مسلمانوں کی بے بسی ،لاچاری ، بے وقعتی اور
عرب و مسلم ممالک کی بے حسی اور بے غیرتی کی تصویر اتنی نمایاں کبھی نظر
نہیں آئی جو اس وقت نظر آرہی ہے۔ عرب ممالک کی پشت پناہی میں اسرائیلی
حکومت نے درندگی کے سارے ریکارڈ توڑ دئے ہیں۔ پوری دنیامیں اس کے خلاف
مظاہرے ہورہے ہیں لیکن عرب حکمراں اسرائیل کے ساتھ ہے۔ جب مسلم ممالک کو ہی
مسلمانوں کی فکر نہیں ہے تو دوسرے کیوں آنسو بہائیں۔ انسانیت، انسانی حقوق،
بچوں کے حقوق، خواتین کے حقوق، خواتین کی عصمت کی نگہبانی اور جنگی ضابطے
یہ سب کتابی باتیں ہیں یا کمزور ممالک کے لئے ہیں مسلمانوں کے لئے اس میں
کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ ضابطہ طاقت ور ممالک پر نافذ نہیں ہوتا۔ انسانی حقوق
کی پاسداری کا ڈھونگ کرنے والی اقوام متحدہ اسرائیل کے معاملے میں صرف بیان
بازی تک محدود ہے ۔ اس کے اسکول اور پناہ گزیں کیمپوں پر اسرائیل نے بمباری
کرکے نہ صرف قتل عام کیا ہے بلکہ وہ انسانیت اور عالمی قوانین کا کھلم کھلا
مذاق اڑا رہاہے۔ امریکہ اسلحہ سے بھرپور مدد کر رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں
ایر ڈرون کے لئے225لاکھ ڈالر کی مدد فوری طور پر امریکہ نے کی ہے۔ اس کا
وزیر دفاع محاذ جنگ پر جاکر اسرائیلی فوج کا حوصلہ بڑھا تاہے۔ جس طرح
ہندوستان میں حکومت کسی کی بھی ہومسلمانوں کے تئیں حکومت کا نظریہ نہیں
بدلتا اسی طرح امریکہ میں خواہ میں گدھے کی حکومت یا ہاتھی کی فلسطین کے
تئیں ان کا نظریہ نہیں بدلتا۔ امریکہ اور برطانیہ اپنی ناجائز اولاد
اسرائیل کی ہر حال میں حمایت کرتے ہیں اور اس کے مظالم کی پردہ پوشی کے لئے
کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اسرائیل کے ہر حملے کو امریکہ دفاع سے تعبیر کرتا ہے۔
اس بار بھی امریکہ نے یہی کیا ہے ایک طرف وہ اسرائیل کو اسلحہ کی سپلائی،
رقم کی فراہمی سمیت ہر طرح سے مدد اور حمایت کر رہا ہے دوسری طرف جنگ بندی
کی کوشش کر رہاہے۔ مغرب کے ذہن کو سمجھنا ہے تو اس سے اس کے طریقہ کار سے
سمجھا جاسکتا ہے وہ قاتل کی حفاظت بھی کرتا ہے اور اسے روکنے کا ڈھونگ بھی
کرتا ہے۔ امریکہ اگر اسرائیل کی مدد کرنا چھوڑ دے تو اگلے دن اسرائیل اپنی
اوقات میں آجائے گا۔ امریکہ میں یہودی لابی اس قدر مضبوط ہے کہ امریکہ اس
کے چنگل سے نکل نہیں پارہا ہے اسرایل جب چاہتا ہے امریکی وزیر کی بے عزتی
کرتا ہے۔امریکہ سپر پاور ہوتے ہوئے بھی یہودیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک رہا ہے۔
دوسرا پہلوبھی ہے وہ ہے امریکہ کا اقتصادی مفاد۔ امریکہ نے عرب خطہ میں
اسرائیل کو اس لئے بھی مسلط کیا ہے کہ تاکہ وہ عرب حکمرانوں کی نکیل اپنے
ہاتھ میں رکھ سکے۔ آج حقیقت یہ ہے کہ عرب حکمراں امریکہ کے زر خرید غلام
ہیں۔ سعودی عرب جو پیسہ امریکی فوج کے لئے دیتا ہے وہ پیسہ امریکہ اسرائیل
کود ے دیتا ہے۔اس طرح بلاواسطہ سعودی عرب کے ہر اقدام سے اسرائیل کو فائدہ
پہنچتا ہے۔سعودی عرب سمیت عرب ممالک کا فلسطین کی تباہی میں گھناؤنا کردار
