رجسٹرڈ پارٹیوں کی تعداد 282 جمشید خٹک
ایک بڑے شہر کے مرکزی چوک میں کھڑے ہو کر ہزاروں کی تعداد میں سائیکلوں ،
موٹر سائیکلوں ، بسوں کی رواں دواں ٹریفک کو دیکھ رہاتھا ۔ ایک لمحے کیلئے
جب ٹریفک رک جاتی تھی تو عوام کا ایک جم غفیر ہزاروں کی تعداد میں سڑک پار
کرتے تھے۔انسانوں کی سروں سے زیادہ گاڑیاں نظر آتی تھیں۔ گدھا گاڑی ، اُونٹ
گاڑی ، مو ٹر سائیکل گاڑیوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بمپر ٹو بمپر
چل رہا تھا۔اتنی ہجوم میں ایک آدمی گلے میں بیگ لٹکائے بیس بیس روپے کی
آواز لگا کر ایک ’’ پڑیا ‘‘ بیچ رہا تھا۔ ہر آدھے گھنٹے کے بعد وہ قریبی
ہوٹل میں جا کر پانی پیتا تھااور چائے کا آدھا کپ ۔اس شہر کی یہ بھی خاصیت
ہے کہ غریب آدمی کو آدھا کپ چائے بھی مل جاتی ہے ۔ میں نے تجسس کے طور پر
اُس آدمی سے پوچھا کہ اُس ’’ پڑیا ‘‘ میں کیا ہے ؟جووہ بیچ رہاہے ۔ پہلے تو
اُس نے ٹال مٹول کرتے ہوئے میری بات کو اہمیت نہیں دی ۔ لیکن میں نے اُس کو
بلا کر ہوٹل میں اپنے ساتھ بٹھایا اوراُسے ایک کپ چائے آفر کردی ۔چائے پینے
کے بعد میں نے پھر’’ پڑیا ‘‘ کے بارے میں پوچھا ۔ اُ س نے بتایا کہ اُس میں
صرف شکرین اور کچھ ذائقہ ہے ۔ جس کی لاگت صرف پانچ روپے ہے اور وہ اُسے بیس
روپے میں بیچتا ہے۔میں نے پھر پوچھا کہ یہ کون خریدتا ہے ۔وہ بڑا ہنسا اور
گویا ہواکہ وہ جس جگہ کھڑا ہے ہر آدھے منٹ میں تقریباًپچاس آدمی اُس کے
قریب سے گزرتے ہیں۔ایک منٹ میں سو اور ایک گھنٹے میں چھ سوآدمی ۔ وہ جب
آواز لگاتا ہے تو اگر سولوگوں میں سے پانچ لوگ بھی اُس کی باتوں میں آگئے
تو اُس کا بزنس ہوگیا یعنی ایک گھنٹے میں پانچ لوگ آٹھ گھنٹوں میں چالیس
لوگ تو چالیس پڑیابیچ کر اُس کی مزدوری ہوجاتی ہے۔میں نے پوچھا یہ پانچ فی
صد لوگ کون ہوتے ہیں۔ وہ پھر ہنسا کہ اس ملک میں بے وقوفوں کی کیا کمی
ہے۔اُس بڑے ہجوم میں پانچ فی صد بے وقوفوں کی وجہ سے اُس کا کا م چل رہا ہے
۔میں دو چار منٹ کیلئے سوچ میں پڑ گیا کہ ایک عام پڑیا بیچنے والے کے پانچ
فی صد لوگوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ٹارگٹ بنا کر اپنا اُلو سیدھا کررہا ہے
۔تو اس ملک میں تھو ک کے حساب سے 282 رجسٹرڈ سیاسی پارٹیاں کتنے فی صد
لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں اور اپنا سودا بیچ رہے ہیں ۔ یہ اس طرح ہے
مشہور جگہ پر ریڑھی والا آوازیں لگاتا رہاکہ دس دس روپے کا پیس ۔گرمی
کاموسم تھا ۔ دس روپے فی ’’ پیس ‘‘ سن کر میری طرح اکثر سادہ لوح لوگوں نے
فوراً ایک ایک گلاس پیا ۔گلاس پینے کے بعد ریڑھی والے نے آوازدی ۔پچاس روپے
جب شور شرابہ زیادہ ہوا توریڑھی والا کہ رہا تھا وہ تو آوازیں لگا رہا تھا
