فلسطین تاریخ کی نظر میں
(Asif Yaseen, Jaffar Abad)
رملہ یا رام اﷲ ایک قدیم شہراور
فلسطین کی موجودہ انتظامی دارالحکومت ہے ۔ دفتری زبان عربی ہے نظام حکومت
میں صدر اور وزریر اعظم ہیں ۔ جو تاحال آزادی کا منتظر ہے ۔ 1994 ء میں نہ
ہونے کے برابر خودمختار ہے ۔ اس کا رقبہ کل 6020 مربع کلو میٹر ہے ۔
فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے یہ اس علاقے کا نام ہے
جولبنان اور مصر کے درمیان تھا اب اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی ہے۔1948ء
سے پہلے یہ تمام علاقہ فلسطین کہلاتا تھا جو خلافت عثمانیہ میں قائم رہا
مگر بعد میں انگریزوں اور فرانسیسیوں نے اس پرقبضہ کر لیا ۔ 1948ء میں یہاں
کے بیشتر علاقے پر اسرائیل ریاست قائم کی گئی ۔ اس کا دارالحکو مت بیت
المقدس تھا جس پر 1967ء میں اسرائیل نے قبضہ کر لیا ۔ بیت المقدس کو
اسرائیلی یروشلم کہتے ہیں اور بیت المقدس شہر مسلمانوں ، عیسائیوں اور
یہودیوں تینوں مذہب کے نزدیک مقدس ہے مسلمانوں کا قبلہ اول یہیں ہے ۔
فلسطین تاریخ کی نظر میں ہے :
جس زمانے میں لوگ ایک جگہ رہنے کے بجائے تلاش معاش میں چل پھر کر زندگی بسر
کیا کرتے تھے ۔ عربستان سے قبیلہ ’’ سام‘‘ کی ایک شاخ کنعانی کہلاتی تھی جو
2500قبل مسیح میں یہاں آ کر آ باد ہوئے تھے ۔ پھر آ ج سے 4000 سال پہلے
یعنی لگ بھگ2000قبل مسیح میں حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے شہر ’’ ار
‘‘ سے جو دریائے فرات کے کنارے آ باد تھا ہجرت کر کے یہاں آ باد ہوئے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسحق علیہ السلام کو بیت
المقدس میں جبکہ دوسرے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو مکہ میں آ باد کیا تھا
۔حضرت اسحق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے جن کا نام
اسرائیل بھی تھا ۔ ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلاتی ہے ۔ حضرت یعقوب علیہ
السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام ، حضرت داؤور علیہ السلام ، حضرت سلیمان
علیہ السلام ، حضرت یحیٰی علیہ السلام ، حضرت، حضرت موسیٰ علیہ السلام ،
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بہت سے دیگر پیغمبراسی سر زمین میں پیدا ہوئے
یا باہر سے آ کر یہاں آ باد ہوئے ۔ اسی مناسب سے یہ خطہ ِ زمین پیغمبروں کی
سر زمین کہلاتی ہے۔
ان علاقوں میں عبرانی قومیت (Hebrews) کے لوگوں کی آ مد کا نشان ولادت مسیح
سے لگ بھگ 1100 سال قبل میں ملتے ہیں ۔ حضرت سیموئیل علیہ السلام جو اﷲ کے
نبی تھے ۔ پہلے اسرائیل کے بادشاہ تھے ۔انہوں نے کافی عرصہ حکومت کی اور جب
وہ بوڑھے ہو گئے تو انہوں نے اﷲ کے حکم سے حضرت طالوت علیہ السلام کو
بادشاہ مقرر کیا ۔ اس واقع کا زکر قران مجید کے پارہ دوئم سورۃ بقرہ کی آ
یات 247تا 252 میں ملتا ہے ۔حضرت طالوت علیہ السلام نے 1004 قبل مسیح سے
1020قبل مسیح تک حکمرانی کی ۔ اس دوران انہوں جنگ کر کے جالوت(Goliath) کو
مغلوب کیا اور اس سے تابوت سکینہ واپس لیا جس میں حضرت موسی ٰ علیہ السلام
اور حضرت ہارون علیہ السلام کے تبرکات تھے ۔حضرت طالوت علیہ السلام کی وفات
کے بعدحضرت داؤودعلیہ السلام بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے ۔ انہوں نے پہلے
حیبرون (Hebron) اور پھر بیت المقدس میں اپنا دارالحکومت قائم قائم کیا۔ یہ
واحد شہر ہے جو عیسائیوں ، یہودیوں اور مسلمانوں کے کئے یکساں مقدس اور
محترم ہے اس شہر کا موجود ہ نام ’’ یروشلم ‘‘ حضرت داؤود علیہ السلام نے
رکھا تھا۔
حضرت داؤود علیہ السلام نے 1004 قبل مسیح سے 965 قبل مسیح تک 33سال حکمرانی
