14اگست آرہاہے اس بار ہم یوم آزادی منائیں یا آزادی بنائیں گے؟ یہ وہ سوال
ہے جو مجھ کو سوچنے پر مجبورکرنے لگا۔واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ چند نو جوان
حصول تعلیم کے سلسلے میں شہر جانے کے لیے بس سٹاپ پر کھڑے تھے۔ وہ آپس میں
زور زور سے بحث کررہے تھے کہ یک دم ان کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ میرے پاس
آگئے اور مجھ سے چند سوال کر ڈالے ۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ سیاست تو
پاکستان کی ہر فیلڈ میں رسی بسی پڑی ہے۔کوئی بھی محکمہ ہو یا کوئی بھی ایسی
جگہ نہیں جہاں پر سیاست سے کام نہ لیا جارہا ہو۔ اب تو مساجد میں بھی سیاست
شروع ہوچکی ہے حتی کہ امام مسجد بھی اپنی اپنی پسند کا لایا جارہا ہے۔
تعلیمی اداروں میں تو سیاست کا طوطی بڑھ چڑھ کر بولتا ہے۔ کالج ، سکول اور
یونیورسٹی درس گاہ کم اور مختلف سیاسی جماعتوں کا مرکز زیادہ لگتے ہیں۔
بات ہورہی ہے ان طالب علم کی جو تعلیم کی غرض سے گھر سے نکلے مگریہ تعلیم
کی بجائے سیاست کو زیادہ اہمیت دے رہے تھے۔ ان کے نظریات اپنی اپنی سیاسی
پارٹیوں کے تابعے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ لڑکے آپس میں بہت گہرے دوست ہیں مگر
ان کے نظریات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔یہی وجہ تھی کہ ان میں سے ایک طالبعلم
جو عمران خان کا شیدائی لگتاتھا وہ بولا کہ اس بار عمران خان ہمیں 14اگست
پر آزادی دلا کر نیا پاکستان بنائے گا۔ جس پر ن لیگ کا حمایتی بولا کہ
آزادی تو ہم نے 1947میں سے حاصل کرلی اب کس سے آزادی حاصل کررہے ہو؟اس
موضوع پر ان میں کافی بحث ہورہی تھی اوروہ ایک دوسرے کو بڑے دلائل پیش
کررہے تھے۔ بحث کے دوران ان میں کافی گرماگرمی بھی ہوئی۔
یہی بحث کرتے ہوئے وہ میرے قریب آگئے اور یہی سوال مجھ سے کرڈالا کہ سر آپ
بتائیں کہ اس بار یوم آزادی منائی جائیگی یا آزادی بنائی جائیگی؟اس سوال پر
میں کچھ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ان نوجوانوں کے ذہنوں میں تعلیمی سوالات
کے بجائے سیاسی سوالا ت کیوں جنم لے رہے ہیں؟ سیاستدانوں کی روزمرہ کی نورا
کشتی نے ان طالبعلم کو کس جگہ لا کر کھڑا کردیا ہے؟یہ طالب علم تعلیم کی
بجائے سے سیاست میں دلچسپی لے رہے ہیں جبکہ ان کو تو اپنے مستقبل کے لیے
تعلیم پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
اس سے پہلے کہ میں ان کے سوال کا جواب دیتا میرے قریب کھڑے ایک ادھیڑعمر
شخص نے انہیں ایسا تفصیلی جواب دیا کہ میں خود حیران ہوگیا۔
اس نے کہا کہ حقیقت سے کوئی منہ نہیں موڑ سکتا۔ آزادی توہم نے 1947میں
ہندوؤں اورانگریزوں سے حاصل کرلی اور یہ آزادی ہم نے نہیں بلکہ ہمارے
بزرگوں نے بڑی قربانیاں دیکر حاصل کی۔ ہمارے بزرگوں نے اپنے گھر بار، زمین
،جائیداد، سے لیکر اپنی جانوں کے نظرانے تک پیش کرکے ہمارے لیے یہ نعمت
حاصل کی۔ انہوں نے کہا برخوردار آج خانصاحب جس آزادی کی بات کررہے ہیں وہ
بتائیں کہ وہ کس سے آزادی لیناچاہتے ہیں؟وہ اس وقت کونسی قید میں ہیں۔ صرف
یہ کہ ان کو اقتدار نہیں ملااس لیے وہ عوام کو ورغلا رہے ہیں۔ خانصاحب پہلے