دس روپے فی پیس جبکہ ایک گلاس میں پانچ پیس ہوتے ہیں لہٰذا کل قیمت پچاس
روپے ۔ اگر ریڑھی والا فی پیس کا نعرہ لگا کر پچاس روپیہ ہتھیا لیتا ہے اور
غریب عوام اُس کے نعروں میں آجاتے ہیں ۔ تو یہ سیاسی پارٹیاں مختلف قسم کے
نعرے لگا کر کیا عوام کو بے وقوف نہیں بنا سکتے ۔میری طرح سادہ لوح ہر دفعہ
اُن کے دلفریب نعروں میں آکر سیاسی پارٹی کے ساتھ منسلک ہو کر نعرہ لگاتاہے۔
سیاسی لیڈروں کے پرفریب نعرے بڑے پرکشش اور دلفریب ہوتے ہیں۔ سادہ لوح عوام
کی دکھتی رگ کو پکڑ لیتے ہیں اور ان کیلئے یہ ہزاروں کا مجمع اکٹھا کرنا
کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ 20 کروڑ کی آبادی میں ایک فی صد بھی دس لاکھ سر بن
جاتے ہیں۔ جبکہ عموماً اکثر سیاسی پارٹیوں میں افراد کل آبادی کے تناسب سے
0.5 فی صد سے بھی کم بنتے ہیں۔ آٹھ دس بڑی پارٹیوں کو چھوڑ کر لیڈران میں
اور اُس کے ارد گرد چند ہزار افراد ۔بعض لیڈران مذہب کے نام پر اُن کی
ہمدریاں حاصل کرتے ہیں ۔ بعض پارٹیاں مسلک اور عقیدے کواہمیت دیتے ہیں ۔
چند قوموں کی مظلومیت اور ناانصافی کا رونا روتے ہیں۔ بعض علاقائی بنیاد پر
سیاست کھیلتے ہیں۔بعض کرپشن سے پاک معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔
یہ سوچنے کا مقام ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں سیاسی پارٹیوں کا وجود کیاپیغام
دیتی ہیں ۔ کیا کثیرتعداد میں سیاسی پارٹیاں قومی یگا نگت ، مذہبی ہم آہنگی
کو فروغ دینے میں مدد گارثابت ہوتی ہیں۔ یا یہ انتشار اور نفاق کاباعث بنتی
ہیں ۔تمام دُنیا میں عام طور پر دو بڑی سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں۔ پاکستان کی
کل آبادی تقریباً 180.4 ملین ہے ۔ رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 86 ملین ہے۔جبکہ
96 ملین لوگ ووٹوں کی فہرست سے باہر ہیں۔ 282 رجسٹرڈ سیاسی پارٹیاں ہیں۔
صرف 18 سیاسی پارٹیوں نے پارلیمنٹ تک رسائی حاصل کی ہے ۔ انتخابات کے ذریعے
PML (N) نے قومی اسمبلی میں 124 نشستیں ، PPP نے 31 نشستیں، PTI نے 23
نشستیں، متحدہ قومی موومنٹ نے 18 نشستیں ، جمعیت علماء اسلام (ف) نے 4
نشستیں، PML (F) نے 4 نشستیں ، جماعت اسلامی نے 3 نشستیں ، PML (Q) نے 2
نشستیں ، NPP نے 2 نشستیں ، PPMAP نے 2 نشستیں ، AML ، NP ، ٓAJIP ، QWP ،
BNP ، APML ، ANP ، PML (Z)نے ایک ایک نشست حاصل کی ہے ۔ باقی 264 رجسٹرڈ
سیاسی پارٹیوں نے پارلیمنٹ تک رسائی حاصل نہیں کی ہے۔
اگر خطے میں گرد وپیش ممالک میں آبادی اور اُس کے تناسب سے سیاسی پارٹیوں
کا ذکر کیا جائے تو پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کی تعداد اُن کے مقابلے میں
