سابق وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن
آف پاکستان کنور محمد دلشاد نے ملک میں صاف٬ شفاف اور مکمل و حقیقی طور پر
غیر جانبدارانہ طور پر انتخابات کرانے کیلئے 9 نقاط پر مشتمل مندرجہ ذیل
تجاویز گزشتہ دنوں ہیومن رائٹس کمیشن کے زیر اہتمام ”Free and independent
Election Commission and Consultation with Political Parties “ کے موضوع
پر ہونے والے سیمینار میں پیش کیں ۔
1۔ ” ریفرنڈم“ کو الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے نکال دیا جائے اور اس کے
لئے ایک الگ ریفرنڈم کمیشن بنایا جائے ۔
2۔Delimitation سسٹم کو الیکشن کمیشن سے الگ کردیا جائے ۔
3۔بیلٹ پیپرز میں امیدواروں کے ناموں کے آخر میں ایک خانے کا اضافہ کیا
جانا چاہیے جس میں لکھا جائے ”ناپسندیدہ “ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ ووٹر بیلٹ
پیپر میں موجود کسی بھی امیدوار کو ووٹ دینا نہیں چاہتا ۔اس کا فائدہ یہ
ہوگا کہ وہ لوگ جو اپنے حلقے میں پسند کے امیدوار نہ ہونے کیوجہ سے پولنگ
اسٹیشن ووٹ ڈالنے کیلئے نہیں جاتے، اس کالم کے اضافے کے بعد وہ نہ صرف
پولنگ اسٹیشن جائیں گے بلکہ اس کی وجہ سے انتخابات کے دوران ٹرن آؤٹ بھی
زیادہ ہو جائے گا اور سیاسی پارٹیاں بھی صحیح٬ ایماندار اور اچھی شہرت
رکھنے والوں کو ٹکٹ ایوارڈ کرنے پر مجبور ہوں گی۔
4۔ کوڈ آف کنڈکٹ کو Representation of Peoples Act کا حصہ بنایا جائے ۔
5۔ انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کی جانب سے انتخابی اخراجات
کے حوالے سے یہ ترمیم کی جائے کہ تمام امیدوار اپنے انتخابی اخراجات کی
ادائیگیاں بذریعہ بینک اکاﺅنٹ کریں ۔
6۔ امیدوار کو صرف اس حلقے سے انتخاب لڑنے کا حق دیا جائے جس حلقے میں اس
کا ووٹ درج ہو ۔ بھارت میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے ۔
7۔ صدر مملکت کا انتخاب 1973ء کے حقیقی آئین کے آرٹیکل کے مطابق کروانے
کیلئے موجودہ طریقہ کار پر نظر ثانی کی جائے ۔
8۔ صدارتی الیکشن کے رولز پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ آئین کے شیڈول II کے
تحت 1988 کے صدارتی الیکشن رولز کے مطابق صدر کی اہلیت وہی تھی جو کہ قومی
اسمبلی کی رکنیت کے امیدوار کی مقرر تھی لیکن 2004 میں قاضی حسین احمد بنام
فیڈریشن کی رٹ میں سپریم کورٹ نے صدر کے لئے نااہلی کی شرط ختم کردی تھی
اور کہا تھا کہ صدارتی امیدوار پر آئین کے آرٹیکل 63 کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اس فیصلے کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدارتی الیکشن کے حوالے سے
رولز میں ترمیم کردی لہٰذا اس کلاز کو بھی اپنی اصل حالت میں واپس لانے کی
ضرورت ہے۔
9۔ عوامی نمائندگی کے ایکٹ 1976ء کی شق39 کی کلاز (1 ) میں ترمیم کی جائے
جس کے تحت ریٹرنگ آفیسرز کو پابند کیا جائے کہ وہ حتمی رزلٹ( consolidation
result ) فارم 14 کی بنیاد پر تیار کرنے کی بجائے ووٹو ں کی دوبارہ گنتی
کرنے کے بعد مرتب کریں۔
اس موقع پر اپنے خطاب میں کنور محمد دلشاد کا کہنا تھا کہ دنیا ایک گلوبل
ولیج بن کر رہ گئی ہے بدلتی ہوئی اس صورتحال میں ہم کسی بھی طرح پیچھے نہیں
