جب علاقہ گُول کے مسلمان طبقہ کی تاریخ رک سی گئی تھی۔یہاں غریب طبقے کی
صدائیں ،لسانیت و قومیت کی چٹانوں تلے دب گئی تھیں،جمہوریت کے نام سے غریب
لوگوں کو لوٹا جا رہا تھا جو اس وقت بھی جاری ہے، باطل قوتوں نے حق کے وجود
کو کھرچنا شروع کر دیا تھا۔ چندمفاد پرست اور عوام دشمن عناصر بے آسرا
جانوں کو نوچ رہے تھے۔غریب سر اٹھاکر بات کرنے اور حق کے لئے لڑنے کے بجائے
بے یار و مدد گار سر دھن رہے تھے۔ مظلوم کی چیخوں کو اس کی قسمت کا لکھا
قرار دے کر انھیں اپنے حال پہ چھوڑ دیا گیاتھا۔ تب18جولائی 2013ء کو ایک
شخص اُٹھا۔ شہزادوں کی سی زندگی کو لات ماری۔پر تعیش محلات کو چھوڑا اور
سنگلاخ راستے پر چل پڑا، رمضان کا مبارک مہینہ تھا ۔ واہ رے واہ کیا شان
عطا کی رب ِتعالیٰ نے کیونکہ شان والوں کوتو شان ہی عطا ہوتی ہے۔رب ِ
کائنات نے کس قدر اُنکے دل و دماغ میں ایمانداری ، اور خدمت خلق کا جذبہ
بھرا ہوا تھا کہ آج موت کے فرشتے کو گلے لگا لگا کر اپنی کامیابی کی کبھی
نہ مٹنے والی مثال دے رہا تھا کہ پتھر دِ ل انسانوں نے بھی اپنے دلوں کو
موم بنا کر اسی کی رہبری کو سر آنکھوں مان لیا اور اُس کی زیر قیادت میں
اسلام کو بلند کرنے کی جی جان سے کوشش میں جٹ گئے ۔یہ وہ پھول تھا جس نے
پورے گلستاں کو اپنے خوشبو سے معطر کیا ہوا تھا آج اس خوشبو میں پوری قوم
اس قدر مدہوش تھی کہ سوائے اسلام کے اور کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ اسلامی
جذبے کی جو فضا آج شہید منظور صاحب نے قوم کے دلوں میں پھیلائی تھی کہ ہر
کوئی نعرہ تکبیر کا نعرہ بلندہ کئے ہوئے اپنی بے لاگ اسلامی محبت کاکھلم
کھلا ثبوت دے رہا تھا۔ آہ!! شہید منظور صاحب کیا انسان تھے ،عشرت میں جی
رہے تھے لیکن قوم کے لیے جاگا تو ایسے سنگلاخ لیکن کامیاب راستے کا مسافر
ٹھہرا جس میں قدم قدم پر مشکلات تو ضرور تھی لیکن یہی وہ راہ تھی جہاں اﷲ
رب العزت کی رضا مندی تھی۔
قوم کے لئے جہاد کیا تو اپنی صلاحیتیوں کا بھر پور مظاہرہ کیا،حق کے لئے
لڑا اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑا، حق کی فتح کا پیغام دیتے
ہوئے لڑا قوم کے لئے قربانی بھی دی اور قوم کو مستقبل میں جینے کا سلیقہ
سکھا یا۔ ایمانی جذبہ دن بدن بڑھتا ہی جا رہا تھا کہیں مدارس کی تعمیر کا
کام اور کہیں مساجد کے میناروں کی تعمیر کا کام آج جب اپنے والدین سے آخری
بار رخصتی طلب کی تو اُس وقت بھی جامع مسجد کے میناروں کی تعمیر کا ذکر
کرتے ہوئے گھر سے ہمیشہ کے لئے نکل پڑا،دینی کاموں میں تو اول درجے پہ تھے
ہی لیکن وہ باکمال اُستاد بھی تھے۔ بچن سے ہی جوشیلا قسم کا نوجوان تھا
جوانی میں تو اس قدر قوم کی بھلائی کا جذبہ تھا کہ نا مساعد حالات میں بھی
قوم کی خاطر اپنی جان ہتھیلی پہ لئے غریبوں اور مفلسوں کا سہارا بن کر
