاء میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کی وجہ تراش لی۔ تاکہ یہاں موجود رہ کر قدرتی وسائل کو ہتھیانے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر قابو پانے کے علاوہ ہندوستان کی مدد سے چین کے لیے مشکلات پیدا کی جا سکیں جو امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنتا جا رہا تھا۔ اسامہ کا تعاقب شروع ہوا تو امریکہ کے تخلیق کردہ” مجاہدین“ اسی کے خلاف ”جہاد“جبکہ امریکہ ان کے خلاف دہشتگردی کی جنگ لڑنے لگا۔ جنہوں نے اسلام کے نام پر ان کے ہاتھوں میں بندوقیں اور میزائل تھمائے تھے بقول انکے جہادی کلچر والا اسلام حقیقی اسلام نہیں، حقیقی اسلام تو رواداری سکھاتا ہے۔ امریکہ کی دہشتگردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں نا صرف اسلام بلکہ واحد مسلم ایٹمی قوت پاکستان کے سکیورٹی اداروں، مدارس، جوہری ہتھیاروں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کیا گیا۔ جس سے اسلام اور پاکستان کو حد درجہ نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔


امریکی افغانستان میں 8 سالہ جنگ کے بعد مجاہدین کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونے کا نہ صرف اعتراف کر رہے ہیں بلکہ برطانوی جریدے کی تازہ رپورٹ کے مطابق صدر اوبامہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ طالبان کی قید سے رہا ہونے والے امریکی صحافی ڈیوڈ رہو ڈوگوان نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ طالبان کو ماضی میں لگائے جانے والے اندازوں سے کئی گنا زیادہ قوت اور عوامی حمایت حاصل ہے۔ افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج تسلیم کر رہی ہیں کہ ملک کے 80فیصد سے زائد حصے پر طالبان قابض ہیں۔ افغانستان پر حملے کے وقت صدر بش نے اپنے خطاب میں ایک سال کے ٹائم ٹیبل کی بات کی تھی۔ اور یہ کہ اس عرصے میں اپنے ملک کے دشمن کا خاتمہ کر دیں گے لیکن 8 سال بعد صورتحال مکمل طور پر الٹ ہے۔ امریکہ افغانستان کے بعد اپنے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کے خلاف صف آراء ہوتا نظر آ رہا ہے۔

پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف دہشتگرد اپنی مذموم کارروائیوں کے ذریعے پاکستان کے اندرونی استحکام کو تباہ و برباد کرنے کے مشن پر ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے اور اسکے تشخص کو خراب کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں۔ اس حوالے سے مغربی ذرائع ابلاغ سب سے آگے ہر اول دستے کا روپ دھارے ہوئے ہے۔ کبھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ القاعدہ پاکستان میں موجود ہے اور کبھی یہ کہ طالبان اسلام آباد پر قبضہ کرنے والے ہیں۔ انہیں کبھی پاکستان کا جوہری اسلحہ دہشتگردوں کے ہاتھ لگنے کا خدشہ رہتا ہے تو کبھی اس کی حفاظت کے لیے پاکستانی حکومت اور فوج کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔

امریکی جریدے ’نیویارکر‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے لیے امریکی خصوصی سکیورٹی یونٹس طلب کر رہا ہے جو اضافی سکیورٹی فراہم کریں گے۔ اس کے علاوہ ایٹمی اثاثوں کی منتقلی کے لیے منصوبہ بندی بھی مکمل ہے۔ اس کے جواب میں جنرل طارق مجید نے کہا کہ امریکی اخبار کی یہ رپورٹ بے بنیاد، گمراہ کن اور قیاس آرائی پر مبنی ہے۔ جوہری اثاثوں سے متعلق امریکہ سے مذاکرات نہیں کئے جارہے۔ امریکہ فقط قیاس آرائی کی حد تک معلومات رکھتا ہے۔ پاک فوج کی طرف سے یہ کہنا کہ ایٹمی ہتھیار بنانے والے اس کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں امریکیوں کو آئینہ دیکھانے کے مترادف ہے۔ دراصل یہ شوشہ ہے اس کے باوجود چند باتیں ایسی ہیں جن کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پہلے امریکیوں کی جانب سے یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو القاعدہ یا طالبان سے خطرہ ہے۔ اگر طالبان یا القاعدہ نے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو امریکہ ان کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرے گا۔ ان سب حربوں اور تراکیب کے پیچھے امریکہ کے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہنود و یہود کبھی اسلام اور پاکستان کے خیر خواہ نہیں تھے اور نہ ہوں گے۔ پھر پاکستان پر حکومت کرنے والا ہر حکمران ٹولہ امریکہ کے قدموں میں گرنا اپنی سعادت اور زندگی کی علامت کیوں سمجھتا ہے؟ دہشتگردی کے آسیب سے تب ہی عافیت نصیب ہوگی جب ہم امریکہ کی غلامی کا طوق اتار پھینکیں گے۔ شاید اس سے مناسب وقت پھر ہمیں نہ ملے۔
سورج ہمیں ہر شام یہ درس دیتا ہے
مغرب کی طرف جاو گے تو ڈوب جاؤ گے
Hafiz Mansoor Jagiot
About the Author: Hafiz Mansoor Jagiot Read More Articles by Hafiz Mansoor Jagiot: 22 Articles with 18571 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.