آرایس ایس،بی جے پی کی نظر مدرسوں پر؟

کھرکھودا، لڑکی کے ذریعہ بے بنیاد الزامات پر ایک تحریر،جھوٹ اور فریب پر مبنی کہانی کی حقیقت

صوبہ اتر پردیش کے مظفر نگر جس کو سید منور لشکر علی ، مظفر علی خاں نے بسایا تھا ، یہاں۰۶فیصد اکثریتی اور ۶۳ فیصد آبادی اقلیتی عوام کی ہے، نائب انتخابات اس حصہ میں قریب تر ہیں ، ایسے موقع پر آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور بی جے پی کا امن وچین سے رہنا غیر فطری تھا،کیونکہ فساد ، عیاری ، مکاری، غنڈہ گردی انکی رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کی مانند ہے۔ مظفر نگر، کانٹھ ، سہارنپور فسادات ایسی تازہ مثالیں ہیں جن سے ابھی تک بھاپ نکل رہی ہے۔

سیاست میں ہار اور جیت دونوں ایسے حصہ ہیں جن کا ہونا یقینی ہے ، لیکن آر ایس آیس اور بی جے پی کسی بھی انتخاب کے لئے ایسی نیچ اور گری ہوئی حرکت کرسکتے ہیں کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ کھر کھوداحادثہ اس کا ایک حصہ ہے جہاں ایک لڑکی نے الزام لگایا کہ مجھے جبراً اسلام قبول کروایا، میرے ساتھ زیادتی اور میرا جنسی استحصال کیا گیا ، میری کڈنی نکالی گئی۔ جو محض جھوٹ اور فریب پر مبنی تھا، جسکی وضاحت ہوچکی ہے، نہ لڑکی کے ساتھ کوئی جنسی استحصال ہوا نہ ہی کوئی کڈنی اس کے جسم سے باہر نکالی گئی۔ جہاں تک اسلام قبول کرنے کا تعلق ہے تو جبراً کسی کو اسلام قبول کروایا ہی نہیں جاسکتا یہاں تک کہ اگر کوئی مسلمان کے گھر مہمان بن کر آئے تو اس کو اسلام کی دعوت تک اس کواس کے اسلام نے دینے سے روکا ہے، کیونکہ وہ آپ کے گھرمیں مہمان ہے ۔

لڑکی مسلم لڑکے کے ساتھ فرار ہوئی ، لڑکی نے اسلام قبول کرنے کے بعد میرٹھ کورٹ میں اپنے اسلام قبول کرنے کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ میرٹھ کے بعدملازمت کی غرض سے یہ دونوں مظفر نگر مدرسے پہنچے جہاں ان لوگوں سے ووٹر آئی ڈی کا مطالبہ کیا گیا، ووٹر آئی ڈی موجود نہ ہونے کا بہانہ بنایا گیا، رات بھی ہوچکی تھی، کسی طرح ان دونوں کو مدرسہ کے اوپر رہائشی مقام میں رہائش کا بندو بست کرا دیا گیا، رات میں لڑکے نے لڑکی کو کسی سے بات کرتے ہوئے دیکھا ، جس سے وہ شک کے دائرے میں آگئی ، شک کا معاملہ نے طول پکڑا اور لڑائی میں تبدیل ہوگیا۔ لڑکی لڑنے کے بعد اپنے گھر واپس پہنچی، اور اہل خانہ سے بے بنیادالزامات کی بنی بنائی گٹھری کھول دی۔

بظاہر یہ معاملہ کسی اتفاق کا حامل نہیں لگتا ، نہ ہی کوئی چیز اتفاقی ہوتی ہے، لڑکی کارات کی اندھیری میں فون پر گفتگو کرنا آئی ڈی کا نہ ہونا اور واپس جانے کے بعد اس طرح کے بےہودہ الزامات کی بوچھاڑ کر نا خود اپنے آپ میں سازشی اقدام کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جو صبح ہوتے ہوتے واضح ہوگیا۔ ہندی اور انگریزی اخبارات نے بے سر اور بے پیر کی اس خبرکوطول دے کر مدرسے سے جوڑ دیاجو مدرسوں کے خلاف گھنونی سازش کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ الزامات کے بعد تفتیش ہوئی جن سے دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی ہوکر رہ گیا، لڑکی نے نہ صرف جبراً اسلام قبول کرنے کی بات سے انکار کیا بلکہ رپورٹس نے کڈنی اور جنسی استحصال کے الزامات کو بھی مسترد کردیا۔

نفاست اور غلاظت جن کی شہ رگ ہو وہ ایسے کیسے خاموش بیٹھ سکتے تھے۔ مظفر نگر ہی کے گاﺅں پھلت کے مدرسے کو نشانہ بنایا، ایک لڑکی نے پولیس کنٹرول روم کو فون کرتے ہوئے اپنا نام عائشہ بتایا اور یہ کہتے ہوئے فون رکھ دیا کہ ”مجھے چھڑا لیجئے“نامعلوم لڑکی کئی بار پھلت مدرسہ ”جامعةا لامام شاہ ولی اللہ “ ( شاخ ندوة العلمائ) کے استاذ کے پاس فون کرتی تھی ، بنا تفصیل بتائے فون رکھ دیتی تھی، تفتیش کے بعد مدرسہ کے استاذ کا نمبر فون ڈیٹیلس میں ملا جس کے تحت ان کو حراست میں لے کر تفتیش کی گئی ،تفتیش کے بعد مدرسے کے استاذ کو باعزت بری کردیا گیا ، لڑکی کا فون ا سکے بعد سے بند اور آئی ڈی ہری دوار کی ملی ہے۔

ان واقعات سے کئی چیزںواضح ہوتی ہیں مدارس کی بقاء، مادیت سے پرہیز کرنے والے ان امن وامان کے گہواروں کو اکھاڑ پھینکے کی ناکام سازش کا حصہ کہاجاسکتاہے۔کیونکہ اسلام آج مدرسوں سے زندہ ہے، اردو آج مدرسوں سے زندہ مسلمانوں کا تشخص بھی آج صرف اور صرف مدرسوں سے ہی زندہ ہے۔ دوسری جانب دفعہ ۰۷۳، یکساں سول کوڈ ، بابری مسجد کے بعد جو دفعہ نشانے پر ہوسکتی ہے وہ دفعہ ۵۲ ہے جہاں فریڈم آف ریلیجن پایا جاتا ہے، اس طرح کے بڑھتے ہوئے واقعات سے اس دفعہ کے خلاف آواز اٹھا کر اس کو کمزور تہس نہس کرنے کا پروپیگنڈہ بھی شامل ہونا یقینی پایا جاتاہے۔
 
Abdul Aleem Rasheed
About the Author: Abdul Aleem Rasheed Read More Articles by Abdul Aleem Rasheed: 3 Articles with 1906 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.