1970 میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے نتیجہ میں پاکستان پیپلز پارٹی
برسر اقتدار آئی تھی ۔ پیپلز پارٹی کو درحقیقت اقتدار اس وقت ملا تھا جب
بھارت کے ساتھ شدید جنگ کے بعد مشرقی پاکستان نے آزادی اور خود مختاری کا
راستہ اختیار کیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جمہوریت، بائیں بازو کے فلسفہ
اور اشتراکی طرز احساس کی حوصلہ افزائی کی اور یہ رجحانات رفتہ رفتہ عوام
کی روزمرہ زندگی میں سرایت کرتے چلے گئے۔ سیاسی محققین اور تاریخ دانوں کی
ایک بڑی تعداد کا یہ خیال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سول اور فوجی
اسٹیبلشمنٹ پاکستان پیپلز پارٹی کو اس وقت (یعنی 1971 سے ہی قبول کرنے کو
تیار نہیں تھی جب یہ پارٹی برسر اقتدار آئی تھی۔ 1972 تا 1974 کے عرصہ میں
خفیہ اداروں نے بعض فوجی افسروں کی ایسی کوششوں اور سازشوں کو ناکام بنایا
جن کا مقصد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو ختم کرنا تھا۔ ایسے تمام
مقدمات کی سماعت پاک فوج کے قانونی امور کی برانچ نے کی۔ 29فروری 1976 کو
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے محض لیفٹیننٹ جنرل محمد ضیا الحق کو ترقی دے
کر فور سٹار جنرل بنانے کے لئے سات فوجی جرنیلوں کو جبری طور پر ریٹائر کر
دیا۔ ترقی پانے والے جرنیل کو بعد ازاں پاک فوج کا سپہ سالار مقرر کیا
گیااورجنرل محمد شریف کو جوائنٹ چیفس کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ 1976
میں دائیں بازو کی قدامت پرست سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی
اتحاد کے لئے رابطے کرنا شروع کر دئیے۔ ان کوششوں کے نتیجہ میں آخر کار
11جنوری 1977 کو ایک اتحاد تشکیل دیا گیا جس کو پاکستان نیشنل الائنس (پی
این اے) یعنی پاکستان قومی اتحاد کا نام دیا گیا۔ اس اتحاد میں یوں تو
پاکستان مسلم لیگ ، تحریک استقلال، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام ،
جمعیت علمائے پاکستان، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی ، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی،
خاکسار تحریک اور آزاد کشمیر مسلم کانفرنس نے شرکت کی تھی لیکن اس کی طرف
سے جاری کئے گئے منشور پر مولانا مفتی محمود، مولانا ابو الاعلی مودودی،
پیر صاحب پگاڑاشریف، ائیر مارشل (ر) اصغر خان،نوابزادہ نصراﷲ خان اور
مولانا شاہ احمد نورانی نے دستخط کئے۔4جنوری 1977 کو وزیراعظم ذوالفقار علی
بھٹو نے مارچ میں ملک میں(مقررہ مدت سے ایک سال پیشتر )نئے عام انتخابات
کرانے کا اعلان کر دیا۔ 10جنوری کو قومی اسمبلی ختم کردی گئی اور الیکشن
شیڈول کا اعلان کر دیا گیا ۔ اس اعلان کے بعد پاکستان قومی اتحاد نے مذہبی
نعرے بلند کرتے ہوئے دائیں بازو کے سیاسی ایجنڈے کے تحت قومی سطح پر پیش
رفت کا آغاز کر دیا۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی نے اقتصادی اور صنعتی
شعبوں میں سماجی انصاف کا نعرہ بلند کیا ۔ جب الیکشن کمیشن کی طرف سے نتائج
کا اعلان کیا گیا تو قومی اتحاد کی قیادت یہ جان کر حیران و ششدر رہ گئی کہ
قومی اسمبلی کی 200نشستوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی نے 155نشستیں جیت لی
ہیں اور پی این اے صرف 35سیٹیں حاصل کر سکا چنانچہ اس نے ان نتائج کو تسلیم
کرنے سے انکار کرتے ہوئے حکومت پر دھاندلی کا الزام عائد کر دیا۔ قومی
اتحاد نے فوری طور پر نہ صرف10مارچ 1977 کو ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے
انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا بلکہ اس کے ساتھ ہی وزیراعظم بھٹو کے
استعفی کا مطالبہ کر دیا۔ جب قومی اتحاد کی طر ف سے پیش کئے گئے مطالبات
تسلیم نہ ہوئے تو ملک بھر میں فسادات کا سلسلہ چل نکلا جس کے دوران پر تشدد
مظاہرے کئے گئے، سول نا فرمانی کی گئی اور پولیس کے ساتھ تصادم کی نوبت بھی
مشاہدہ کی گئی۔ قومی اتحاد کی قیادت نے عوام کو مذہبی اور جذباتی سطح پر
متحرک اور تحریک کو زندہ رکھنے کے لئے مساجد کو اپنے ٹھکانے کے طور پر
استعمال کرنا شروع کر دیا تا کہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ وہ صرف نظام اسلام
(جس کو نظام مصطفی کی اصطلاح دی گئی) کے نفاذ کے لئے سرگرم عمل ہے۔16فروری
کو پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے )کے کارکنوں کے