کی ۔ اور کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے 965قبل مسیح میں
حکومت سنبھالی جو 926 قبل مسیح تک 39 سال قائم رہی۔حضرت سلیمان علیہ السلام
کی وفات کے بعد اسرائیل متحدہ ریاست دو حصوں سامریہ اور یہودیوں میں تقسیم
ہو گئی ۔ دونوں ریاستیں ایک عرصے تک باہم دست و گریبان رہیں تھے ۔ 598قبل
مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصیر نے حملہ کر کے یروشلم سمیت تمام علاقوں
کو فتح کیا اور شہری اینٹ سے اینٹ بجا کر بادشاہ اور ہزاروں شہریوں کو
گرفتار کر کے بابل میں قید کر دیا گیا۔ 539قبل مسیح میں ایران کے بادشاہ
خسرو نے بابل کو فتح کیا اور قیدیوں کو رہا کر کے لوٹا ہو ا مال واپس
یروشلم بھیج دیا۔
332 قبل مسیح میں یروشلم پر سکند اعظم نے قبضہ کر لیا ۔168قبل مسیح میں
یہاں ایک یہودی بادشاہ کا قیام عمل میں آ یا ۔ لیکن اگلی صدی میں روما کی
سلطنت نے اسے زیر نگین کر لیا ۔ 135 قبل مسیح اور 70 قبل مسیح میں یہودی
بغا وتوں کو کچل دیا گیا ۔ اس زمانے میں ایک خطے کا نام فلسطین پڑ گیا
۔20اگست 636ء کو عرب فاتحین نے فلسطین کو فتح کر لیا ۔ یہ قبضہ پر امن
طریقے سے عمل میں آ یا ۔ 463سال تک یہاں عربی زبان اور اسلام کا دور دورہ
رہا ۔ تاہم یہودی ایک اقلیت کی حیثیت سے موجود رہے ۔ گیاریویں صدی کے بعد
یہ علاقہ غیرعرب سلجوق ، مملوک اور عثمانی سلطنتوں کا حصہ رہا ۔1189ء میں
سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا اوریہاں مسلمانوں کی حکو
مت قائم ہو گئی۔
چار صدیوں تک عثمانیوں کی حکمرانی کے بعد 1917 ء برطانیہ نے اس خطے کو اپنی
تحویل میں لے لیا اور اعلان بالفور کے زریعے یہودیوں کے لئے ایک قومی ریاست
کے قیام کا وعدہ کیا گیا ۔
فلسطین کی جانب سے یہودیوں کی نکل نکل مکانی 17ویں صدی میں شروع ہو گئی
۔1930ء تک نازی جرمنی کے یہودیوں پر مظالم کی وجہ سے اس میں بہت اضافہ ہو
گیا۔1920ء ، 1921ء ، 1929ء اور 1936 ء میں عربوں کی طرف سے یہودیوں کے نکل
مکانی اور اس علاقے میں آ مد کے خلاف پر تشدد مظاہرے ہوئے لیکن یہ سلسلہ
جاری رہا ۔ 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار داد کے زریعے
فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان
کر دیا ۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ء میں اپنی افواج واپس بلا لیں اور
14مئی 1948ء کو اسرائیل کی آ زاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا ۔ ہونا
تو یہ چاہئے تھا کہ اس کے ساتھ ہی فلسطین ریاست بھی قائم کر دی جاتی لیکن
ایسا نہیں ہوا ۔ درحققیت اقوام متحدہ ہی اسلام کے خلاف ہے اور اپنی طاقت کے
زریعے ہمیشہ اسلام کو نقصان پہنچانے کی ناپاک کوشش کرتا ہے ۔ بحرحال آگے
چلتے ہیں ۔ اس نا اصافی و غلط تقسیم کو عربوں نے نا منظور کر دیا اور پھر
ہمت کرتے ہوئے عراق ، سعودی عرب، لبنان ، شام ، اردن اور مصر نے مشترکہ نئی
اسرائیلی ریاست پر حملہ کر دیا ۔ تاہم اسے کالعدم قرار دینے میں اور نئی
اسرائیلی کو شکست دینے میں ناکام ہو گئے تھے اس لئے بھی کہ اقوام متحدہ نے
اندرونی طور پر اور دیگر یہودی ممالک نے اسرائیل کو سہارا بھی دیا تھا
۔بلکہ اس حملے کی وجہ سے یہودی ریاست کے رقبے میں کچھ اور بھی اضافہ ہو گیا
۔ یہاں اقوام متحدہ کی کھلی تضاد سامنے آ ئی ہے ۔ 1949ء میں اسرائیل نے
عربوں کے ساتھ الگ الگ صلح کے معاہدے کئے اس کے بعد اردن نے غرب اردن کے
علاقے پر قبضہ کر لیا جبکہ مصر نے غزہ کی پٹی اپنی تحویل میں لے لی ۔ تاہم
دونو ں عرب ممالک نے فلسطینیوں کو اٹا نو می سے محروم رکھا۔ 29 اکتوبر 1958