کافی زیادہ ہے ۔یہ منتشر سوچ ملک کی بقاء اور سا لمیت کیلئے ایک پائیدار
اور دیر پا نظام قائم کرنے کیلئے مثبت انداز نہیں ہے ۔افغانستان کی کل 31
ملین آبادی میں تقریباً 26 سیاسی پارٹیاں ہیں ۔ افغانستان میں حالیہ
انتخابات میں دوسرے مرحلے کے انتخابات ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں دو
اُمیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالینگے ۔ اُن دو اُمیدواروں میں جس نے جو سب سے
زیادہ ووٹ حاصل کئے وہ صدارت کے مسند پر براجمان ہونگے۔بھارت کی آبادی 1261
ملین ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی تعداد 1593 کے لگ بھگ ہے ۔ بھارت میں زیادہ
پارٹیاں ریاستی مقامی سطح پرفعال ہیں ۔ جب کہ مرکز میں تقریباً چھ سیاسی
پارٹیاں فعال ہیں۔
اکثر ممالک میں انتخابات کاایسانظام موجود ہوتا ہے۔جس میں تمام قوم کو
صدرمنتخب کرنے کیلئے ایک ہونا پڑتا ہے۔انتخابات کے دوسرے مرحلے میں صدر کو
چننے کیلئے ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں تقریباً دو حصوں میں بٹ جاتی ہیں۔جس
میں پچاس فی صدسے زیادہ ووٹ حاصل کرلئے وہ صدر بن جاتا ہے ۔ایک حزب اقتدار
اور حزب اختلاف پارٹ رہ جاتی ہے۔یہ پارٹیوں کا جم غفیرنہیں ہو تا۔مستحکم
حکومت کو چلانے کیلئے متناسب نمائندگی کا نظام بہتر ثابت ہوا ہے۔ اگر ہم
انتخابات کے موجودہ نظام پر نظر ثانی کریں اور متناسب نمائندگی کے نظام کو
اپنائیں یا وزیر اعظم کیلئے پچاس فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی شرط مقرر
کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ ملک کی سیاست میں اس نام نہاد سیاسی پارٹیوں کا
قلع قمع ہو سکے گا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے تمام رجسٹرڈ سیاسی پارٹیوں (282) سے اثاثہ جات کی
تفصیلات طلب کرنا دیر آید درست آید۔ 29 اگست کو ڈیڈ لائن گزرنے کے تفصیلات
دینے کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی پانی کا ہو جائے گا۔خدشہ ہے کہ کئی
پارٹیاں الیکشن کمیشن کے ڈیڈ لائن کو سارے کاغذات جمع کرانے میں ناکامی کا
سامنا کرینگے ۔ جو پارٹیاں کاغذات جمع کرانے میں ناکام ہو جا تی ہیں۔
الیکشن کمیشن کیلئے آسان ہو جائیگاکہ وہ متعلقہ پارٹی کے خلاف کاروائی کرے۔
وہ سیاسی پارٹیاں جنہوں نے کاغذات جمع کرائے ہیں ۔ اُن کی جانچ پڑتا ل بھی
الیکشن کمیشن کیلئے ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔لیکن ایک بات ضرور ہے کہ اس عمل سے
سیاسی پارٹیوں کی ہجوم میں کمی ضرور آئے گی اور سیاسی پارٹیوں کے آمدنی کے
ذرائع کا بھی پتہ چلنے کے امکانات واضح ہو جائیں گے۔ |