اپنی جماعت میں دیکھیں کہ کیا وہ آزاد ہیں یا اس پر بھی کوئی قابض ہے۔
عمران خان اپنی جماعت میں سے کوئی ایک ایسا لیڈر دکھائیں جس کا دامن صاف
ہے۔ ہر دوسرا شخص تحریک انصاف کا کسی نہ کسی پارٹی سے آیا ہوا ہے۔
خان صاحب کے ساتھ اس وقت جو لوگ ان کی ٹیم میں شامل ہیں وہ آزادی دلا سکتے
ہیں؟ چوہدری بردران اور شیخ رشید پرویز مشرف دور میں اقتدار میں رہے وہ قسم
کھا کر بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور میں بھی عوام کی آزادی کے لیے
اقدام اٹھائے؟ چوہدری بردران اقتدار کی خاطر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ دیکھا
نہیں پی پی کے دور میں پرویز الہی ڈپٹی وزیر اعظم بن کر بیٹھ گئے وہ عوام
کو بتائیں تو سہی کہ انہوں ڈپٹی وزیراعظم بننے کے بعد کونسا معرکہ
ماراسوائے اس کے کہ انہیں حکومتی سطح پر مراعات ملیں۔لال مسجد کے واقعے پر
شیخ رشید یا چوہدری بردران نے اقتدار کو لات کیوں نہیں ماری؟
اس شخص نے کہا برخوردار ان سیاستدانوں کو چھوڑو اور اپنی تعلیم حاصل کرو۔
یہ کوئی بھی سیاستدان عوام سے مخلص نہیں۔ نواز شریف نے پی پی دور میں کتنے
ڈرامے کئے۔شہباز شریف نے لوڈشیڈنگ کے خلاف مینار پاکستان پر احتجاجی ڈرامہ
کیا۔ نوازشریف نے خود لانگ مارچ کیا جب کیوں نہیں سوچا کہ یہ غلط ہے یا
صحیح؟اب عمران خان کو بھی لونگ مارچ کرکے اپنا رانجھا راضی کرلینے دے۔ طاہر
القادری کا کردار آپ سب کے سامنے ہیں وہ پی پی کے دور میں دھرنا دیکر واپس
کینیڈا چلا گیا۔آج پھر اس کو عوام کا خیال آیا یا پھر اپنی جیب بھرنے کا
۔جو وہ میدان میں کودا ہے ۔ الطاف حسین جوپاکستانی عوام بہت بڑا خیر خواہ
ہے وہ اپنی موت کے ڈر سے پاکستان آنے سے ڈرتا ہے پھر وہ عوام کے مسائل کیا
جانتا ہوگا؟مولانا فضل الرحمن کو بس اپنے پیٹ سے غرض ہے۔ وہ ہر دور میں
اقتدار میں رہنے کے لیے پاپڑ بیلتا ہے۔الغرض تمام سیاستدانوں کوصرف اپنے
پیٹ سے غرض ہے عوام سے نہیں۔آپ لوگ ان باتوں میں اپنا ٹائم ضائع کرنے کی
بجائے تعلیم پر توجہ دو۔اپنا اور اپنے گھر والوں کے بارے میں سوچو۔
اس شخص کی بات سن کر میں نے اس سے اتفاق کیا اور کہا اس حقیقت سے کوئی
انکار نہیں کہ آج کل سارے سیاستدان اپنے مفاد میں عوام کو بیوقوف بنا رہے
ہیں۔ آج دنیا بھر میں مسلمان ذلیل و رسوا ہورہے ہیں مگر مسلم حکمران اپنے
اقتدار کے نشے میں مد ہوش بیٹھے ہیں۔ کبھی کسی اسلامی ملک کے سربراہ نے
مسلمانوں کی بہتری کے لیے کوئی قدم اٹھایا ہے؟ ایک او ۔ آئی ۔ سی بنائی
ہوئی ہے جو بھینس پانی میں بیٹھنے کے مترادف ہے۔آج تک اس نے مسلمانوں کے
لیے کوئی کام نہیں کیا۔
خان صاحب، طاہر القادری، جماعت اسلامی اور دیگرسیاسی جماعت جو آج ملک میں
مارچ یا انقلاب کی باتیں کررہی ہیں وہ اسلامی ممالک میں ہونے والے مظالم کے
خلاف اٹھیں اور ایک مسلم آرمی بنائیں تاکہ جیسے امریکہ ہر ملک میں ٹانگ
اڑاتاہے اسی طرح ہماری مسلم آرمی جہاں مسلمانوں پر ظلم ہووہاں جاکراپنا کام
کرے ۔ پھر دیکھیں غیر مسلم کس طرح اپنے بل میں چھپ کربیٹھتے ہیں مگر افسو س
کہ ہم اس طرف نہیں سوچتے بلکہ اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے ایمان پر قائم رکھتے ہوئے اپنے مسلمان
بھائیوں کی مدد کرنے کی توفیق دے- |