اتوار ۳ اگست ۲۰۱۴ کو عافیہ کی رہائی کیلئے جدوجہد کرنے والوں نے ڈاکٹر
فوزیہ کی اپیل پر یوم تشکر منایا۔اس دن کی مناسبت سے شہر قائد کے علاقے
گلشن اقبال میں واقع ڈاکٹر عافیہ کی رہائش گاہ جو کہ اب عافیت سیکریٹریٹ بن
چکا ہے وہاں اک پرہجوم پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔کانفرنس میں عافیہ
کی رہائی کیلئے روز اول سے کاوشیں کرنے والی این جی اووز سمیت انفرادی سطح
پر کام کرنے والے مختلف شخصیات نے حصوصی طور پر شرکت کی۔۲۰۰۳ سے اب تک ان
گنت پریس کانفرنس ہوئیں، ہر کانفرنس کی اپنی افادیت رہی تاہم اس کانفرنس کی
نمایاں بات یہ تھی کی پہلی بار ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ہمراہ ڈاکٹر عافیہ
صدیقی کے بچوں احمد اور مریم نے بھی حصوصی طور پر شرکت کی اور اپنے خیالات
کا اظہار کیا۔کانفرنس کا انعقاد ایک ماہ سے جاری عافیہ کی رہائی سے متعلق
وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر دائر آن لائن پٹیشن کے لئے درکار ایک لاکھ دستخط
کی مقررہ تاریخ سے قبل حصول کی کامیابی پر رکھی گئی تھی۔ پٹیشن جو کہ
امریکہ میں عافیہ کی رہائی کیلئے جدوجہد کرنے والے امریکہ شہری موری
سالاخان نے ۴ جولائی کو دائر کی تھی، جس میں واضح کیا گیا کہ اگر ایک لاکھ
لوگ اس پٹیشن پر دستخط کردینگے تو امریکی صدر اوبامہ کے سامنے اس پٹیشن کو
پیش کیا جائیگا جس کے بعد یہ ان کی صوابدید پر ہوگا کہ عافیہ کی سزا میں
تخیف کریں یا پھر اسے مکمل طور پر معاف کردیں۔اگر ان دونوں متوقع صورتوں
میں سے کسی بھی عملدرآمد نہیں کیا گیا تو یہ عالمی رائے کی حق تلفی ہوگی۔
بحرہال ۴ جولائی سے جاری اس بین لااقوامی مہم میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے
ملکوں کے باشندوں نے شرکت کی۔ایک رپورٹ کے مطابق مذکورہ پٹیشن پر سب سے
زیادہ۴۶ فیصد دستخط پاکستان کی عوام نے جبکہ باقی ماندہ ۵۶فیصد دنیا کے
دیگر ملکوں کی عوام نے کئے۔عافیہ موومنٹ کی ویب سائٹ پر اس دوران ساڑھے
تیرہ لاکھ سے زائد ہٹس ہوئے ، جو کہ اب تک عافیہ موومنٹ کی آفیشل ویب سائٹ
پر ہونے والے رابطوں میں سب سیے زیادہ ہیں۔کانفرنس میں ڈاکٹر فوزیہ ، احمد
، مریم اور عافیہ کی والدہ عصمت صدیقی سمیت ہر شخص کی خوشی دیدنی تھی۔یہ
پہلا موقع تھا کہ عافیہ سیکر یٹریٹ میں موجود ہر شخص کے چہرے پر اک اطمینان
تھا ۔ ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ موجودہ حکومت نے وعدے کے باوجودکچھ نہیں کیا
اور نہ ہی اس حوالے امریکہ میں موجود پاکستانی سفارتخانے کوئی قابل قدر
کردار ادا کیاہے۔یہ پہلا موقع ہے کہ جب عالم اقوام نے ملکر امریکی حکومت سے
عافیہ کی رہائی کیلئے براہ راست اپیل کی۔عافیہ کے بیٹے احمد نے اس موقع پر
سبھی کا شکریہ ادا کیا ، انکا کہنا تھا کہ اک طویل جدوجہد کے نتیجے میں آج
اک کامیابی حاصل ہوئی۔انہوں نے کہا کہ اس جدوجہد کو اسی انداز میں جاری
رکھا جائے گا تو بہت جلد انکی والدہ اپنے گھرمیں ہونگی۔اس روزآج سے کہیں
زیادہ بڑی خوشی اور جشن منایا جائیگا۔اس موقع پر عافیہ کی بیٹی مریم نے کہا
کہ انسانیت کے ناطے جنہوں نے بھی اس مہم میں انکا ساتھ دیا ان سب کی وہ شکر
گذار ہیں۔مریم جو کہ برسوں سے اپنی والدہ سے دور ہیں انہوں نے اپنے غم کو
بالائے طاق رکھکر مظلوم فلسطینیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیلی
مظالم کے خلاف غزہ کے معصوم بچوں کے ساتھ ہیں۔ اس دوران ڈاکٹر فوزیہ نے
غزہ، سانحہ سی ویو، آئی ڈی پیز، شہدائے افواج کیلئے کچھ دیر کی خاموشی
