حکومت مخالف قوتوں کا اتحاد....جمہوریت خطرے میں؟
(عابد محمود عزام, karachi)
جو ں جوں پاکستان کا یوم آزادی
قریب آرہا ہے، توں توں ملک پر خوف و بے چینی کے منڈلاتے بادل مزید گہرے
ہوتے جارہے ہیں۔ ہر صبح نکلنے والا سورج ملکی سیاست میں مزید کشیدگی کی خبر
دے رہا ہے۔ ملک میں جمہوری سیاست دن بدن بند گلی کی جانب رواں دواں دکھائی
دے رہی ہے۔ انقلاب کا نعرہ لگانے والے دو لیڈر ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران
خان، شیخ رشید، چودھری برادران سمیت حکومت کے مدمقابل کھڑے ہیں۔ مصالحتی
حلقوں کی ہر دو فریق کے درمیان تمام مصالحتی کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔
تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دعوے کے مطابق دونوں جماعتوں کے سربراہان
عوام کی طرف سے منتخب کی گئی موجودہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اپنے تئیں
ہر قسم کا انتظام کر چکے ہیں۔ پہلے یہ خیال کیا جارہا تھا کہ یوم آزادی کے
موقع پر عمران خان اور ڈاکٹرطاہرالقادری الگ الگ اپنا اپنا ”انقلاب“ لائیں
گے، لیکن پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ کے مطابق ”انقلاب مارچ“ اور’
’آزادی مارچ“ اکٹھے چلیں گے۔ 14 اگست کو ”انقلاب مارچ“ شروع ہو گا، جس کے
لیے سب کو باہر نکلنا ہو گا۔ جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے
طاہر القادری کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک کے ذریعے
شریف خاندان کی بادشاہی ختم ہونے والی ہے۔ عوامی تحرےک نے اپنے قائد ڈاکٹر
طاہر القادری کے ”انقلاب مارچ“ کے لیے2کروڑ روپے کی لاگت سے بلٹ پروف ”ٹر ک
“ تےار کر لےا ہے، جس میں بےڈ کے ساتھ ساتھ واش روم سمےت تمام سہو لتےں
موجود ہوںگی، چودھری برادارن کا بھی اسی ٹرک مےں بےٹھنے کا امکان ہے، جبکہ
ٹر ک پر”لوگو اٹھو! قادری کاساتھ دو“ کے ساتھ مزید 8 نعرے بھی تحر ےر کےے
گئے ہےں۔ طاہرالقادری نے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ اگر کوئی پولیس
والا ان پر ہاتھ اٹھائے تو اس کے ہاتھ توڑ دیے جائیں۔ اگر کوئی راستے سے
واپس مڑے تو اسے بھی مار دیا جائے۔ دو کروڑ روپے کا شہادت پروف کنٹینر تیار
کروانے کے بعد طاہرالقادری نے کہا کہ اب یا تو شہادت ہو گی یا پھر انقلاب
آئے گا۔ انقلاب پھولوں کی سیج نہیں، ملک کی حالت بدلنے کے لیے قربانیاں
دینا ہوں گی۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری نے اپنے پیروکاروں
کو بار بار قسمیں دلوا کر عہد لیا کہ وہ ان کے مارچ میں ان کا ساتھ دیں گے۔
انقلاب کی جدوجہد میں وہ قسمیں دینے سے پہلے فرانس، چین، روس اور برطانیہ
کے انقلابات کی تاریخ بیان کرکے اس سے خود کو ملاتے رہے۔ قادری نے یہ بھی
کہا کہ اگر وہ قتل کردیے جائیں تو نو از شریف، شہباز شریف اور ان کے خاندان
کے مرد ارکان سے انتقام لیا جائے اور انہیں زندہ نہ چھوڑا جائے۔ یاد رہے اس
سے پہلے عمران خان بھی اپنے قتل ہونے کی صورت میں اپنے کارکنوں کو اس بات
کی ہدایت کرچکے ہیں کہ کارکن شریف برادران سے انتقام لیں۔ تحریک انصاف نے
وزیر اعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کے اپنے مطالبے کو دوہراتے ہو ئے
خبردار کیا ہے کہ اگر جمہوریت کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کے ذمہ دار بھی
وزیراعظم اور ان کی حکومت ہو گی۔ اگر حکومت نے عمران خان کو گرفتار کرنے یا
حفاظتی تحویل میں لینے کی کوشش کی تو اس کے خلاف پارٹی کے کارکن مزاحمت
کریں گے۔ حکومت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ آزادی مارچ ہر حال
میں ہوگا، جب ہم اسلام آباد پہنچ جائیں گے تو حکومت کی روکاوٹیں ناکام ہوں
گی۔