رہ سکتے۔ قوانین ہمیشہ اقوام کی ثقافت اور مزاج کے مطابق بنائے جاتے ہیں نہ
کہ اقوام قوانین کیلئے بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ملک کاقانون دوسرے ملک
سے منفرد ہوتا ہے جو یقیناً وہاں کی قوم اور لوگوں کے مزاج کے مطابق ہوتا
ہے۔ جہاں تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کے موجود قوانین اور اس ادارے کی
آزادی اور کردار کا تعلق ہے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان آئینی حوالے سے
مکمل آزاد اور ایک خودمختار ادارہ ہے۔ 1973ء کے مکمل جمہوری آئین کی چھتری
میں پہلا انتخابی نظام بنایا گیا تھا۔ پاکستان کا یہ آئین جو کہ جمہوریت کی
روح کے مطابق بنایا گیا تھا بعد کے مارشل لاء کے ادوار میں کی گئی بعض
ترامیم نے اس آئین کی بنیادی روح کو نقصان پہنچایا۔ 1977ء کی متنازعہ قومی
اسمبلی کے بعد انتخابی قوانین میں ریفرنڈم کی شق کو شامل کرلیا گیا اس کے
ساتھ دیگر کافی تبدیلیاں کی گئیں جو کہ personal specification تھیں ۔
اکتوبر1977ء سے لیکر 2002ء تک الیکٹورل سسٹم میں جو تبدیلیاں کی گئیں اس کے
باعث الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آزادی پر حرف آیا۔ سابق صدر جنرل ضیاء
الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں1977ء
کے انتخابات کے حوالے سے جو تحقیقاتی کمیشن بنایا اس کا چیئرمین اس وقت کے
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری کو بنا دیا جو کہ بہت بڑی غلطی تھی
کیونکہ جس الیکشن کمیشن نے 1977ء کے انتخابات کا انعقاد کروایا پھر اسی
محکمے کے سیکرٹری سے کہا جا رہا تھا کہ وہ اپنے ہی کئے ہوئے اقدام کی
تحقیقات کریں جو کہ کسی بھی طرح مناسب اقدام نہیں تھا یہی وجہ تھی کہ
پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اس تمام صورتحال کا مورد الزام الیکشن کمیشن کو
ہی ٹھہرایا جس کے باعث الیکشن کمیشن کی عزت پر حرف آیا اور اس کے اثرات آج
تک زائل نہیں ہو سکے۔ اس واقعہ کی بنیاد پر ہی سیاسی جماعتوں کے الیکشن
کمیشن کے بارے میں تاثرات اچھے نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی کے تلخ
تجربات سے فائدہ اٹھایا گیا اور اپنے تجربات کی روشنی و حالات حاضرہ کی
ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ یورپی یونین سمیت دیگر قومی اور بین
الاقوامی آبزرورز کی تجاویز اور مشوروں کے بعد الیکشن کمیشن نے انتخابی
قوانین میں 40 ترامیم کی سفارشات حکومت کو بھیجوائی ہیں۔ انتخابی دھاندلیوں
سے بچنے کیلئے انتخابی عمل اور قوانین میںمزید بہتریاں لانے کی ضرورت ہے۔
قارئین کرام جناب کنور محمد دلشاد کی ریفرنڈم کے مکمل خاتمے یا اس کے لئے
الگ سے ایک کمیشن تشکیل دئیے جانے کی تجویز انتہائی صائب ہے کیونکہ ملک میں
پارلیمنٹ اور سینٹ جیسے پارلیمانی اداروں کی موجود گی میں ریفرنڈم کی ضرورت
ہی نہیں۔ اس لئے آئین سے ریفرنڈم کا آرٹیکل ہی حذف کردیا جائے اور ویسے بھی
1973ء کے حقیقی دستور میں ریفرنڈم کا آرٹیکل شامل نہیں تھا اسے اس وقت کی
ضرورت کے تحت جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء ہی کی قومی اسمبلی سے منظور
