اسباب زوال امت

مسلم امہ کی زبوں حالی اور تباہی کے مختلف اسباب پر غور وفکر کے دوران لکھے جانے والے مختلف کالموں پر قارئین کی بڑی تعداد کی جانب سے آرا پر موصول ہوتی رہتی ہیں ۔ ان سب میں ایک بات قدر مشترک دیکھی کہ مسلم امہ اور ملت واحدہ کے بجائے ، ہر کسی کا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی لکھا جائے ، تو بس انکے نقطہ نظر کو درست و کامل سمجھاجائے ۔

اختلاف اور عدم برداشت کی راویت جس قدر وافر ہمارے معاشرے اور مسلمانوں میں پائی جاتی ہے ، میرے نزدیک اس کی بنیادی وجہ ہماری دین اسلام کی تعلیمات سے دوری ہے ۔ہم بہ حیثیت مسلمان اپنے آپ کو دنیا کے تمام مذاہب سے بالاتر سمجھتے ہیں اور اپنی خامیوں پر نظر ڈالنے اور انھیں ختم یا اصلاح کے بجائے دوسروں پر تنقید اور اعتراضات کرنے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔مسلم امہ کی تباہی پر نظر ڈالنی ہو تو ہمیں سب سے پہلے خود پر اور اپنے گریبانوں میں ضرور جھانک لینا چاہیے کہ کیا ہمارا کردار ، ہمارا عمل ہمارے اسلام کی غمازی بھی کرتا ہے یا نہیں ؟۔

دین اسلام کا سب سے پہلا سبق ہی برداشت، رواداری ،سلامتی اور تحفظ کے احساس کو پیدا کرنا ہے ۔ ہم سب سے پہلے اگر کسی سے بھی ملتے ہیں تو السلام علیکم ورحمتہ اﷲ و برکاتہ کہہ کر نہ صرف ایسے اپنی جانب سے سلامتی کا احسا س دلاتے ہیں بلکہ ، اس کے لئے رحمت و برکات کیلئے بھی دعا گو ہوتے ہیں۔اﷲ تعالی نے بھی سلام کو اپنا تحفہ قرار دیا ہے۔ لیکن کیا ہم کبھی اس حوالے سے سوچا بھی ہے کہ کیا ہم سلامتی ، امن اور رحمتوں کے پیامبر ہیں یا اصلاح کے نام پر فساد پیدا کرنے والوں کے حواری ہیں۔
جب مسلمانوں میں موجود مختلف گروہوں کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہویا پھر آپ کے طرز عمل سے ایسا نہ لگے کہ آپ کسی خاص مکتبہ فکر کی ترجمانی کر رہے ہو ، لیکن اس بات میں بھی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کوئی ایک بھی ایسا انسان نہیں ہے جو کسی سوچ و فکر سے متاثر نہیں ہوا ہو اور اس کی اثر اس کی تحریروں یا قول و فعل میں نظر نہ آتا ہو۔چونکہ جب غیر جانبدار ہوکر کسی خاص موضوع پر لکھے جانے کی ضرورت پیش آتی ہے اور مطمع نظر صرف یہی ہوتا ہے کہ بار بار اس بات کی نشاندہی کی جائے کہ اصل خرابی کسی دوسرے میں نہیں بلکہ ہم میں ہے تو پھر اس کے بعد بھی میں نہ مانوں ، کی ضد اپنا لی جائے تو اس کا نتیجہ تباہی ہی نکلتا ہے۔

ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے سب سے پہلے اپنی وابستگیوں کیلئے کیامعیار اپنایا ہوا ہے ، اگر ہمارے نزدیک اس معیار کا تعلق اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی ہے تو پھر کیا کوئی یہ ثابت کرسکتا ہے کہ نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کی جانب سے یا ان کے اصحاب رضوان اﷲ اجمعین کی جانب سے ، کسی مسلمان کو کبھی کوئی نقصان پہنچا ہے یا کبھی تکلیف پہنچی ہے۔

جبکہ ہم تاریخ میں یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ پر اگر کوئی کچرا پھینک رہا ہے یا ان پر پتھر برسا رہا ہے ، تب بھی ان کیلئے کبھی بددعا تک نہیں فرماتے بلکہ جس دن کچرا نہ پھینکا گیا تو جا کر پوچھتے اور عیادت کرتے ہیں کہ کیا بات ہے آج طبیعت تو ٹھیک ہے ؟۔