سامنے آیا اور ہمیشہ غریبوں عوام کے لئے لڑتا رہا حق اور انصاف کی جنگ پہ
قائم رہا باطل کا ہمیشہ مخالف رہا، مظلوم عوام کا سہارا بن کر ہمیشہ ظلم کے
خلاف آواز بلند کی۔اُس کے ہر آواز ظلم کے خلاف تھی وہ حق کو حق اور باطل کو
باطل ثابت کرنے پہ ہمیشہ ڈٹا رہا ۔ شہید منظور احمد شان غریبوں کا مدرگار
تھااُس کے دل دماغ میں غریبوں عوام کے لئے ہمدردی تھی وہ واقعی قوم کا
حقیقی رہبر تھا یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے صحیح مقام پہ پہنچ گیا قوم کی رہبری
کرنابچوں کا کھیل نہیں کیونکہ رہبری کرنے کے لئے سینے میں ایک رہبر دل
رکھنا لازمی ہے یہاں دعوؤں سے کام نہیں چلتا ہے بلکہ صحیح معنوں میں قوم کی
ہمدردی کا طوفان دل میں لئے قوم کی خاطر اپنی خوشیوں کو قربان کرنا، اپنی
ہر صلاحیت کو درکار لانا پڑتا ہے۔ جس کی زندہ مثال آنے والی نسلوں کے لئے
شہید منظور احمد شان یہ کہہ کر رکھ کر گئے ہیں کہ……
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح ِ اُمم کی حیات کشمکش ِ انقلاب
وہ بزدلی کے مرض کو اس علاقے سے ختم کر کے گیا ہے اُس نے سر اُٹھا کر جینے
کا پیغام دیا ہے ۔ سراُٹھا کر جینے کا سلیقہ سکھایا ہے۔ وہ قوم کی ہمدردی
کا اس قدر دیوانہ ہو چکا تھا کہ وہ کچھ دن گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں جنت
ڈھونڈتاتوکچھ دن اﷲ کے گھر کی توسیع میں صرف کرتا،یہاں تک کہ گولیوں کی
دندناہٹ کے سامنے سینہ پھیلا کر قوم کی بھلائی کی خاطر اپنی جان نچھاور کر
دی ۔ بھلا گولیوں سے اﷲ کے شیرڈرتے ہیں ؟۔نہیں ہر گز نہیں وہ تو شہید ہوکر
ایک لا مثال زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور اپنی قوم کو بھی نئی زندگیوں کی
سوگات دے کر جاتے ہیں۔شہید منظور احمد شان بھی قوم کو انسانوں کی طرح زندگی
بسر کرنے کا پیغام دے کر گیا ہے ، قوم پر ایک ایسا احسان کر کے گیا ہے جس
کو کبھی بھی یہ قوم فراموش نہیں کر سکتی ۔
مجھ جیسا نا چیز کہاں تک اُس کی حسین زندگی کے لمحات کو صفحہ ٔ قرطاس پہ لا
سکوں بہر حال ایک ناکام سی کاشش ہے۔ یہاں پہ میں اُن لوگوں کی زبانوں کے
چند بول تحریر کے سانچے میں ڈال کر قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا
’’وہ کہتے ہیں کہ جب ہم ایک جلوس کی شکل میں گُول سے داڑم کی جانب نکلے تو
سب لوگ نعرہ بازی کرنے میں مشغول تھے منظور شان صاحب جو کہ جلوس کی قیادت
کر رہے تھے بار بار لوگوں سے پُر امن رہنے کی تلقین کر رہے تھے اس طرح سے
یہ جلوس سرزمین ِداڑم جا پہنچا۔ محبتِ قرآن میں سرشار شخص قرآن سے بے حرمتی
کرنے والے شیطانوں کی غلیظ حرکت کو کیسے برداشت کر پاتا؟۔ وہ اُس وقت کی
نام نہاد ضلع انتظامیہ سے ملا انھیں بتایا کہ ہم پُر امن طور پر احتجاج کر
رہے ہیں ہم خون خرابہ نہیں چاہتے بلکہ امن اور شانتی کے طلبگار ہیں ہماے