رہا ہے۔اسرائیل اپنی مرضی سے فلسطین کا قتل عام نہیں کر رہا ہے اس میں مسلم
ممالک کی مرضی شامل ہے۔ ایران کی خاموشی بہت معنی خیز ہے۔ داعش اور کرد کے
خلاف عراق میں وہ اپنی فوج اتار چکا ہے، شام میں اس کے پاسداران انقلاب
باغیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، حزب اللہ شامی فوجی کے شانہ بشانہ لڑ رہا ہے۔
لیکن فلسطین کے معاملے میں بالکل خاموشی طاری ہے۔ یہاں یہی اسلامی اخوت ہے،
کیا یہی امام خمینی کی لاسنیہ لا شیعیہ نعرے کی حقیقی تصویر ہے۔ ایران نے
آج تک کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے اسرائیل کو کوئی گزند پہنچے یا
امریکی اور یہودی مفادات پر ضرب لگے۔سعودی عرب تو امریکہ کا پٹھو ہے اور جو
امریکہ کا پٹھو ہوگا وہ اسرائیل کا بھی غلام ہوگا۔ سعودی عرب کی حرکت سے
پوری دنیا کے مسلمانوں کو شرمندگی کا سامنا ہے۔ سعودی حکمراں کو وہ اسلام
کے لئے عار سمجھنے لگے ہیں۔ حرمین کے محافظ سے مسلمانوں کو قطعی ایسی امید
نہیں ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کی سسکیاں مسلمانوں کے کانوں تک کیوں نہیں پہنچ
رہی ہیں۔ دہلی کے مسلمان جتنی بڑی تعداد میں انڈیا گیٹ پر عید کی خوشیاں
منانے پہنچے تھے اس سے آدھی تعداد بھی اسرائیل کے خلاف مظاہرے میں شریک
ہوتے تو نہ صرف اسرائیل کو بلکہ مودی حکومت کو بھی سخت پیغام جاتا۔شہید
ہونے والے فلسطینی مسلمانوں کی تعداد دو ہزار سے اوپر پہنچ چکی ہے۔ فلسطین
کو بالکل یکا و تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ جنگ بندی کے نفاذ کے دوران اسرائیلی
فوجی کے اغوا کا بہانہ بناکر کئے گئے اسرائیلی بماری میں 150سے زائد مسلمان
شہید ہوگئے تھے۔ان میں بیشتر نوجوان ہیں۔ صحت کے شعبے سے منسلک فلسطینی
اہلکاروں کے حوالے سے ایسوسی ایٹڈ پریس نے کہا ہے کہ ان ایک سو پچاس
مسلمانوں میں سے اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں میں سے 17 کی
عمریں اٹھارہ سال سے کم تھیں جبکہ 48 کی عمریں 13 سال سے کم تھیں۔ زیادہ تر
بچوں کی ہلاکتیں ان کے اپنے گھروں میں ہی ہوئی ہیں۔گزشتہ جمعے کو غزہ کے
جنوبی علاقے رفاہ کے ایک گھر پر اسرائیل توپ کے ایک گولے کا نشانہ ایک پانچ
ماہ کا بچہ بنا تھا جبکہ اس سے ایک روز پہلے اپنے گھر کی چھت پر کبوتروں کو
دانا ڈالتے ہوئے دو بھائی اور اْن کا ایک رشتے کا بھائی ایسے ہی ایک میزائل
حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ عالمی برادری کو جھنجھوڑ دینے والا واقعہ وہ تھا
جس میں گزشتہ بْدھ کو غزہ شہر کی بندرگاہ کے نزدیک ساحل سمندر پر 9 سے 11
سال کی عمر کے چار کزن کھیل رہے تھے کہ اسرائیلی گن بوٹ سے فائر کیا جانے
والا میزائل ایک کٹیا پر گرا۔ یہ لڑکے بھاگ کر جان بچانا چاہتے تھے لیکن
ایک دوسرے میزائلی حملے نے ان چاروں کی جان لے لی۔ اس واقعے کی دلخراش
تصاویر میں خون سے لت پت ان بچوں کی لاشیں ساحل کی ریت پر مْنہ کے بل پڑی
دیکھی گئیں۔ یہ منظر اتنا افسوسناک تھا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان
کی مون نے بھی اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا، \"اسرائیل کو شہری ہلاکتوں سے
باز رہنے کے لیے اس سے بہت زیادہ اقدامات کرنا چاہیئے۔\"اسرائیل کی اس
وحشیانہ جنگ میں بیس فیصد سے زائد کمسن بچے مارے گئے ہیں۔ آدھے سے زائد
ہلاک ہونے والوں میں نوجوان ہیں۔ اسرائیل نے غزہ میں شہری علاقوں ،اسکولوں
،اسپتالوں ،مکانوں اور اقوام متحدہ کی تنصیبات کو نشانہ بنا کر بین
الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان حملوں میں سے کوئی بھی میرے نزدیک
اتفاقی نہیں ہے۔اسرائیل نے جان بوجھ کر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی
ہے اور اپنی بین الاقوامی ذمے داریوں کو پورا نہیں کیا ہے\'\'۔ اسرائیلی
فوج کے غزہ کے پاور پلانٹ ، نکاسیِ آب کے نظام اور پانی کے کنوؤں پر بھی
حملہ کیا ہے۔اسرائیلی فوج نے 2009 میں بھی غزہ کی پٹی پر مسلط کردہ جنگ کے
دوران پاور پلانٹ اور فراہمی و نکاسیِ آب کے نظام کو اسی طرح تباہ کردیا
تھا۔ حسب سابق اقوام متحدہ کے عہدے دار صہیونی ریاست کے خوف میں ایسے مبتلا
ہیں کہ وہ اس کی ننگی جارحیت اور فلسطینیوں کے راکٹ حملوں کو دو برابر
پلڑوں میں شمار کررہے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ توازن قائم کرنے کے لیے حماس
پر بھی جنگی جرائم کے مرتکب ہونے کے الزامات عاید کررہے ہیں۔اقوام متحدہ کی
انسانی حقوق کمشنر نیوی پلے نے جمعرات کو ایک بیان میں حماس پر الزام عاید
کیا ہے کہ وہ گنجان آباد علاقوں سے راکٹ فائر کرکے اور انھیں اسکولوں اور
اسپتالوں میں ذخیرہ کرکے جنگی جرائم کی مرتکب ہورہی ہے۔اقوام متحدہ کی
ہیومن رائٹس کونسل کی طرف سے اسرائیلی ملٹری ایکشن اور حماس کے راکٹ حملوں
کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا حق
کسی بھی ملک کو حاصل نہیں ہے۔ جینیوا میں ہونے والے ہنگامی اجلاس میں اقوام
متحدہ کی ہیومن رائٹس کمشنر نیوی پلے نے 47 رکنی کونسل کو بتایا کہ غزہ میں
جاری جنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں میں سے تین چوتھائی تعداد
شہریوں پر مشتمل ہے جبکہ ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ نیوی پلے کے بقول،
’’اس امر کے امکانات قوی ہیں کہ انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین
کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور جس پیمانے پر یہ خلاف ورزی ہوئی ہے وہ جنگی جرائم
کے زمرے میں آ سکتا ہے۔‘‘ نیوی پلے نے کہا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی
کے ہر ایک الزام کی باقاعدہ اور آزادانہ طریقے سے چھان بین ہونی
چاہیے۔محمود عباس ماضی میں اسرائیل کے خلاف عالمی فوجداری عدالت میں جنگی
جرائم کا مقدمہ چلانے میں تامل کا شکار رہے ہیں کیونکہ انھیں یہ خدشہ لاحق
رہا ہے کہ ان کے اسرائیل کے ساتھ کشیدہ تعلقات مکمل طور پر معاندانہ ہوسکتے
ہیں اور وہ امریکہ کے مدمقابل بھی آ سکتے ہیں۔لیکن اب غزہ کی پٹی میں
اسرائیلی جارحیت میں دو ہزار سے فلسطینیوں کی شہادت کے بعد ان پر فلسطینی