کروا کے آئین کا حصہ بنایا تھا۔ اسی طرح حلقہ بندیوں کا اختیار بھی الیکشن
کمیشن سے لے کر اس کو الگ سے ایک Delimitationکمیشن قائم کر کے اس کے
اختیار میں دینے کی تجویز بھی ناقابل نظر انداز ہے کیونکہ اس کی وجہ سے
سیاسی جماعتوں کا براہ راست الیکشن کمیشن سے ٹکراﺅ پیدا ہوتا ہے۔ بھارت میں
Delimitationکمیشن الگ سے قائم کیا گیا ہے جس کا الیکشن کمیشن سے کوئی تعلق
نہیں ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ وطن عزیز میں دو متضاد طریقہ کار کے تحت اس سسٹم
کو چلایا جارہا ہے یعنی لوکل گورنمنٹ کی Delimitation صوبائی حکومتیں کرتی
ہیں جبکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے یہ کام الیکشن کمیشن کو سونپا گیا
ہے۔ جس کی وجہ سے کئی تنازعات الیکشن کے انعقاد سے قبل ہی معرض وجود میں
آجاتے ہیں اور پر امن ماحول الزام تراشیوں کے ساتھ ساتھ تشدد کو ہوا دیتا
ہے جس سے ملک و قوم کا بے حد نقصان ہوتا ہے۔ انتخابی عمل میں مزید شفافیت
کےلئے حتمی نتیجہ ( consolidation result ) ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی بنیاد
پر مرتب کرنے کی تجویز بھی جناب کنور محمد دلشاد کی جانب سے انتہائی احسن
اور ناگزیر ہے کیونکہ اس ترمیم سے تمام الیکشن dispute کا بھی خاتمہ ہوجائے
گا جو کہ نتائج کے بعد الیکشن ٹریبونلز یا الیکشن کمیشن کے پاس داخل کی
جاتی ہیں۔ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور تھائی لینڈ کے انتخابی
عمل کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان تمام ممالک میں بھی ریٹرنگ آفیسرز اپنا
حتمی رزلٹ پرزائیڈنگ آفیسر کے فراہم کردہ فارم کی بنیاد کی بجائے تمام
ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے بعد جاری کرتے ہیں۔ بیلٹ پیپرز میں ”ناپسندیدہ “
امیدوار سے متعلق کالم کی شمولیت کی تجویز تو راقم السطور کے مطابق ارض پاک
کے عوام کے دل کی بات کے ہی مترادف ہے جس کو نظر انداز کرنا ووٹرز کی توہین
ہوگا کیونکہ اس کالم کی عدم موجودگی سے عوام نہ صرف ان امیدواروں کا بلکہ
اسے ٹکٹ جاری کرنے والی سیاسی جماعتوں کا احتساب کرنے سے محروم ہیں جو کہ
بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ الیکشن بذات خود ہی سیاسی
جماعتوں اور ان کے امیدواروں کا احتساب ہوتے ہیں تو راقم کی رائے میں یہ
سراسر غلط ہے کیونکہ اس بنا پر وہ ووٹرز جو کسی امیدوار کو ناپسند کرتے ہیں
اور پارٹی کے ساتھ نظریاتی وابستگی کی بنیاد پر ووٹ دینے پر مجبور ہیں تو
اسے حق رائے دہی نہیں بلکہ زور زبردستی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، بصورت
دیگر ووٹرز اپنا ووٹ ہی کاسٹ کرنے کے لئے گھر سے باہر نہیں آتا جس کا نقصان
اس امیدوار یا اس کی پارٹی کو تو نہیں ہوتا لیکن ملک و قوم کو اس کا ناقابل
تلافی نقصان ہوتا ہے اور وطن عزیز کے موجودہ حالات اس کا واضح ثبوت ہیں۔
ورنہ وطن عزیز آج یقیناً عالمی قیادت کا رول ادا کر رہا ہوتا۔ کوڈ آف کنڈکٹ
کوRepresentation of Peoples Act کا حصہ بنانے سے بھی الیکشن میں دھاندلی
کے راستوں کو ہر ممکن روکا جا سکتا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے انتخابات میں حصہ