رحمت العالمین نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات تو یہی سیکھاتی تھیں کہ ان کے قتل کے درپے ہونے والا ، ان سے اتنا متاثر ہوجاتا کہ ہاتھ میں تلوار لئے قتل کا ارادہ رکھنے والا حضرت عمر رضی تعالی عنہ، حسن سلوک و اخلاق اور نظریہ اسلام و قرآن کی سچائی سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیتا ہے۔

اسلام کا نظریہ تو یہ سیکھاتا ہے کہ صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا نہیں اور مخالفین نے مکہ سے مدینے جانے والے صحابی ابو جندل رضی اﷲ تعالی عنہ کو سفیر اہل مکہ سہیل بن عمرو نے اس لئے دوبارہ اپنی تحویل میں مانگا کیونکہ ابھی معاہدے کی صرف بات چل رہی تھی کہ مکہ سے مدینہ اگر کوئی گیا تو ایسے واپس کردیا جائے گا اور جب یہی اصول مخالفین معاہدہ کے ان گرفتارر ستر افراد پر لاگو کئے جانے لگا جو معاہدہ ختم کرانے کیلئے شر انگیزی کرتے وقت گرفتار کئے گئے تھے ، انھیں رہا کردیا گیا لیکن اپنے صحابی کی تکلیف کے باوجود اپنے پاس رکھنے کے بجائے واپسی کو برداشت کرکے معاہدے پر دستخط کئے اور یہی صلہ خداواندی تھی کہ ان کے حوصلے ، برداشت کے طفیل فتح مکہ کی راہ ہموار ہوئی تو اسلام کے سب سے بڑے مخالف ابو سفیان ( رضی اﷲ تعالی عنہ، اسوقت مسلمان نہیں ہوئے تھے کے گھر کو کعبہ اﷲ کے بعد امن کا گھر قرار دے دیا ، حسن سلوک کی اس مثال نے ابو سفیان کو اسلام کا پیروکار بنا کر نظریہ سلامتی کو تاریخ کا حصہ بنا ڈالا کہ آج انسانی حقوق کے چیمپین کہلانے والوں کا چارٹرڈ ، خطبہ فتح مکہ بنا ۔
غیر مسلم تو سمجھ گیا لیکن اگر کوئی نہ سمجھا تو صرف مسلمان نہیں سمجھا ۔چراغ تلے اندھیرا شاید اسی موقع کیلئے کہا جاتا ہے۔آپ یہ نہیں سوچتے کہ کہ عراق میں مسلمانوں کے درمیان اگر نفاق ہے تو صرف اس لئے ہے کیونکہ نفق ہمارے دلوں میں ہے ورنہ اسلام دشمن قوتیں ، ہماری اس کمزوری کا فائدہ کیوں اٹھاتیں۔شیعہ ، سنی کے نام پر مسلم ممالک میں قتل و غارت مچانے والے ، کوئی اور نہیں بلکہ اسلام کے نام پر تقسیم ہونے والے ہم خود ہیں۔انبیا کی مقدس زمین پر بھی مسلمانوں کا خون ہی بہا ہے اور ان کا خون بہانے والے بھی تو اسلام کے نام لیوا ہی کہلاتے ہیں۔

مصر ، ترکی ، لیبا، افغانستان اور پاکستان سمیت ۵۷ اسلامی مملکت کے احوال پر نظر دوڑائیں تو ایک بات قدر مشترک نظر آتی ہے کہ ہم سب کسی نہ کسی گروہ میں بٹے ہوئے ہیں ، ہمارا اسلام دوسرے کے اسلام سے بہتر اور مختلف ہے ۔ہماری فقہ ہمارا یمان ، ہماری رنگ دار عینک کے مطابق ہے ، کیا ہم نے کبھی اس بات کا تصور کیا ہے کہ مسالک اور تفرقے اگر یہود و نصاری نے مستحکم کرائے ہیں تو ہم نے ایسا کیا ، کیا ہے کہ ان کی سازشوں کو ناکام بنائیں ۔ ہم صرف یہ سوچتے ہیں کہ اسلامی امارات افغانیہ ہو اسلامک اسٹیٹ عراق و شام کے خود ساختہ خلیفہ کا گروہ ، اگر وہ اپنے مخالفین گردنیں اتار رہے ہیں تو کیا ایسے کوئی اور نام دیتے ہیں یا اسلام کا نام ہی دیتے ہیں۔