ان حالات میں وزیراعظم نوازشریف کہتے ہیں کہ حکومت پر یلغار کرنے والے
بتائیں کہ ہمارا قصور کیا ہے، ہماری ٹانگیں کھینچنے والے دراصل قوم کی
ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں ملکی معیشت میں نمایاں بہتری آئی
ہے اور اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک سال میں کینیڈا سے بھاگ کر
انقلاب لانے کے لیے بے تاب لوگ جب انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو انہیں کہیں
100 اور کہیں 200 ووٹ ملتے ہیں۔ 200 اور 400 ووٹوں سے انقلاب نہیں آتا،
انقلاب کا کہنے والے ملک میں فساد پھیلانا چاہتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ ان
کو ایجنڈا کس نے دیا ہے؟ دنیا میں کسی بھی ملک کو کبھی آمریت راس نہیں آئی،
قوموں نے ہمیشہ جمہوریت سے ہی ترقی کی ہے۔ جبکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب
اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے کچھ لوگ عمران خان کو
استعمال کر رہے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے بعد وہ لیڈر بن سکتے
ہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری ایک ہیں اور دونوں ملک کو تباہی کی طرف لے
کر جارہے ہیں، ملک یا نظام کو کوئی نقصان پہنچا تو عمران اور طاہر القادری
ہی ذمہ دار ہوں گے۔ گزشتہ انتخابات کے بعد ملک کی تمام جماعتوں نے نواز
شریف کو وزیراعظم تسلیم کیا، 14 ماہ بعد نواز شریف کو وزیراعظم کیسے نہ
تسلیم کیا جائے۔ موجودہ معاملات پرخاموش رہنا بے حسی ہے، جو تباہی کی طرف
لے جائے گی۔ ملک کا مستقبل جمہوریت ہے اور پیپلزپارٹی غیر جمہوری اقدام کے
خلاف مزاحمت کرے گی۔ جبکہ اس سے پہلے خورشید شاہ یہ بیان دے چکے ہیں کہ ملک
کے حالات خطرناک ہوتے جا رہے ہیں، کہیں پورا نظام ہی ختم نہ ہو جائے۔ طاہر
القادری نے اعلانات کر کے نہایت خطرناک حالات پیدا کر دیے ہیں، جس سے زیادہ
خطرہ ان جماعتوں کے لیے ہے جنہوں نے جمہوریت کی بقا کے لیے اپنے لیڈرز کی
قربانیاں دیں، اب ان حالات کے بعد خون خرابہ ہوا تو ذمے دار کون ہو گا۔ ملک
میں تصادم کی صورتحال بنتی جارہی ہے، اگراس وقت ملک میں کچھ ہوا تواس کی
ذمہ داروہ اپوزیشن جماعتیں ہوں گی جو یہ سب کچھ کرا رہی ہیں۔ آئی ایس آئی
کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ
ڈاکٹر طاہر القادری کے انقلاب کی سمت متعین نہیں ہے، طاہر القادری کے
کارکنوں نے پولیس اہلکاروں کو مارا اور ریاستی طاقت سے ٹکرائے، یہ خطرناک
رجحان ہے۔ انہوں نے کہا دشمن ممالک اپنے ایجنٹوںکے ذریعے پاکستان کو جوہری
اثاثہ جات سے محروم کرنا چاہتے ہیں، جو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی،
اسرائیلی وزیراعظم اور ایک سپر پاﺅر طاقت کو کھٹک رہے ہیں۔ امریکا 31 اگست
2014 تک افغانستان سے جارہا ہے، وہ پاکستان کو نارمل حالات میں دیکھنا نہیں
چاہتا، امریکا پاکستان کو ڈی نیو کلیئرائز کرنے کے درپے ہے، پاکستان میں
مارچوں کے ذریعے خانہ جنگی کرانے کی کوشش ناکام ہوگی، خانہ جنگی ہوئی تو
پاکستان آرمی کو آنا پڑے گا۔
دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)
کے چودہ اگست کو ہونے والے آزادی مارچ کو روکنے کے لیے دائر درخواستوں کی
سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو طلب کرتے ہوئے وفاقی اور
پنجاب حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے جلسے کے حوالے سے اپنے
اقدامات سے عدالت کو آگاہ کریں۔ درخواست گزار نے درخواست میں موقف اختیار
کیا تھا کہ آزادی مارچ سے ملک میں انتشار اور قتل وغارت کا خدشہ ہے، لہٰذا
عدالت اسے رکوانے کے لیے وفاقی حکومت کو اقدامات اٹھانے کا حکم دے۔ جبکہ