اختیار کی۔کانفرنس کے اختتام پر شرکاء میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔
دنیاکے لوگ خواہ کسی بھی رنگ و نسل و مذہب سے متعلق ہوں ان میں ایک بات
مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ سبھی درد کو محسوس کرتے ہیں غزہ پر حالیہ اسرئیلی
جارحیت کے خلاف دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا خطہ ہوجہاں اسرائیل کی اس
مظلمانہ کاروائی کے خلاف عملی اختجاج نہ ہواہو۔خود اسرئیل میں بھی اس حوالے
سے مظاہرے ہوئے۔ عافیہ جوکہ پاکستانی شہری ہے انہیں عالمی سیاست کی بھینٹ
چڑھایا گیااور ناکردہ گناہوں کی سزا ۸۶سالوں کی صورت میں دی گئی۔اس عافیہ
سے اظہار یکجہتی کیلئے اس پٹیشن پر رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر لوگوں نے
دستخط کئے۔
موجودہ نہج تک اس صورتحال کے پہنچنے کی وجہ کے ذمہ دار حکمرانوں پر عائد
ہوتی ہے۔نہ صرف عافیہ کے حوالے سے بلکہ اسرائیل کے حوالے سے بھی مسلم
حکمران ذمہ دار ہیں،سواارب سے زائد مسلمانوں کے باوجود ایک عافیہ آج بھی
پاند سلاسل ہیں ایک اس مظلوم کیلئے ہی اگر مسلم حکمران کچھ کر لیتے تو شائد
کہ اسرئیل کی اتنی جرائت نہ ہوتی۔امریکی و یورپ جہاں اپنا مفاد دیکھتے ہیں
اسے پانے کیلئے ہر مرحلے کو عبور کرتے ہیں ۔اس کی واضح مثال ملالہ یوسف زئی
کی ہے ، جس میں انہیں اپنا مفاد نظر آیا تو اسے سر پر بٹھالیا۔اسے ہر بڑے
سے بڑا ایوارڈ دے رہے ہیں ، لیکن افسوس ہے اس ملالہ پر اور اسکی رہنمائی
کرنے والوں پر کہ جنہیں آج نہ تو مظلوم فلسطینی بچے نظر آرہے ہیں اور نہ ہی
۱۱ سال سے امریکی قید میں عافیہ نہ ہی عافیہ کے بچے۔۔۔۔
ہمارے حکمران ہیں کہ جو امریکہ کی چاپلوسی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے
نہیں دیتے ، امریکی حکمرانوں کے سامنے انکی آوازیں خلق میں ہی رہ جاتی ہیں،
اگر آواز آتی بھی ہے تووہ صرف انکے اپنے مفاد کی آواز ہوتی ہیں، ایسے موقوں
پر انہیں عافیہ کی بوڑھی ماں ، اور بچوں سے کئے گئے وعدے بھی یاد نہیں
رہتے۔آج بھی اگر وزیر اعظم طے کرلیں کہ ایٹمی قوت پاکستان، عافیہ کو بھی
واپس لائیگا اور اسرئیل کو بھی فلسطین پر مظالم نہیں کرنے دیگااور نہ ہی
دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائیگا تو
ایسا ممکن ہی نہیں کہ اسرائیل یا کوئی اور ملک ایسا کچھ کرپائیں۔جنوبی
کوریا کی مثال سامنے ہے لیکن اتنی ہمت اور جرت وہ کہاں سے لائیں؟؟؟
سابقہ زرداری حکومت تھی یاپھر موجودہ نواز شریف کی حکومت سبھی عافیہ کے
خاندان کو صرف تسلیاں ہی دیتے رہے ہیں،ایسے حالات میں یہ آن لان پٹیشن صدر
وزیر اعظم ، وزیر داخلہ ، اور دیگر حکومتی اکابرین کیلئے ایک پیغام ہے کہ
وہ آگے بڑھیں اور اپنی ذمہ داری کو پورا کریں۔رہا امریکی صدر سے یہ توقع
رکھنا کہ وہ اس پٹیشن کے نتیجے میں آنے والی عالمی رائے کو ملخوظ نظر رکھتے
ہوئے ڈاکٹر عافیہ کو رہاکردینگے تو یہ ایک فہمی ہی ہوسکتی ہے اسے خیال کو
خوش فہمی یا غلط فہمی جو بھی نام دینا چاہیں دے دیں،تاہم یہ اقدام دنیا بھر
میں مظلوموں کیلئے جدوجہد کرنے والے پرامن لوگوں کیلئے ایک حوصلہ افزا
ہے،جس کے مثبت اثرات یقینا مرتب ہونگے۔عافیہ کی رہائی کیلئے یہ جدوجہد
رہائی جو ۱۱ برسوں سے جاری ہے حالیہ اقدام ہو یا اب تک ہونے والے تمام
اقدامات ، جدوجہد کرنے والے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی رہنمائی میں آگے بڑھتے
رہینگے، اور ایک دن وہ ضرور آئیگا کہ جب عافیہ ، اپنے بچوں ، والدہ ، اور
بہن کے ہمراہ پریس کانفرنس کرینگی اور وہ وقت اب دور نہیں ان شاء اﷲ۔۔۔۔۔۔۔ |