دھڑوں اور سیاسی حلقوں کی جانب سے اسرائیل کے خلاف ہیگ میں قائم عالمی
فوجداری عدالت( آئی سی سی) میں مقدمہ چلانے کے لیے دباؤ بڑھتا جارہا
ہے۔اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی میں بلاتمیز بچوں ،خواتین اور ضعیف العمر افراد
کو نشانہ بنا رہی ہے۔ امریکہ دو ہزار سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکت نظر نہیں
آرہی ہے وہ صرف ایک اسرائیلی فوج کے لئے فکر مند ہے۔ اوبامہ نے واشنگٹن میں
نیوز کانفرنس کے دوران کہا تھاکہ ’’اگر وہ ( حماس) اس صورت حال کو حل کرنے
میں سنجیدہ ہیں تو پھر وہ اسرائیلی فوجی کو غیرمشروط پر جتنا جلد ممکن
ہو،رہا کردیں‘‘۔مسٹر براک اوباما کو جمعہ کے روز اسرائیل کی وحشیانہ بمباری
میں شہید ہونے والے ایک سو زیادہ فلسطینیوں سے متعلق تو کوئی تشویش لاحق
نہیں ہوئی ہے۔البتہ وہ نیوزکانفرنس کے دوران صہیونی فوجی کی بازیابی کے لیے
ہلکان ہوئے جارہے تھے۔انہوں نے اسرائیلی فوج کو غزہ میں جارحیت سے باز
رکھنے کے لیے بھی کوئی بات نہیں کی۔البتہ وہ حماس پر ہی زوردیتے رہے کہ وہ
جنگ بندی کے لیے اسرائیل اور عالمی برادری کوسنجیدہ ہونے کا ثبوت دے۔ترک
وزیراعظم رجب طیب ایردوآن نے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی ننگی جارحیت
کو ایک مرتبہ پھر کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل
فلسطینیوں کے خلاف ہٹلر کی طرح کے فاشزم کا مظاہرہ کررہا ہے۔انہوں نے کہا
کہ وہ 2004ء میں ایک امریکی جیوش گروپ کی جانب سے ملنے والے ایوارڈ کو بھی
واپس کرنے کو تیار ہیں۔انھوں نے امریکی یہودی گروپ کو مخاطب کر کے
کہا:’’اگر آپ سفاکیت ،نسل کشی ،ہٹلر کی طرح کے فاشزم اور بچوں کو قتل کرنے
والے رجیم کی حمایت کرتے ہیں تو پھر اپنا ایوارڈ واپس لے لیجیے‘‘۔ایردوآن
نے اسرائیل کا نازی ڈکٹیٹر کے تھرڈ ریخ سے موازنہ کیا ہے جس نے ہولوکاسٹ کے
دوران یہودیوں کا قتل عام کیا تھا۔انہوں نے سوال کیا کہ’’اسرائیلی اقدامات
اور نازیوں اور ہٹلر کے اقدامات میں کیا فرق ہے؟اسرائیلی ریاست غزہ اور
فلسطین میں جو کچھ کررہی ہے،یہ اگر نسل کشی نہیں تو آپ اس کی کیا وضاحت
کریں گے۔یہ نسل پرستی ہے،یہ فاشزم ہے اور یہ ہٹلر کی روح کو زندہ رکھنے کی
کوشش ہے\'\'۔ترک وزیراعظم غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی جارحیت کے خلاف
تندو تیز لب ولہجے میں بیانات دے رہے ہیں اور ان کی اس سخت کلامی میں کوئی
تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔ان کے اس لب ولہجے کی وجہ سے اسرائیل اور امریکا
ان سے ناراض ہوچکے ہیں لیکن وہ ان کی ناراضی کو کسی بھی طرح خاطر میں نہیں
لارہے ہیں۔واضح رہے کہ اسرائیل اور ترکی کے درمیان 31مئی 2010 کو غزہ کی
جانب جانے والے امدادی بحری جہازوں پر مشتمل فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی فوج
کے کمانڈوز کے حملے کے بعد سے تعلقات کشیدہ چلے آرہے ہیں۔اس حملے میں نو
ترک رضاکار شہید ہوگئے تھے اور دونوں ممالک کے درمیان سفارتی اور سیاسی