ء کو اسرائیل نے صحرائے سینا پر حملہ کر کے اسے مصر سے چھین لیا ۔ اور حملے
میں برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔ 6 نومبر کو جنگ
بندی عمل میں آ ئی ۔ عربوں اور اسرائیلوں کے درمیان ایک عارضی صلح کا
معاہدہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہوا جو 19مئی 1967 ء تک قائم رہا جب مصر
کے مطالبے پر اقوام متحدہ کے فوجی دست واپس بلا لئے گئے ۔ مصری افواج نے
غزہ کی پٹی قبضہ کر لیا اور خلیج عتبہ میں اسرائیل جہازوں کی امدو رفت پر
پابندی بھی لگا دی ۔
5جون 1967ء کو چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ شروع ہو گئی ۔ اسرائیلیوں نے غزہ کی
پٹی کے علاقہ صحر ائے سینا پر قبضہ کر لیا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے مشرقی
یروشلم کا علاقہ ، شام کی گولان کی پہاڑوں اور غرب اردن کا علاقہ بھی اپنے
قبضہ میں لے لیا ۔10جون کو اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرادی اور معاہدے پر
دستخط ہو گئے ۔
6 کاتوبر 1973 ء کو یہودیوں کے دن ’’ یوم کپور‘‘ کے موقعہ پر مصر اور شام
نے اسرائیل پر حملہ کر دیا ۔ اسرائیل نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے شامیوں کو
پسپائی پر مجبور کر دیا اور نہر سویز عبور کر کے مصر پر حملہ اور ہوگیا ۔
24اکتوبر 1973ء کو جنگ بندی عمل میں آ ئی اور اقوام متحدہ کی امن فوج نے
چارج سنبھال لیا ۔ 18جنوری1974 ء کو اسرائیل نہر سویز کے مغربی کنارے سے
واپس چلا گیا ۔
3اکتوبر 1976 ء کو اسرائیلی دستوں نے یو گنڈا مین انٹی بی (Entebe) کے
ہوائی اڈے پر یلغار کر 103 یرغمالیوں کو آ زاد کر لیا جنہیں عرب اور جرمن
شدت پسندوں نے اغواء کر لیا تھا ۔نومبر 1977 ء میں مصر کے صدر انور السادات
نے اسرائیل کا دورہ کیا اور 26 مارچ 1979ء کو مصر اور اسرائیل نے ایک امن
معادہدے پر دستخط کر کے 30سالہ جنگ کا خاتمہ کر دیا ۔ اس کے ساتھ ہی دونوں
ممالک میں سفارتی تعلقات قائم ہو گئے ۔ (تین سال بعد 1982ء میں اسرائیل نے
مصر کو صحرائے سینا کا علاقہ واپس کر دیا )
جولائی 1980ء میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم سمیت پورے یروشلم کو اسرائیل کا
دارالحکومت قرار دیدیا۔ 7جون 1981ء کو اسرائیلی جیٹ جہازوں نے بغداد کے
قریب عراق کا ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر دیا۔6 جون 1982ء کو اسرائیلی فوج نے
پی ایل او کی مرکزات کو تباہ کرنے کے لئے لبنان پر حملہ کر دیا ۔ مغربی
بیروت پر اسرائیل کی تباہ کن بمباری کے بعد پی ایل او نے شہر کو خالی کرنے
پر رضا مندی ظاہر کی ۔ اسی سال 14 ستمبر کو لبنان کے نو منتخب صدر بشیر
جمائل کو قتل کر دیا گیا ۔
16ستمبر 1982 ء لبنان کے عیسائی شدت پسندوں نے اسرائیل کی مدد سے دو مہاجر
کیمپوں میں گھس کر سینکڑوں فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا ۔اس سفاکانہ کاروائی
پر اسرائیل کو دنیا بھر میں شدید مذمت کا نشانہ بننا پڑا۔1989ء میں انتفادہ
کے زیر اہتمام فلسطین حریت پسندوں نے زبردست عسکری کاروائیوں کا آ غاش کیا
۔1991ء کے آ غاز میں جنگ خلیج کے دوران عراق نے اسرائیل کو کئی سکڈ
میزائیلوں کا نشانہ بنایاتھا۔ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے غزہ میں غیر
انسانی طریقے سے شہید کئے جانے والے فلسطینی بچوں و خواتین کے قاتلوں سے
جلد حساب لیا جائیگا۔ اس وقت فلسطین کے ساتھ انتہائی ظلم ہو رہا ہے اس پر
اقوام متحدہ جیسے اداروں کی خاموشی سے لگتا ہے کہ ایسے ادارے صرف یہودیوں
کی دفاع کرتے ہیں مسلم کے ساتھ ہر گز نہیں دیتے ۔
|
|