ہم دیکھیں تو ہمیں اپنا اسلام چاہیے ، عراق پر نور المالکی کو بُرا نہ کہو ، شام کے صدر بشار الاسد کو بُرا نہ کہو ، سعودی عرب کے شہنشاہ کو بُرا نہ کہا جائے ، افغانستان کے امیر المومین کی شان میں گستاخی نہ ہو ،ایران کے امام حاضر پر تنقید نہ کی جائے ، کیونکہ اس سے ہمارا اسلام خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔ عراق کے وزیر اعظم ہوں یا شام کے صدر ، انھوں نے اگر اپنی عوام کے خلاف کوئی کاروائیاں کیں تو ایک گروہ کی جانب سے وہ درست ہیں تو دوسرے گروہ کی جانب سے ظلم ہے ۔فلسطین میں اگر حماس کسی خاص گروہ کا ترجمان ہے تو وہ درست ہے اگر الفتح کسی دوسرے گروہ کے ساتھ ہے تو وہ غلط ہے ۔ مسلم حکمران اگر خاموش ہیں تو ہم سب ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے میں جنت خرید رہے ہیں ۔ ہم سے ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم ازخود یہود و نصاری کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔نہیں اس کیلئے پہلے ایران کو پہل کرنا ہوگی یا سعودی عرب کے عمل کا انتظار کرنا ہوگا۔ فلسطین میں مارے جانے والے ، انسان نہیں بلکہ کسی خاص گروہ کی جھاڑ، گھانس پھونس لگتی ہیں کہ لگے رہو اسرائیل ، پہلے ایک دشمن کمزور ہو تو پھر اس کے بعد تم کو بھی دیکھ لیں گے ۔لیکن کون دیکھے گا کون کیا کرے گا ، ہمیں تو اپنے آپ مسلمانوں میں اختلاف دور کرنے کیلئے بھی صلاح الدین ایوبی کا انتظار ہے کہ امام غائب کی طرح وہی آکر ، اسلام کے گرتے ستونوں کو مضبوط کریں گے ، ہمارا تو کوئی فرض ہی نہیں ہے کہ جیسے اﷲ تعالی ہم سے نہیں پوچھے گا کہ تم بتاؤ کہ تم نے اپنی کیا ذمے داری پوری کی۔

اسلام کو اسلام کی طرز پر اس طرح سمجھا جائے جیسے اس کا حق ہے ،اگر نبی کریم حضرت محمد ﷺ کے دور میں گروہ تھے ، اسلام میں اختلاف تھا تو پھر تو ٹھیک ہے ، لیکن جب اسلام میں گوسالہ پرستی کی اجازت نہیں ہے تو پھر ہم کون ہوتے ہیں کہ امت واحدہ کو اپنی مرضی کے اسلام میں تقسیم ان لوگوں سے کراتے ہیں جن کے قول وفعل میں تضاد نمایاں اور پوشیدہ نہیں ہے۔اﷲ تعالی کے دئیے گئے احکامات اور اصولوں کو جدیدیت کی رنگ دار تفرقے کی عینک میں دیکھتے رہیں گے تو کبھی بھی عراق ، ایران ، شام ، سعودی عرن ، امارات ، مصر ، ترکی ، لیبا ، صومالیہ ،افغانستان اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں پر متفرق طور سے مظالم کا خاتمہ نہیں ہو سکے گابلکہ اﷲ تعالی اپنے قانون کے مطابق ، ہم پر دوسری قوم کو لے آئے گا کیونکہ اﷲ تعالی کی محبوب قوم صرف وہی ہے جو اس کے احکامات پر چلے ، تفرقے میں نہ پڑے ، ایک اﷲ ، ایک رسول ، ایک قرآن پر یقین رکھے ۔ اﷲ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے اور اپنے ہر عمل کا جائزہ اﷲ تعالی کی کتاب کے مطابق لیں۔ قول عمر فاروق رضی اﷲ تعالی کہ حسبنا کتاب اﷲ یعنی ہمارے لئے اﷲ کی کتاب( قرآن) کافی ہے-
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 745930 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.