درمیان تصادم ہو گیا جس کے بعد ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے ائیر
مارشل(ر) اصغر خان نے اعلان کیا کہ انتخابی نتائج سے قطع نظر یہ سال پیپلز
پارٹی کی حکومت کا آخری سال ہے ۔بھٹو حکومت نے فیڈرل سیکورٹی فورس(ایف ایس
ایف) اور پولیس کو اس صورت حال پر قابو پانے کے لئے استعمال کیا اور بڑی
تعداد میں قومی اتحادکے کارکنوں کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ قومی
اتحاد کے ایک لیڈر نے خفیہ طور پر ایک خط مسلح افواج کے سربراہوں اور
چیئرمین جوائنٹ چیفس کے نام روانہ کیا جس میں کہا گیا کہ وہ اس بحران کو
ختم کرنے کے لئے مداخلت کریں۔ گویا موصوف نے فوج کو دعوت دی کہ وہ آگے بڑھ
کر مارشل لا نافذ کرے۔جلد ہی یہ راز فاش ہو گیا کہ مذکورہ شخصیت ائیر مارشل
(ر) اصغر خان تھے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے حالات کی نزاکت کا احساس کیا
اور یوں جون 1977 میں حکومت اور قومی اتحاد کے درمیان بات چیت کا سلسلہ
شروع ہوا۔ ان مذاکرات میں حکومت کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو، مولانا کوثر
نیازی اور عبدالحفیظ پیرزادہ نے حصہ لیا جبکہ اپوزیشن کی ٹیم میں مولانا
مفتی محمود، نوابزادہ نصر اﷲ خان اور پروفیسر غفور احمد شامل تھے (تینوں اب
اس دنیا میں نہیں)۔حکومت نے اپوزیشن کے کم و بیش تمام مطالبات تسلیم کر لئے
اور سمجھوتہ کے لئے جملہ امور طے پا گئے تا ہم یہ مذاکرات اس وقت قدرے تعطل
کا شکار ہو گئے جب بھٹو صاحب نے اسی اثنا میں مشرق وسطی کے بعض ممالک کا
دورہ شروع کر دیا۔ قومی اتحاد کی طرف سے ان کے اس اقدام اور فیصلہ کو
تاخیری حربہ قرار دیا گیا۔ آپریشن فیئر پلے کی تیاری ہو گئی، چنانچہ جب
بھٹو صاحب اپنے غیر ملکی دورے سے واپس وطن آئے اور عین اس وقت جب حکومت اور
قومی اتحاد کے درمیان سمجھوتہ پر دستخط ہونے والے تھے، فوج نے سیاسی بحران
کو ختم کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے بھٹو حکومت کے خلاف کارروائی شروع کر
دی۔ 4جولائی1977 کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیا الحق اور چیف آف نیول سٹاف
ایڈمرل محمد شریف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا اور بھٹو صاحب کی منتخب
حکومت کو ختم کر دیا گیا ۔میڈیا میں انقلاب کو ایک مشکل وقت میں قدرتی
ردعمل سے تعبیر کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ امریکی میرا خون
مانگتے ہیں کیونکہ میں ہی پاکستان میں استحکام کا ستون اور یکجہتی کی علامت
ہوں،مجھے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں اور 4 اپریل 1979کو ایسا ہی ہوا۔۔روشنی
چھین لی گئی ،آواز لے لی گئی،ترقی اور خوشحالی کا پیامبر نہ رہا، مظلوموں
،غریبوں اور ہاریوں کو جینے کا حوصلہ دینے والا،اسلامی سربراہی کانفرنس
منعقدکرنے والا،اسلامی بلاک کا مصور،قائد عوام پھانسی چڑھا دیا گیا۔تاریخ
بتاتی ہے کہ وہ کرپٹ نہ تھا،محب وطن تھا غیروں کا ایجنٹ نہ تھا،ہمدرد ملک
کا تھا ،عوام کا تھا ،منافق نہ تھا۔ذہانت میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا،اس کی
نقالی کر کے آج بھی سیاستدان فخر محسوس کرتے ہیں۔۔۔میں یہ سطور لکھتے ہوئے
آج کے آزادی اور انقلاب مارچ کو بغور دیکھ رہا ہوں۔۔ خدا کرے ایسا نہ ہو
..خدا کرے ایسا نہ ہو ۔۔۔ اس وقت کے اتحاد کے باوجود قومی اسمبلی کی
200نشستوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی نے 155نشستیں جیتی تھیں آج نواز شریف
کے پاس بھی اکثریت ہے اور سیاسی یتیم لندن ،کینیڈا اور امریکہ یاترا کرتے
نظر آتے ہیں۔جمہوریت اور مفاہمت کی سیاست کے لیے مرد حر آصف علی زرداری کی
لازوال قربانی تاریخ کا حصہ ہے۔۔آمریت کے بوئے بیج کا کڑوا پھل پوری قوم
دیکھ رہی ہے ۔جمہوریت کو پنپنا چاہیے،بی بی شہید بھی جمہوریت کو بہترین
انتقام کہہ گئی ہیں۔1970 میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے نتیجہ میں
پاکستان پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تھی، پیپلز پارٹی کو درحقیقت اقتدار
اس وقت ملا تھا جب بھارت کے ساتھ شدید جنگ کے بعد مشرقی پاکستان نے آزادی
اور خود مختاری کا راستہ اختیار کیا،آج مسلم لیگ (ن) بر سر اقتدار ہے اور
مغربی سرحد سے ملحق علاقوں میں فوج آپریشن کر رہی ہے ۔۔۔۔خدا خیر کرے |