مظلوم جذباتوں کو سمجھنے کی کوشش کیجئے اور قصوواروں لوگوں کے خلاف کاروائی
کیجئے ۔لیکن ہائے ستم ظریفی بھیڑیا شیر کی کھال میں بھی بھیڑیاہی رہتا ہے۔
ہم قرآن پاک کے دشمنوں کوہر گز یہاں پہ برداشت نہیں کریں گے اس لئے اُنھیں
یہاں سے تبدیل کر دیجئے۔ہم پڑھے لکھے ہیں ہم ہر بات کو سمجھنے کو قوت رکھتے
ہیں بے شک یہ علاقہ پسماندگی کا شکارہے لیکن یہاں کے لوگ باشعور ہیں جو اس
طرح سے مسلمانوں کے مذہبی اثاثہ قرآن پاک کی بے حرمتی کو سیاسی رنگ دے کر
سرد خانے میں ڈالنا یہ سب سمجھنے کی بھی ہم میں قوت موجود ہے اس طرح مظلوم
مسلمانوں کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے دیکھ کراب وہ عالم کفر کی آنکھوں میں
کھٹکنے لگا۔ وہ درندہ صفت بی ایس ایف کے اہلکات یہ جان گئے تھے کہ یہ وہی
مٹی ہے جس سے کبھی صلاح الدین ، نورالدین، ٹیپو سلطان، سید احمد شہید کی
تخلیق ہوئی تھی۔ ایسے لوگوں کی مخالفت کے لئے صر ف اسلام سے محبت کا جرم
کافی ہو تا ہے اُن کو یہ معلوم ہو چکا تھا اب آزاد انسانوں کے لئے غلام
دنیا تنگ ہو چکی تھی۔ وہ آزاد جینے کی خواہش رکھنے والوں کی تلاش میں
نکلااور امن و امان اور عدل و انصاف کی بے نظیر مثالیں قائم کر کے گیا ۔کچھ
ہی لمحوں بعد بد مست بھارتی فوج نے اپنی بندوقوں کے تانے کھول دیئے اور
سامنے وہی،مسلمانوں کا درد رکھنے والا، مسلمانوں کو جگانے والا شیرببر۔ اﷲ
کے دشمنوں نے اس کے سر کی قیمت صرف ایک گولی رکھی ۔ انھیں کیا پتہ کہ خدا
جنت کے بدلے میں اسے پہلے ہی خرید چکا ہے۔ مگرجہاد کے نام سے کانپنے والے
کاہلوں کو کیامعلوم کہ جس نے گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں جنت کی حوروں کے نغمے
سنے ہوں، دنیا کی عیش و عشرت ان کے سامنے بے معنی ہو جایا کرتی ہے۔ وہ اﷲ
اور اس کے رسولؐکے دشمنوں کے خلاف لڑتا رہا۔ وہ ببر شیر کی طرح مسلم دشمنوں
پر ٹوٹ پڑتا تھا۔ آسمانی بجلی بن کران کے ناپاک عزائم کو ہمیشہ للکارتا
رہتا تھا وہ حق کا شیدائی تھا۔ہائے افسوس!!……………………پھرآخر کار وہ گھڑی آ ہی
گئی جس کا اسے بہت انتظار تھا۔ جس دن آسمان اس کے لئے سج رہاتھا۔ فرشتے اس
کے استقبال کے لئے قطاریں بنا رہے تھے۔ حوریں نغمہ گاگا کر اس کااستقبال کر
رہیں تھیں اور بالآخر اسے چیونٹی کے کاٹنے جتنی تکلیف ہوئی اور وہ اس خدا
کے پاس پہنچ گیاجس کے لئے اس نے سارے دکھ جھیلے تھے۔ خدا نے اس کی خودداری
کی لاج رکھی تھی کہ شہیدہونے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اس کے
جنازے میں شرکت کی ،بیرون ممالک میں اُن کے غائبانہ جنازے ادا کئے
گئے۔بالکل ایک نئی تاریخ رقم کر کے گئے ۔ اﷲ ان کے درجات بلند فرمائے! آمین
بھرے گلشن میں جن پہ انگلیاں اٹھیں وہی غنچے
فرشتوں کی کتابوں میں چمن کی آبرو ٹھہرے |