تعلقات منقطع ہوگئے تھے۔اب ایک مرتبہ پھر غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت نے
جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور ترک وزیراعظم کے اسرائیل کے خلاف سخت بیانات
کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے امکانات معدوم
ہوگئے ہیں۔لیکن ترکی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ انہوں نے پھر امدادی
سامان روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ترک کے ساتھ غزہ میں اسرائیلی جنگ کی سب
سے پْر زور اور شدید مذمت لاطینی امریکی رہنماؤں نے کرتے ہوئے اسرائیل کو
’دہشت گرد‘ ریاست کہا ہے اور سفیروں کو واپس بلاتے ہوئے فلسطینیوں کو
متفقّہ اور اٹل حمایت کی پیش کش کی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق برازیل
میں ساؤ پاؤلو شہر کی یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات ریگنالڈو ناصر کہتے ہیں،
’’مجھے ماضی کی کوئی ایسی صورتحال یاد نہیں ہے، جس میں (اس خطے کے تمام
ملکوں نے) اس طرح ایک بلاک کے طور پر عملی ردعمل ظاہر کیا ہو۔‘‘ ابھی حال
ہیں میں سب سے سخت علامتی احتجاج بائیں بازو کے رہنما اور بولیویا کے صدر
ایوو مورالیس کی طرف سے سامنے آیا۔ انہوں نے اسرائیل کو نہ صرف ’دہشت گرد
ریاستوں‘ کی فہرست میں شامل کیا بلکہ اپنے ملک میں تمام اسرائیلیوں کے لئے
ویزا فری انٹری جیسی سہولت بھی ختم کر دی ہے۔رواں ہفتے برازیل کی خاتون صدر
ڈلما روسیف نے غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی آپریشن کو ’قتل عام‘ قرار دیا ہے۔
اسرائیل اور برازیل کے مابین سفارتی تنازعہ اس ہفتے کے آغاز میں اس وقت
شروع ہوا تھا، جب برازیل نے تل ابیب سے اپنے سفیر کو احتجاجاً واپس بلا لیا
تھا۔ لیکن دیگر لاطینی امریکی ملکوں کے رہنماؤں کی طرف سے اسرائیل کی مذمت
روسیف سے بھی سخت تھی۔ وینزویلا کے صدر نیکولس مادورو نے اسرائیلی آپریشن
کو فلسطینیوں کے خلاف ’’تقریبا ایک صدی پر محیط قتل کی جنگ‘‘ قرار دیا۔
انہی کی جماعت کے ایک قانون ساز نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی ’نسل کْشی‘
کر رہا ہے۔ تاہم برازیل کی صدر نے یہ اصطلاح استعمال نہیں کی۔پیرو،
ایکواڈور، چلی اور ال سلواڈور نے بھی مشاورت کے لئے اپنے سفیروں کو اسرائیل
سے واپس بلا لیا جبکہ کوسٹا ریکا اور ارجنٹائن نے اسرائیلی سفیروں کو طلب
کیا ہے۔ خطے کے ان دونوں ملکوں میں سب سے زیادہ یہودی آباد ہیں۔ جمعرات کو
یوروگوائے کے صدر نے بھی اسرائیل سے فوری طور پر ’فوجوں کی واپسی‘ کا
مطالبہ کیا تھا اور تل ابیب سے اپنے سفیر کی واپسی کی تجویز دی تھی۔ دیگر
بائیں بازو کے لاطینی امریکی ملک پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات
توڑ چکے ہیں۔ نکاراگوا نے 2010ء میں جبکہ وینزویلا اور بولیویا نے 2009ء کی
غزہ جنگ کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیے تھے۔ ان سے پہلے
کیوبا نے 1973ء میں یوم کِپور کی جنگ کے بعد اسرائیل سے ناطے توڑ لیے تھے۔
