زرداری، مشرف آمنے سامنے اور آس پاس

’’صدر جنرل‘‘ مشرف نے ’’جلاوطنی‘‘ میں صدر زرداری کے خلاف غیر دوستانہ زبان استعمال کی ہے، اس نے تو ایک بار کہا مگر یہاں زرداریوں اور ’’فرینڈلی اپوزیشنوں‘‘ نے کئی بار کہہ دیا اور کہتے چلے جا رہے ہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کانا تھا کسی سے کہا گیا کہ تم اسے دربار میں جتنی بار ’’کانا‘‘ کہو گے اتنے لاکھ روپے انعام ملے گا۔ اس نے دربار میں جا کے کہا کہ ایک شرارتی بچہ مہاراجہ کو کانا کہہ رہا تھا میں نے منع کیا تو وہ کانا کانا کانا کہتا ہوا بھاگ گیا۔ بہت فرینڈلی اپوزیشن لیڈر چودھری نثار کو موقع مل گیا۔ اس نے قومی اسمبلی میں اپنے پرانے خفیہ یار دوست پرویز مشرف کو سنائیں اور صدر زرداری کے لئے بار بار وہ کہا جو کہا جا رہا ہے’’ ہمارے ساتھ مل کے ڈاکو جرنیل صدر کو کیفر کردار تک پہنچانے میں تعاون کریں‘‘ ایک قرارداد تو مشرف کے خلاف لائی نہیں جا سکی۔ چودھری نثار کے اعلان کے باوجود نوازشریف نے منع کر دیا۔ پیپلز پارٹی والوں نے ویسی ہی سیاست کی کہ قرارداد لاؤ ہم تعاون کریں گے اب ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ وارنٹ جاری کرے ہم گرفتار کرنے کی کوشش کریں گے۔ اب گیند پھر سپریم کورٹ کے کورٹ میں ہے کسی کو پتہ نہیں کہ ریڈ وارنٹ اور بلیک وارنٹ میں کیا فرق ہے؟ چودھری نثار کے لیڈروں نے صدر زرداری کے خلاف زیادہ سخت زبان استعمال کی ہے جب شریف برادران کی پنجاب حکومت ٹوٹی تھی تو کیا پرویز مشرف کی بھی کوئی ’’حکومت‘‘ ٹوٹی ہے ہمارے ہاں مفاد اور عناد ایک چیز کا نام ہے۔ کئی نجی ٹی وی چینلز نے وہ تقریریں کئی بار سنا دی ہیں جو نواز اور شہباز نے کی تھیں۔ نواز شریف نے کہا کہ اوئے صدر زرداری تم نے ہمیں دھوکہ دیا ہے (دھوکہ دینے والے ہی کو دھوکے باز کہتے ہیں) آج اس پر کون اعتبار کئے ہوئے ہے۔ وہ رائے ونڈ میں اور نوازشریف ایوان صدر میں کھانے کھا کے آئے ہیں۔

چودھری نثار نے وزیراعظم نواز شریف کو جونیئر جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنانے کا مشورہ دیا تھا اور کہا تھا کہ جنرل علی قلی خان برطانیہ میں جا کے کہہ رہا تھا کہ مجھے آرمی چیف بننے دو میں سب کو ٹھیک کروں گا تو پھر کس نے سب کو ٹھیک کیا بلکہ ٹھیک ٹھاک کر دیا۔ چودھری نثار نے بھی جو زبان استعمال کی ہے وہ مشرف کی زبان سے کمتر تو نہیں، کئی اوروں نے بھی کہا کہ مشرف کو پٹہ ڈال کے پاکستان لایا جائے کیا اسے ایوان صدر میں بھی پٹہ ڈال کے لایا گیا تھا جب اسے پیپلز پارٹی کی حکومت میں ایوان صدر کے باہر گارڈ آف آنر پیش کیا جا رہا تھا تو اس کے گلے میں پٹہ ڈالا گیا ہوگا۔ وہ نوازشریف کے پیچھے لگ گیا اور اس نے سعودی عرب جا کے سانس لیا مگر چودھری نثار تو ’’صدر جنرل‘‘ پرویز مشرف کے پاس پاکستان میں رہ گیا سچ ہے۔ حیرت ہے کہ اسمبلی میں صدر زرداری کے حواری سر جھکائے خاموش بیٹھے رہے ایک ڈاکٹر بابر اعوان تھا جو ڈٹ کر بولتا رہا اس نے جو کہا اچھا کہا مگر ایک ضرب المثل بھی کہہ دی آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا (کتوں کی بھونک سے بھکاری کے رزق میں کمی نہیں آتی) بھکاری کے رزق کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ یہ رزق حلال ہے یا رزق حرام ہے۔ کتا بے چارا خود رزق کی تلاش میں ہوتا ہے۔ کتے تئیں تہیں اُتے، کتے تجھ سے بڑھ گئے مگر آدمی کو ہی کتا کہہ دیا جائے تو…؟ وہ بھونکتا ہی اس رزق کے لئے ہے۔ چلیں کتا تو ہو گیا پرویزمشرف اور گدا (بھکاری) کون ہے؟