لینے والے تمام امیدواروں کی جانب سے انتخابی اخراجات کی بذریعہ بنک اکاﺅنٹ
ادائیگیوں کی تجویز کا تو اس کی بدولت نہ صرف الیکشن کمیشن کی طرف سے
اخراجات کی مقررہ حد کی خلاف ورزی کا خاتمہ ممکن ہوگا بلکہ اصراف کا راستہ
روکنے اور منتخب ہونے کی صورت میں عوامی نمائندے کو اختیارات کا ناجائز
استعمال کرکے یا کرپشن کے زریعے اپنے انتخابی اخراجات بمعہ سود وصول کرنے
کی ضرورت محسوس ہو گی۔ رہی تجویز یہ کہ امیدوار کو صرف اس حلقے سے انتخاب
لڑنے کا حق دیا جائے جس حلقے میں اس کا ووٹ درج ہو جیسا کہ بھارت میں بھی
یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ تو اس حوالے سے اتنی عرض ہے کہ سوائے ملکی
اور بین الاقوامی سطح کے رہنماﺅں کے اس کا اطلاق سب پر ہونا چاہیے۔ اگر اس
ضمن میں یہ اعتراض کیا جائے کہ ملکی اور بین الاقوامی رہنماء ہونے کا ثبوت
یا معیار کیا ہوگا تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا جواب کسی کے پاس نہ ہو
بلکہ ایک عام آدمی بھی اس کا تعین باآسانی کر سکتا ہے۔
قارئین کرام جیسا کہ آپ سب کے علم میں ہے کہ ارض پاک پر اب تک ہونے والے
تمام انتخابات کی شفافیت پر صرف سیاسی جماعتوں کو ہی نہیں بلکہ عوام کے ذہن
و زبان پر کئی سوالات اور تحفظات چلے آرہے تھے کہ 12نومبر کو گلگت بلتستان
کی قانون ساز اسمبلی کے لئے ہونے والے پہلے انتخابات میں حکومت وقت پر
دھاندلی کے الزامات عائد کر دئیے گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دھاندلی، پری
پول رگنگ کے ان الزامات عائد کرنے والوں میں اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکمران
جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت متحدہ قومی مومنٹ سب سے سرفہرست
ہے۔ الیکشن میں دھاندلی کے ان الزامات کے حوالے سے اپوزیشن اور حکومتی حلیف
جماعتوں نے حصول انصاف کےلئے صدر مملکت آصف علی زرداری کو درخواستیں ارسال
کئے جانے سمیت الیکشن کمیشن سے رجوع کر لیا ہے جبکہ اخبارات ایک دوسرے پر
الزامات پر مبنی بیانات سے بھرے نظر آتے ہیں جبکہ الیکٹرانک میڈیا پر
حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کے رہنماء ایک دوسرے کو مورد الزام قرار دیتے نظر
آتے ہیں۔ ان حا لات میں سابق وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کنور
محمد دلشاد کی طرف سے ملک میں صاف٬ شفاف اور مکمل و حقیقی طور پر غیر
جانبدارانہ طور پر انتخابات کرانے کیلئے 9 نقاط پر مشتمل تجاویز کا سامنے
آنا جہاں نہ صرف خوش آئند ہے وہیں اس غیر معمولی تنازعہ کو خوش اسلوبی سے
حل کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کے پاس نادر موقع بھی ہے۔ ضرورت اس بات
کی ہے کہ ان تجاویز کو پارلیمنٹ بحث کے لئے پیش کیا جائے اور متفقہ طو ر پر
ان کی منظوری دی جائے تاکہ الیکشن کی شفافیت،غیر جانبداری اور الیکشن کمیشن
پر اعتماد کی بحالی ممکن ہو سکے اور وطن عزیز کا اس مسئلے کی وجہ سے ہونے
والے نقصان کا نہ تھمنے والا سلسلہ ختم ہو سکے۔ اگر تمام تجاویز پر عمل
درآمد کرلیا جائے تو ہم نہ صرف الیکشن کمیشن کو مزید مضبوط ادارہ بنا سکتے
ہیں بلکہ جمہوریت کی حقیقی روح کو بھی اپنا سکتے ہیں ۔ |