جس طرح لاطینی امریکی ممالک نے فلسطین کی حمایت میں قدم اٹھایا ہے اور
اسرائیل کے خلاف غصہ اور نفرت کا اظہار کیا ہے اسی طرح عرب ممالک بھی متحد
ہوجائیں تو پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ جس طرح امریکہ بغیر کسی شرط کے اسرائیل کی
ہر طرح کی مدد کرتا ہے اور اسرائیل کے ہر گناہ میں وہ شریک ہے اسی طرح مسلم
ممالک بھی رویہ اپنائیں اور کسی ضابطے کی پرواہ کئے بغیر فلسطین کو مسلح
کردیں اور اسلحہ اور دیگر بنیادی سہولتوں کے لئے رقوم فراہم کریں حماس والے
اسرائیل کوسبق سکھانے کے لئے کافی ہیں۔ اس وقت مصر میں اگر مرسی کی حکومت
ہوتی تو فلسطین میں اتنے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل نہ ہوتا۔ لیکن
افسوس کی بات یہ ہے کہ عرب شہنشاہ یہ نہیں چاہتے کہ حماس اس خطہ میں برقرار
رہے۔ عرب شہنشاہوں کو حماس سے نفرت نہیں ہے بلکہ اس کے اسلامی جمہوری نظام
سے نفرت ہے۔ حماس کی جفاکشی سے نفرت ہے۔ انہیں ان کی محنت، مشقت، اسلام
پرستی سے نفرت ہے۔ ہم بھی جانے انجانے میں اسرائیل اور یہودی کی طاقت میں
اضافہ کرتے ہیں۔ ان کے مشروبات استعمال کرکے انہیں اقتصادی طاقت فراہم کرتے
ہیں۔ اگر پوری دنیا کے مسلمان اسرائیلی اور یہودی کے مصنوعات کا بائیکاٹ
کردیں تو اسرائیل ایک دن میں اوقات میں آجائے گا اور امریکہ کی بھی ہوا
خراب ہوجائے گی۔ ایک اچھی خبریہ آئی ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے مالدار بل
گیٹس کی کمپنی نے عرب حکمرانوں کی غیرت کو للکارتے ہوئے ایک مثال پیش کی ہے۔
انہوں نے اسرائیل کو سیکیورٹی آلات اور خدمات فراہم کرنے والی بر طانوی
کمپنی سے اپنی بھاری سر مایہ کاری نکال لی ہے۔’’ G4S‘‘نامی کمپنی کا شمار
دنیا کی چند بہت بڑ ی کمپنیوں میں سے ہوتا ہے۔اس کی مالیت اربوں ڈالر میں
ہے اور دنیا بھر میں اس کے ملازمین کی تعداد چھ لاکھ سے زائد ہے۔ یہ کمپنی
غزہ میں قائم کی گئی اسرائیلی جیلوں اور چیک پوسٹوں کو سیکیورٹی خدمات
فراہم کرتی ہے جیسا کہ اوخر ، کیٹزیوٹ اور میگیڈو کی غیر قانونی جیلیں جہاں
فلسطینیو ں کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے رکھا جاتا ہے۔ فلسطینی این جی
او ’’ادا میر ‘‘ نے کئی دوسری مقامی اور بین الاقوامی تنظیمو ں کے ساتھ مل
کر بل گیٹس سے اپیل کی تھی کہ وہ برطانوی کمپنی سے اپنا سرمایہ نکال لیں جو
تقریبا 17کروڑ ڈالر تھا۔ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے خون پھر
خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا لیکن فلسطینیوں کا خون گزشتہ 67برسوں سے ٹپک
رہا ہے لیکن جم نہیں رہا ہے۔ خون بہنے کا سلسلہ مسلمانوں کی بے حسی اور بے
غیرتی کی وجہ سے جاری ہے۔کاش ہم نے عید کے دن ہی فلسطینی مسلمانوں کی جگہ
خود کو رکھ کر تھوڑی دیر غور کرلیا ہوتا تو درد کا درماں ہوسکتا ہے۔مسلم
دنیا میں عیدالفطر کا تہوار سال کے سب سے زیادہ خوشی والے دن لے کر آتا ہے
لیکن بعد غزہ پٹی میں اس عید پر صرف آنسو، آہیں اور نہ ختم ہونے والی اداسی
ہے۔ |