منظور وٹو، فاروق نائیک، فرزانہ راجہ اور قیوم سومرو آج کل پیپلز پارٹی کے رہنما ہیں اور ان سب کے آگے آگے خود صدر زرداری ہے۔ سیاست اور حکومت ایک طرح کی کرپشن، لوٹ مار، دھوکہ، جھوٹ، فراڈ اور بہت حقیر بے ضمیر چیز بن گئی ہے سارے حکام کو دھوکہ دینے اور عوام کو دھوکہ کھانے کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ عوام حکام کو اسی طرح جانتے ہیں جیسے صدر زرداری بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو جانتے ہیں۔ حاکم اور ظالم ہم قافیہ ہیں۔ ظالم حاکم بن جاتے ہیں اور حاکم ظالم بن جاتے ہیں ہمارے ہاں ہر طرح کے ظالم اور ہر طرح کے حاکم پائے جاتے ہیں۔

چلتا ہوں تھوڑی دیر ہر اک راہ رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

مگر ہم اپنے رہنماؤں کو پہچان کر بھی نہیں پہچانتے نجانے مشرف کو کیا ہوا وہ بے وقوف آدمی بھی ہے اس کے لئے ملک قیوم نے مجھے اپنے بیٹے کے ولیمے میں بتایا کہ صدر مشرف معمولی اہلیت کا آدمی ہے یہ بات صدر کے طور پر ہو سکتی ہے ورنہ ملٹری میں جنرل بننے تک جو مراحل ہیں ان میں کوئی معمولی آدمی اس عہدے تک نہیں پہنچ سکتا۔ میرے خیال میں جرنیلوں کو سیاست میں آنے سے پرہیز کرنا چاہئے اب بھی جو بات پرویز مشرف کے خلاف ہو رہی ہے وہ صدر کے طور پر ہو رہی ہے۔ زرداری صاحب پر بھی تمام تر تنقید صرف اس لئے ہو رہی ہے کہ وہ صدر ہو گئے ہیں۔ انہوں نے خود سونیا گاندھی جیسا کردار ادا کرنے کے لئے کہا تھا اور پھر وہ صدر بن گئے۔ سترھویں ترمیم کے خاتمے کا وعدہ کر کے بھی سارے اختیارات ان کے پاس ہیں۔ پیپلز پارٹی والے کچھ لوگ بغیر سوچے سمجھے مشرف کے خلاف وہی زبان استعمال کر رہے ہیں کوئی سیمورہرش کے لئے کچھ نہیں کہتا صرف بیرسٹر سیف نے بات کی ہے۔ ایک آدمی سے کہا گیا ہے کہ تمہارا کان کتا لے گیا وہ اپنا کان سنبھالنے کے بجائے کتے کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوا۔ وزیرشذیر نبیل گبول ہمیشہ گول مول بات کرتا ہے ’’زرداری کے خلاف بات کرنے سے پہلے مشرف کو شرم آنی چاہئے یعنی بعد میں نہیں آنی چاہئے۔ فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ صدر مشرف صدر زرداری کے ہاتھوں شکست کو ابھی تک نہیں بھلا سکا یہ ویسی ہی شکست ہے جو فردوس عاشق نے کشمالہ طارق کو ایک ٹی وی چینل پر ’’زبانی کلامی اور دشنامی‘‘ انداز میں دی۔ وہ عوام کی نفرت کا شکار ہیں۔ مشرف کو بھگوڑا کہا جا رہا ہے اسے بھاگنے کا موقع خود صدر زرداری نے دیا ہے اس بھگوڑے صدر سے مخدوم، گیلانی سمیت کئی وزیروں نے حلف لیا ہے اس میں نواز شریف کے پیارے بھی شامل ہیں۔
Dr. Muhammad Ajmal Niazi
About the Author: Dr. Muhammad Ajmal Niazi Read More Articles by Dr. Muhammad Ajmal Niazi: 19 Articles with 19030 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.