ایک رپورٹ کے مطابق لال مسجد شہداءفاؤنڈیشن کی جانب سے پاکستان عوامی تحریک
کو کالعدم جماعت قرار دینے کے حوالے سے ایک درخواست جمع کرائی گئی ہے۔
درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پی اے ٹی کے سربراہ ڈاکٹر طاہر
القادری اپنی تقاریر میں کارکنوں کو اشتعال دلا رہے ہیں۔ طاہرالقادری کے اس
بیان کہ ”15 کارکنوں کے بدلے15پولیس اہلکاروں کوقتل کردو“ کے بعد دو
اہلکاروں کو زخمی کر دیا گیا۔ طاہرالقادری عوام کو خانہ جنگی کی طرف لے
جارہے ہیں، لہٰذا ملکی سالمیت اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے پی
اے ٹی کوکالعدم قرار دیا جائے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ منہاج القرآن اور عوامی تحریک کے کارکنوں کے پولیس
تھانوں پر بلوﺅں، تشدد، گھیراﺅ جلاﺅ اور توڑ پھوڑ پر مبنی اقدامات سے تین
پولیس اہلکاروں کے جاں بحق ہونے، سی پی او سمیت سیکڑوں پولیس اہلکاروں کے
زخمی ہونے اور اسی طرح 25 پولیس اہلکاروں کو اغوا کرکے ادارہ منہاج القرآن
میں یرغمال بنانے کے اقدام سے ڈاکٹر طاہرالقادری کی فسطائی سیاست کا چہرہ
ضرور بے نقاب ہو گیا ہے، چنانچہ ملک کا ہر دردمند شہری یہ سوچنے پر مجبور
ہو گیا ہے کہ اگر ڈنڈے کے زور پر ریاست کے اندر ریاست بنانے والی اس سیاست
کو فروغ دینے کی اجازت دی گئی تو ملک خانہ جنگی کی جانب دھکیل دیا جائے گا۔
اس حوالے سے تقریباً کسی بھی سیاسی اور عوامی حلقے کی جانب سے گھیراﺅ جلاﺅ
اور قتل و غارت گری پر مبنی ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاست کو پسندیدگی کی
نگاہ سے نہیں دیکھا گیا، جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب سے سیاسی اختلافات
کو ذاتی دشمنی میں بدلنے اور اپنے کارکنوں کو جتھہ بند ہو کر پولیس تھانوں
پر حملے کرنے کے اعلانات کو عملی جامہ پہنا کر ادارہ منہاج القرآن اور
عوامی تحریک کے کارکنوں اور ان کی قیادتوں نے جس تخریبی سیاست کی بنیاد
رکھی ہے، اس کا خمیازہ قوم کو ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچنے کی صورت میں
بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت مخالف سیاست دانوں کو
تعمیری تنقیدی سیاست کا ضرور حق حاصل ہے، جس پر حکومت کو بھی کسی قسم کی
قدغن عاید نہیں کرنی چاہیے اور اپوزیشن کی جانب سے جن غلطیوں، کوتاہیوں اور
غیرقانونی حکومتی اقدامات کی نشاندہی کی جا رہی ہو، حکمران جماعت اور اتحاد
کو اصلاحی اقدامات اٹھا کر ان غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہیے، جس سے جمہوریت
کی گاڑی ٹریک پر رہ کر استحکام کی منزل حاصل کر سکتی ہے۔ تاہم اگر کوئی
حکومت مخالف تحریک کی آڑ میں پورے سسٹم اور ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچانے
کے درپے ہو تو اس کے ساتھ بہتر انداز میں آہنی ہاتھوں سے نمٹ کر ہی قانون و
آئین کی حکمرانی کو غالب کیا جاسکتا ہے، ورنہ کل کو کوئی بھی پریشر گروپ
اٹھ کر ڈنڈوں، بندوق اور بارود کے سہارے اور اپنی غنڈہ گردی کی بنیاد پر
حکومتی ریاستی اتھارٹی کو غیرموثر بنا سکتا ہے اور اپنی من مرضی کا ایجنڈا
مسلط کر سکتا ہے۔ ملک کے موجودہ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ سسٹم کو ڈی
ٹریک کرنے کا ایجنڈا رکھنے والے عناصر کو کسی صورت ان کے مقاصد میں کامیاب
نہ ہونے دیا جائے۔ سیاست دانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کہ وہ اپنے
اقتدار کی خاطر جس ملک میں اپنی سیاسی دکانداری چمکا رہے ہیں، اس کی سالمیت
کو کوئی گزند نہ پہنچنے دیں۔ اگر خدانخواستہ ملک ہی نہ رہا یا ماضی کی طرح
ملک پر طویل عرصے کے لیے جرنیلی آمریت مسلط ہو گئی تو وہ اپنی حریصانہ
سیاست کہاں چمکائیں گے۔ |
|